آئی جی پنجاب کا دبنگ خطاب

آئی جی پنجاب کا دبنگ خطاب
آئی جی پنجاب کا دبنگ خطاب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آج کل سوشل میڈیا پر انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب امجد جاوید سلیمی کے خطاب کا خوب چرچا ہے ، آئی جی پنجاب نے عوام الناس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وطن عزیز کی سب سے بڑی پولیس فورس جو اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور جانفشانی ے لئے جانی جاتی ہے اس کی سربراہی میرے لئے اعزاز کی بات ہے ، عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگی اور شہریوں کو بہتر خدمات کی فراہمی کے لئے ہم اپنے دائرہ کار اور انتظامی امور مزید بہتر کر رہے ہیں ، دور جدید کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اپنے نظام اور روزمرہ کے کام کو کمپیوٹرائزڈ کر رہے ہیں ، ہمیں فخر ہے کہ ہمارے جدید اور منفرد آئی ٹی پراجیکٹ جیسا کہ فرنٹ ڈیسک ، کریمنل ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم ، ہیومن ریسورس مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم ، پولیس کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم ، 8787، خدمت مراکز اور پنجاب پولیس انٹریگریٹڈ کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹرز ملک کے دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے قابل تقلید مثالیں ہیں ۔

مجھے یقین ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے پنجاب پولیس کی کارکردگی میں کئی گنا زیادہ بہتری آئے گی ۔سیاسی طور پر غیر جانبدار اپنے کام میں خود مختار ، جمہوری طور پہ جواب دہ ،پیشہ ور منظم اور شہریوں سے موثر رابطہ رکھتے ہوئے پنجاب پولیس بہتر سروسز فراہم کرسکے گی ، آئی جی نے کہا کہ ہماری اؤلین ترجیح شہریوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کو یقینی بنانا ہے ۔خطاب کے اختتام پر پاکستان یا پنجاب پولیس زندہ باد کا نعرہ سنائی دیا اور نہ ہی شہدائے پولیس کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا ، خیر وقت کی کمی آڑے آئی ہو گی ورنہ آئی جی نے جس طرح کہا کہ ہم سیاسی طور پر غیر جانبدار اور خود مختار ہو کر کام کریں گے یہ فقرہ قابل ستائش ہے ، آئی جی کی تقرری یقیناٍغیر سیاسی عمل ہے اور پھر سیٹ سنبھالتے ہی جس طرح محکمہ پولیس میں اکھاڑ پچھاڑ کی گئی وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، یعنی پنجاب پولیس کے نا پسندیدہ اور ایماندار آفیسرز کو پنجاب سے نکال کر وفاق میں بھیج دیا گیا جہاں وہ نئے سرے سے کام کریں گے اور یہ عمل بھی غیر سیاسی ہی کہا جائے گا ۔

شہداء کے لواحقین کے لئے فنڈز ، شہداء کی قربانیوں پر لواحقین کو رقوم کا اجراء ، بیمار پولیس والوں کو علاج معالجہ کی سہولت ، شہید ہونے اور وفات پانے والے ملازمین کے پسماندگان کو تحفظ اور اُن کے بچوں کے لئے نوکریوں کا انتظام یہ سسٹم آج سے ایک کچھ عرصہ پہلے دیکھنے کو ملا جس کا سہرا سابق سی سی پی او لاہور امین وینس اور ایس ایس پی ایڈمن رانا ایاز سلیم اور اُن کی ٹیم کے سر سجتاہے جنہوں نے اس سارے سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ کیا تاکہ شہدائے پولیس کے لواحقین کو کسی دفتر کا چکر نہ لگانا پڑے اور ہوا بھی ایسا کہ شہید کی بیوہ کی بات سننے کے لئے خواتین ملازمین کو تعینات کیا گیا تاکہ شہید کی بیوہ مرد ملازم کے ساتھ بات کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے ۔میرا خیال میں آئی جی اگر شہدائے پولیس کے لئے قائم کئے گئے مراکز کا ذکر کرتے ہوئے کہتے کہ ہم اُس کام کو مزید بہتر بنائیں گے تو ایک اچھا شگون سامنے آتا ۔

میں پنجاب پولیس اور سرکاری اداروں کا دھیان اس طرف نہیں لے جاتا چاہتا کہ جس سے پتا چلے کہ آئی جی محمد طاہر کو غیر سیاسی طور پر تبدیل کیا گیا یا یہ کہ موجودہ آئی جی غیر سیاسی طریقے سے تعینات ہوئے ہیں ، میں یہ بھی نہیں کہنا چاہتا کہ آئی ج ی اسلام آباد جان محمد کا تبادلہ غیر سیاسی تھا اور نہ ہی یہ کہنا چاہوں گا کہ آئی جی موٹر وے عامر ذوالفقار کا تبادلہ غیر سیاسی ہے یا نہیں ہے یہ تو حکومتی ایوانوں کی باتیں ہیں ، موجودہ آئی جی کا اپنے سامنے’’ پروم ٹر‘‘ پر لکھی ہوئی تحریر کو اعتماد کے ساتھ فر فر پڑھ کر سنانا بہر حال ایک خوبصورت کاوش ہے ، کیونکہ اس طرح شہریوں کو یقیناً اپنی جان و مال کا تحفظ محسوس ہو گا ۔میری دعا ہے کہ جس طرح آئی جی نے اپنے جذبات اور پولیس کی نمائندگی کرتے ہوئے خطاب کیا ہے اللہ کرے کہ اُن کی یہ کوشش کامیاب ہو اور پنجاب میں جرائم کی شرح کم ہو جائے ، آئی پنجاب سے کہنا چاہوں گا کہ وہ تھانہ کلچر کو یکسر تبدیل کریں ، تھانوں کو شہریوں کے لئے تحفظ گاہ بنائیں ،

تھانے میں جانے سے جو شہری کتراتے ہیں اُن کا ڈر ختم کریں ، لاہور اور پنجاب کے دوسرے شہروں سے قبضہ مافیا اور انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کا قلع قمع کریں ، موٹر سائیکل ، کار ، بس ، جیپ ، چنگ چی اور ٹرک ڈرائیورز کے پاس لائسنس ہونا لازمی قرار دیں ، کم عمر بچوں کو موٹر سائیکل چلانے اور اُس پر کرتب دکھانے کی اجازت دینے والے والدین کو جیل کی سزا کا قانون بنایا جائے ۔پولیس ملازمین کو اختیارات دیئے جائیں کہ وہ بغیر لائسنس ہر طرح کی گاڑی کو تھانے میں بند کر سکے ، تھانے میں جگہ تھوڑی ہو تو دور دراز گورنمنٹ کی پڑی ہوئی میل ہا میل اراضی پر گاڑیوں کو بند کرنے کا انتظام کیا جائے ، بغیر لائسنس جو گاڑی بند کی جائے وہ ڈرائیور جب تک لائسنس لے کر نہ آئے اُس گاڑی کو نہ چھوڑا جائے ،

دھواں چھوڑنے والی اور ان فٹ گاڑیوں کی انسپکشن کرائی جائے جو گاڑیاں سڑک پر چلنے کے قابل ہوں انہیں سرٹیفیکیٹ اشو کیا جائے کہ وہ سفرکے قابل ہیں ، آئی جی صاحب آپ سے اور آپ کے محکمے سے شہریوں کو بہت اُمیدیں وابستہ ہیں اور شہریوں سے کئے جانے والے خطاب نے اُن امیدوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے لہذا صرف ایک کام کرنے سے آپ کے کہے گئے تمام کام بخوبی انجام پا سکتے ہین اور وہ کرنے والا کام یہ ہے کہ آپ پولیس میں کسی قسم کی سیاسی مداخلت کو قبول نہ کریں اگر کوئی ایسا کرنے کا کہے تو ڈائریکٹ وزیر اعظم تک یہ بات پہنچائیں انشا اللہ مداخلت کرنے والے کو آرام آجائے گا ۔آئی جی پنجاب سے یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ پولیس کے شہداء کے لواحقین کی سہولیات کے لئے بنائے گئے مراکز پر خصوصی توجہ دیں تاکہ جن ملازمین نے اپنی جانیں دے کر شہریوں کو تحفظ فراہم کیااُن کے بیوی اور بچے بھی محفوظ اور آرام دہ زندگی گزار سکیں ۔

مزید :

رائے -کالم -