بریگزٹ کے بعد کا یورپ کیسا ہوگا ؟؟
سابق برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے مقبولیت کے ضعم میں ایسا جوا کھیلا کہ یورپ سے علیحدگی اور امیگریشن پر برطانوی دارالعوام کی بجائے ایک سیاسی سوال جس پربرطانوی عوام پہلے ہے حساس تھی ان سے براہ راست پوچھ لیا۔ وزیراعظم کا کام اپنی مقبول حکومت کا وقت پورا کرنا ہوتا ہے ناکہ خوش فہمی میں اپنے پاؤں پہ کلہاڑی مارنا۔ ریفرنڈم میں عوام کی اکثریت نے یورپ سے علیحدگی کا عندیہ دیا اور کیمرون کو گھر جانا پڑا۔ ٹوری پارٹی کو بمشکل آئرش پارٹی (ڈی یو پی) سے شراکت داری میں حکومت بنانا پڑی اور موجودہ برطانوی وزیراعظم تھریسا مئے ابھی بھی بریگزٹ کے معاملات پر قانون سازی کو دیکھ رہی ہیں اور اسکے مضمرات پر برطانوی عوام کو ایک طرف خوش رکھنے اور دوسری طرف یورپ سے اقتصادیات ، دفاع، بارڈر سیکورٹی اور امیگریشن جیسے مسائل سے مل جل کر کام کرنے اور اسکا مستقل حل نکالنے کے لئے کوشاں ہیں۔ یورپین یونین بھی اس معاملے کی حساسیت سے آگاہ دکھائی دیتی ہے۔
بریگزٹ کے بعد کا برطانیہ اور یورپ جہاں بہت سے مسائل لیکر آئیگا وہاں دنیا میں اس حوالے سے متوقع مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ دونوں طاقتوں کو کن بڑے بڑے مسائل کا سامنا ہے۔
دفاع: بریگزٹ نے جہاں اپنے اپنے ملکی دفاع کا امکان پیدا کیا ہے وہیں یہ فیصلہ نیٹو اور مشترکہ دفاع کے فورم پر اثر انداز بھی ہوا ہے۔ برطانیہ اگر صرف اپنے دفاع پر توجہ مرکوز رکھے گا اور یورپ اپنی مشترکہ دفاعی فورس بنائے گا تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مشترکہ کوششوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہوگا۔ آج کل کے دور میں ملکی سلامتی کے تحفظ کیلئے معلومات تک رسائی اور بروقت اسکے اشتراک سے بڑے بڑے نقصانات سے بچا سکتا ہے۔ 11 ستمبر کا امریکہ میں دہشت گردی کا واقعہ ہو یا 7 جولائی کا برطانیہ میں حملہ ، پاکستان میں 16 دسمبر کو بچوں کے سکول پر دہشت گردی ہو یا فرانس کے ایک کنسرٹ پہ دہشت گردوں کی یلغار ۔یہ تمام واقعات یہ بتاتے ہیں کہ مشترکہ تعاون اور اقوام متحدہ کی پلیٹ فارم اور نیٹو افواج اور یورپ اور امریکہ اور ایک طرح سوچنے والی دنیا کے عزم کے باوجود یہ واقعات ہوگئے۔ یہی لمحہ فکریہ ہے۔سیکیورٹی کمزوریاں مزید پیچیدہ ہوں گی اگر مشترکہ کوششیں انفرادی کوششوں میں تبدیل ہو گئیں اس لئے ضروری ہے کہ یورپ اور برطانیہ بریگزٹ کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے عزم کو کم نہ ہونے دیں اور ایسا فریم ورک تشکیل دیں جس سے عوامی احساسات کی نمائندگی بھی ہو اور انکی حفاظت کے لئے ضروری لوازمات بھی پورے ہوں۔ اسکے لئے مشترکہ فوج سے زیادہ مشترکہ سیاسی عزم ضروری ہوگا تاکہ ایک پہ حملہ سب پہ حملہ تصور ہو اور اپنے ملک کے ساتھ ساتھ اپنے ہمسائیوں کو بچانا بھی شامل حال ہو۔
اقتصادیات۔ بریگزٹ کے بعد جہاں اقتصادی طور پر ہر ملک اپنے اقتصادی مفادات کو مدنظر رکھے گا وہیں سنگل مارکیٹ اور یورپین مشترکہ مارکیٹ کے انہدام کے بعد مواقع اور مشکلات ایک ساتھ پیدا ہوں گی۔ جہاں بین الاقوامی دنیا ایک مارکیٹ سے ایک کرنسی میں تجارت جاری رکھ سکتے تھے یا رکھے ہوئے تھے وہیں اب انہیں دو جگہ معاہدات کے حصول کا اپنی مرضی یا کم نرخوں پر حصول ممکن ہوسکے گا۔
امیگریشن: بریگزٹ کی ایک وجہ امیگریشن کو ایک سیاسی نعرے کے طور پر اسکا استعمال بھی ہے۔ افغانستان عراق اور شام کی جنگوں کے بعد دنیا میں لوگوں کا تحفظ کی خاطر امیر ممالک کی طرف رخ کرنا ایک فطری عمل ہے۔ اس سے مناسب انتظامات کے ذریعے نپٹا تو جا سکتا ہے لیکن صرف نظر کرکے بچا نہیں جا سکتا۔ اگر آپ ان ممالک میں جنگیں چھیڑتے ہیں جن سے آپکا کوئی واسطہ بھی نہیں تو ان ممالک کے افراد فیصلہ سازوں کے ممالک میں آکر پناہ کی درخواست کا حق رکھتے بھی رکھتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذریعے کوٹہ ذمہ دار ی کی منصفانہ تقسیم یقینی بنا سکتا ہے۔ برطانیہ اور یورپ میں بائیں بازو کی جماعتوں نے امیگریشن کو ایک بوجھ کے طور پر لیا ہے اور جو خدمات تارکین وطن نے یورپ اور لندن کو ملٹی کلچرل اور برداشت پر مبنی معاشرہ بنانے کے لئے دی ہیں وہ یکسر نظر انداز نہیں دی جا سکتیں۔ برطانیہ میں چکن تکہ مسالہ ہو یا مختلف اقسام کے کھانے مصالحے دار اشیا اور مختلف کلچر ثقافتوں اور زبانوں اور مذاہب کا امتزاج ایک بھرپور معاشرے کی نشانی ہے اور تارکین وطن کی وجہ سے ہی ممکن ہے۔ برطانیہ اور یورپ کے ہسپتالوں کو مشکل وقت میں ان ہی ممالک کے ڈاکٹروں اور نرسوں نے اس کمی کو پورا کیا اور اقتصادی ترقی میں سیاحت اور تعلیمی انڈسٹری پیش پیش ہے۔ امیگریشن ایک جاری عمل ہے برطانیہ اور یورپ کو اپنا گھر قانونی انداز میں صحیح رکھنے کی ضرورت ہی ناکہ امیگریشن کے اوپر ایک غیر ضروری ابہام یا قانونی مشکلات پیدا کرنے سے جسکا نقصان مقامی کمیونٹی کو تو ہوگا ہی ، لیکن یہ ممالک بھی ان فیصلوںْ کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔
دونوں ممالک کی ورکرز : بریگزٹ کے بعد ان لاکھوں افراد کو قانونی تحفظ پہچانا بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا جو لوگ پہلے ایک دوسرے کے ممالک میں سکونت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ چاہے وہ بزنس مین ہو یا سروس اور پروفیشنل ہنرمند افراد انکے قیام کو ایک مختصر عرصہ میں قانونی شکل دینا بھی ایک لمحہ فکریہ ہوگا۔
بارڈر :بریگزٹ سے پہلے لاکھوں افراد روزانہ ویزہ کے بغیر یا سمندری پورٹ اور ائیرپورٹ کے اوپر داخلے کے قانونی حقدار تھے۔ یورپین یونین ایکٹ 2006 ان تمام شہریوں کو تحفظ فراہم کرتا تھا جو یورپین فریم ورک کے تحت ایک دوست ملک میں سیر و سیاحت ، کام ڈھونڈنے، تعلیم حاصل کرنے، بزنس یا ریٹائرمنٹ کے لئے کسی دوسرے یورپی ملک کا انتخاب کرتے تھے۔ اب یہ سہولیات ختم ہوں گی تو یورپ میں فاصلوں اختلافات اور عالمی جنگوں کے دوران پائی جانے والے اختلافات کو ہوا دیں گی۔ ان اختلافات کو جنگوں کی شکل نہ بننے دینا سیاسی لیڈرشپ کا امتحان ہوگا تاکہ مشترکہ مفادات عوامی مفادات کے تابع رہیں اور یورپ کی سلامتی کو ممکن بنا سکیں۔
بریگزٹ اور تارکین وطن : بریگزٹ نے تارکین وطن کو ایک دفعہ جھنجھوڑا ضرور ہے کہ اگر برطانیہ سفید فام یورپین افراد کے ساتھ نہیں رہ سکتا تو وہ کب تک باقی اکائیوں کو کیسے برداشت کرے گا خاص طور پر اقلیتوں کو لیکن اسی میں ہی اسکا جواب پنہاں ہے کہ عقلمندی آگے جانے میں ہے ناکہ پیچھے جانے میں اور عوام نے نسلی تعصب امتیازی سلوک اور نفرت کو ختم کرنے میں سالوں لگائے ہیں اور یہ کامیابی دنوں میں ختم نہیں کی جا سکتی۔ تارکین وطن کو اس مشکل میں مواقع ہی ملیں گے کیونکہ کاروبار اور سروس انڈسٹری میں عددی خلا کو رہائشی اپنے ممالک کے تعاون سے پورا کرسکتے ہیں اور ملازمت کے وسیع موقعے دونوں جگہوں پر انکے منتظر ہیں۔
بریگزٹ اور علیحدگی پسند تحریکیں: ایک بات طے ہے کہ بریگزٹ کا بخار یہیں نہیں رکے گا بلکہ اگر برطانیہ اس پر قابو نہیں پاتا تا اسکے اثرات سکاٹ لینڈ اور آئیرلینڈ کی حدود سے باہر بھی جا سکتے ہیں۔سکاٹ لینڈ نے پہلے ہی بریگزٹ کے مخالف ووٹ دیا تھا۔ اور اب بھی وہ دوسرے ریفرینڈم کے حامی ہیں۔جو بھی ہو آنے والے دن مہینے اور سال یورپ میں ایک نئی روایت کی ابتدا کررہے ہیں جو یورپ تک محدود نہیں رہے گی اسکے دیرپا اثرات ملکی بین الاقوامی دنیا پر ہوں گے اور رہیں گے اور ان کے جھٹکے بین الاقوامی تعلقات کی دنیا میں قابل زکر اور نمایاں ہوں گے۔آنے والے دن ایک دلچسپ اور نئے ورلڈ آرڈر کی نوید سنا رہے ہیں جس میں سلامتی کونسل کے اراکین ممالک کا نیا مقام اورکردار وقت متعین کرے گا۔(بلاگربیرسٹر امجد ملک برطانوی قانون دان ہیں ایسوسی ایشن آف پاکستانی لائیرز برطانیہ کے چئیرمین ہیں )
۔
یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔