اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 51
حضرت شاہ کلیم اللہ ؒ جہاں آبادی کے عہد میں جمنا میں اتنا زبردست سیلاب آیا کہ دیلی کے غرق ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ جب سب تدبیریں ناکام ہوگئیں تو لوگ شاہ کلیم اللہ ؒ کے پاس آئے اور آپ کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے آگاہ کیا۔ آپ فوراً جمنا کے کنارے پہنچے۔ آپ کے ہاتھ میں قرآن مجید تھا۔ آپ نے دعا فرمائی۔
’’ یا اللہ ! تیری مقدس کتاب ہمارے پاس ہے۔ کیا تو اس کی موجودگی میں ہمیں غرق کردے گا۔ ‘‘ آپ کے اتنا کہتے ہی دریا کا پانی اُترنا شروع ہوگیا۔
***
ایک مرتبہ بادشاہ شاہ جہاں کا بیٹا داراشکوہ بیمار ہوگیا اور طبیب اس کے علاج سے عاجز آگئے۔ اس وقت داراشکوہ کی عمر بیس سال کی تھی۔ شاہ جہاں اس کو حضرت میاں میرؒ کے پاس لے گیا اور کہا کہ’’ طبیبوں نے اس کے علاج سے ہاتھ کھینچ لیا ہے، آپ توجہ فرمائیں۔ ‘‘
حضرت میاں میرؒ نے ایک پیالہ پانی کا دم کر کے دیا کہ اس کے پلایا جائے۔ اس پانی کے استعمال سے اللہ تعالیٰ نے اس کو اُسی ہفتے شفا عطا کردی۔
***
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 50پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
شیخ جمال الدینؒ کے ایک فرزند دانش مند تھے جو دیوانے ہوگئے تھے۔ حضرت شیخ نظام الدین اولیاؒ فرماتے ہیں کہ وہ گاہے گاہے ہوش میں آتے اور عقل کی باتیں کرتے تھے۔ ایک دن اُن کی زبان سے سنا ’’العلم حجابُ اللہ الاکبر( علم اللہ کا بہت بڑا حجاب ہے)‘‘ میں سمجھ گیا ، یہ حقیقی مجذوب ہیں۔ میں نے اس کلام کی وضاحت چاہی تو کہنے لگے’’ علم غیر حق ہے اور جو کچھ غیر حق ہے وہی حجاب حق ہے۔‘‘
***
شیخ عارفؒ حضرت شیخ فرید الدین گنج شکرؒ کے مرید ہیں ۔ کہتے ہیں کہ اُچ شریف و ملتان کے ایک حکمران نے آپ کے توسط سے ایک سو ٹنکے حضرت شیخ عارفؒ کے پاس بطور نذر بھیجے۔ آپ نے پچاس ٹنکے تو اپنے پاس رکھ لیے اور باقی پچاس شیخ گنج شکرؒ کی خدمت میں پیش کر دیئے۔حضرت شیخ نے تبسم کیااور فرمایا۔’’ عارف ! تم نے برادرانہ تقسیم کی ہے۔‘‘
اس پر حضرت عارفؒ سخت شرمندہ ہوئے اور فوراً پچاس ٹنکے جو آپ نے چھپا رکھے تھے ، نکال کر حاضر کر دیے۔ پھر بہت عجز کیا اور مرید ہو کر سرمنڈوا دیا۔ اس کے بعد راسخ الخدمت ہوگئے۔
***
حضرت محبوب الٰہیؒ خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کی وفات کے بعد دہلی کے ایک بزرگ حضرت شیخ یافعیؒ نے فرمایا۔ ’’ دہلی کے تمام شیخ رخصت ہوئے۔ اب صرف شیخ نصیر الدین باقی رہ گیا ہے جو دہلی کا چراغ ہے۔‘‘
اس کے بعد آپ اسی لقب سے مشہور ہوئے۔ آپ کے مزار کے اطراف کا علاقہ بھی چراغ دہلی کہلاتا ہے۔
***
جلال الدین مولانا رومؒ کے بارے میں ایک واقعہ بہت مشہور ہے۔ ایک دن آپ کے چاروں طرف کتابیں بکھری ہوئی تھیں اور آپ لوگوں کو نصحیت فرما رہے تھے کہ اچانک آپ کی مجلس میں ایک پریشان حال شخص داخل ہوا اور کتابوں کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔ ’’ یہ کیا ہے؟‘‘
مولانا رومؒ نے کہا۔ ’’ یہ وہ چیز ہے جسے تم نہیں جانتے ۔‘‘
اجنبی نے غور سے مولانا رومؒ کی طرف دیکھا پھر کتابیں اُٹھا کر حوض میں پھینک دیں۔ مولانا غصے سے کانپنے لگے۔
آپ نے فرمایا۔ ’’ یہ تم نے کیا غضب کیا؟ ان کتابوں کی قیمت کا تمہیں اندازہ نہیں انہیں خریدنے کے لیے کسی بادشاہ کا خزانہ بھی ناکافی ہے۔‘‘
اجنبی سے مسکراتے ہوئے پانی میں ہاتھ ڈال کر تمام کتابیں نکال لیں ۔ تمام کتابیں خشک تھیں اور ان پر پانی کی ایک بوند بھی نہ تھی۔
مولانا رومؒ نے حیرت سے پوچھا۔ ’’ یہ کیا ہے؟‘‘
اجنبی یہ کہتے ہوئے چلا گیا ۔ ’’ یہ وہ ہے جسے تم نہیں جانتے۔‘‘
اجنبی کے روانہ ہوتے ہی مولانا رومؒ کا برا حال ہوگیا اور آپ اسی وقت اس اجنبی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ۔ دور دور تک تلاش کرنے کے بعد آپ نے اُسے جالیا۔ وہ اجنبی حضرت شمس تبریزیؒ تھے۔
***(جاری ہے)