انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 19

انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 19
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 19

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن، مقامی لیبر آرگنائزیشنز اور این جی اوز کی رپورٹس کے مطابق اس وقت ملک میں کم و بیش چالیس سے پچاس لاکھ افراد جبری مشقت پر مجبور ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق اس وقت ملک میں جبری مشقت کا سب سے زیادہ مسئلہ صوبہ سندھ کو درپیش ہے۔ ملک میں جبری مشقت کا شکار افراد میں سے 72 فیصد کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی مرتب کردہ ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ میں صرف ایک برس کے قلیل عرصے کے دوران جبری مشقت کی خاطر قید کئے گئے ایک ہزار سے زائد افراد کو آزاد کروایا گیا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس فعل کے زمہ دارن میں سے کوئی ایک بھی فرد جبری مشقت کی خاطر آزاد شہریوں کو قید کرنے کے جرم میں گرفتار نہیں ہوا۔ ان آزاد ہونے والوں میں سے اکثریت زمینداروں کی قید میں تھی۔زمیندار اپنے کسانوں سے اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بیگار لیتے اور نجی جیلوں میں قید رکھتے ہیں۔آزاد کسانوں کو بھی اپنے قابو میں رکھنے کے لئے اکثر کسانوں کے گھرانوں کی خواتین زمینداروں کے گھرانوں میں کام کرتی اور وہیں رہتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ان عورتوں کی حیثیت بھی قیدی کی ہوتی ہے۔ ان خواتین کو نہ تو کوئی اجرت دی جاتی ہے اور نہ ہی زمیندار کے گھر میں انکی عزت محفوظ ہوتی ہے مگر اس کے باوجود زمیندار ان خواتین کو اپنی حویلی میں رکھ کر ان غریب کسانوں کو ہمیشہ کیلئے اپنا غلام بنا لیتے ہیں۔ دیگر شعبوں میں کام کرنے والی خواتین کا حال بھی زمینداروں کی قید میں موجود خواتین سے مختلف نہیں۔اکثریت مزدوری کے ساتھ ساتھ اپنے مالکان کی جانب سے جنسی طور پر ہراساں بھی کی جاتی ہے۔ تعلیم اور وسائل کی کمی کے سبب یہ افراد اپنے حالات سدھارنے کی بھی سکت نہیں رکھتے ۔

انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 18پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جبری مشقت کرنے والے بچوں کی حالت بھی اپنے بڑوں جیسی ہے۔ انٹرنیشنل چائلڈ لیبر انڈیکس پر سال2011 کے لئے پاکستان چائلڈ لیبر کے حوالے سے دنیا بھر میں نویں نمبرپرآیا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بچوں سے جبری مشقت لینے کے حوالے سے حکومتی سطح پر کسی قسم کے اعداد وشمارمرتب کرنے کی جانب بالکل بھی توجہ نہیں دی گئی، اور یہی وجہ ہے کہ اب تک سال1996 میں مرتب کئے جانے والے اعداد وشمار کو ہی حرف آخر سمجھا جاتا ہے۔ ان اعداد وشمار کے مطابق ملک میں تینتیس لاکھ بچے جبری مشقت کا شکار ہیں تاہم غیر سرکاری تنظیموں کے مرتب کردہ حقائق کے مطابق ملک میں جبری مشقت کی وبا پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اور اس جال میں پھنسے معصوم بچوں کی کل تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ ان میں دس فیصد ایسے بدقسمت بچے بھی شامل ہیں جو اتنی کمسنی میں اپنے گھر والوں سے دور کردیئے گئے تھے کہ انہیں اپنے گھر والوں کے بارے میں کوئی خبر ہی نہیں۔ ان میں73 فیصد بچے جبکہ27 فیصد بچیاں ہیں۔ ان میں سے57فیصد کا تعلق پنجاب، 32% کا خیبر پختونخواہ ، سندھ میں10 فیصد بچے جبکہ بلوچستان میں صرف ایک فیصد بچے جبری مشقت لینے والوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان معصوموں سے جبری مشقت ہی نہیں لی جاتی بلکہ ان کاجنسی استحصال بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے مطابق ان کے ادارے میں آنے والے نوے فیصد بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوچکے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مناسب راہنمائی نہ ہونے کے سبب کارخانوں میں جبری مشقت کرنے والے بچوں کی اکثریت مختلف نوعیت کے نشے بھی کرنے لگتی ہے۔ یوں یہ معصوم خود ہی اپنے مسائل میں بھی اضافہ کرلیتے ہیں۔
انسانی سمگلنگ کا شکار عورتیں۔
انسانی سمگلنگ کے شعبے میں عورتوں کوکمائی کا بڑا ذریعہ سمجھا جاتاہے۔ عام لڑکیوں کو بڑے شہروں میں نوکری دلوانے کے بہانے قحبہ خانوں کی زینت بنادینے جیسی شکایات پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں عام پائی جاتی ہیں ۔ بعض مقامات پر عورتوں کوبیرون ملک رہائش اور پرکشش نوکری کا جھانسہ دے کر بیرون ممالک لیجا یا جاتا ہے جہاں ان سے جنسی ورکر کے طور پر کام لیا جاتا ہے ۔
بیان کیا جاتا ہے کہ پاکستان سے ہونے والی انسانی سمگلنگ میں خواتین1980ء میں شامل ہوئیں۔ اس سے قبل بھی خواتین کو بیرون ملک نوکریوں کا جھانسہ دے کر مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا تھا تاہم یہ اعداد وشمار اس قدر چونکا دینے والے نہ تھے۔ماضی میں بیرون ممالک میں اس اذیت بھری صورتحال سے دوچار ہونے والی اکثریت کا المیہ یہ ہوتا تھا کہ انہیں اس حال تک پہنچانے والے کوئی غیر نہیں بلکہ خود ان کے اپنے ہوتے تھے۔ کسی کا برائے نام شوہر ہی اسے کمائی کیلئے جسم بیچنے پر مجبور کردیتا ہے تو کوئی خود دھوکے سے اس جال میں پھنس جاتی ہے۔بھٹود ور میں جیسے ہی ’’ثقافت‘‘ کو فروغ دینے کیلئے بیرونی دنیا سے ثقافتی طائفوں کے تبادلے کا آغاز ہوا، اس کے ساتھ ہی خواتین کے ساتھ اس جبری مشقت کا بھی آغاز ہوگیا۔ ان ثقافتی طائفوں کی آڑ میں خواتین کی سمگلنگ کی ابتدا ہوئی۔ ان برائے نام ثقافتی طائفوں کی منزل عموماً خلیجی ممالک ہوتی تھی۔ یہی نہیں بلکہ بیرون ملک نرسنگ، گھریلو کام کاج اور بچوں کی نرسریز میں ملازمت کا جھانسہ دے کر خواتین کو سمگل کرنے کا سلسلہ بھی اسی دور میں زیادہ تیز ہوا جو آج بدترین شکل اختیار کرچکا ہے۔
دوسری جانب اندرون ملک اگر خواتین کی سمگلنگ کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو حالات کو اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک این جی او کے مطابق اندرون ملک خواتین کی سمگلنگ کا بڑا سبب پاکستانی مردوں کی منتقم مزاج اوردھوکے بازی پر مبنی فطرت ہے۔ کبھی محبت کی آڑ میں لڑکیوں کو قحبہ خانے کی زینت بنایا جاتا ہے تو کبھی خاندانی دشمنی کی آگ کو بڑھکانے کیلئے مخالف گھرانے کی لڑکیوں کو اغوا ء کے بعد انسانیت سوز کاروبار میں ملوث افراد کے ہاتھوں فروخت کردیا جاتا ہے۔واضح رہے کہ ایسے واقعات بھی زرائع ابلاغ سے نشر یا شائع ہو چکے ہیں جن میں خواتین کو ان کے باپ، بھائی یا شوہر نے خود ہی معمولی رقم کے عوض بیچ ڈالا۔ ایسے مرد عموماًنشے کے عادی ہوتے ہیں۔
ایسی تمام خواتین کا آخری ٹھکانہ قحبہ خانہ ہی بنتا ہے۔ٍ قحبہ خانوں میں کام کرنے والی خواتین کے حوالے سے انٹرنیشنل ہیومن رائٹس مانیٹرنگ گروپ (آئی ایچ آر ایم)کی مرتب کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں قحبہ خانوں کا کاروبار تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ اب سے پانچ برس قبل صرف لاہور شہر میں قحبہ خانوں کی تعداد محض دو سو کے لگ بھگ تھی تاہم 2103ء میں یہ تعداد دوگنا سے زیادہ ہوچکی ہے اور تقریباً ساڑھے چار سو کے قریب قحبہ خانوں میں یہ گھناؤنا کاروبار جاری ہے۔لاہورشہر میں اس پیشے سے وابستہ خواتین کی کل تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے اور ہر مہینے اس تعداد میں سو سے دو سو کے قریب خواتین کا اضافہ ہورہا ہے جبکہ پورے ملک میں قحبہ خانوں کی کل تعداد پندرہ لاکھ سے زائد ہے۔ سب سے زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان لاکھوں خواتین میں محض دوفیصد ایسی ہوتی ہیں جو اپنی رضامندی سے اس پیشے میں قدم رکھتی ہیں، 44فیصدخواتین غربت جبکہ32فیصد دھوکے اور فریب سے اس کاروبار کا حصہ بنائی جاتی ہیں۔18فیصد کو جبر وتشدد کے ذریعے اس پیشے میں قدم رکھنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ اس پیشے سے وابستہ محض چار فیصد خواتین وہ ہیں جو اسی ماحول میںآنکھیں کھولتی ہیں۔
مذکورہ رپورٹ کے مطابق لاکھوں کی تعداد میں بدکاری پر مجبور ان خواتین میں تمام کی تمام پاکستانی نہیں ہیں بلکہ بنگلہ دیش،برما،افغانستان اور روسی ریاستوں سے آنے والی خواتین کی بڑی تعداد بھی بذریعہ سمگلنگ اس کاروبار میں شامل افراد کے ہاتھوں فروخت کی جاتی ہے۔ آئی ایچ آر ایم کے مطابق گزشتہ دس برسوں سے بنگلہ دیش سے پانچ لاکھ،افغانستان سے ایک لاکھ کے لگ بھگ اوربرما سے بیس ہزار خواتین پاکستان سمگل ہوکر آئیں اوراس پیشے میں شامل ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ روسی ریاستوں اوردیگر سینٹرل ایشیائی ممالک سے آنے والی خواتین کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ روسی ریاستوں سے اسمگل شدہ خواتین کی پاکستان آمد کا سلسلہ اس وقت تیز تر ہوا جب نائن الیون کے بعد خطے میں امریکی اور نیٹو افواج اوردیگر غیر ملکی ایجنٹس کی آمد و رفت کا سلسلہ تیز تر ہوا۔(جاری ہے)

انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 20 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں