سیاسی تحریکیں اور عدم تشدد
انسان کی ہمیشہ سے یہ کو شش رہی ہے کہ اپنے معا شی اور سماجی حالات میں بہتری لائے اور ظاہر ہے کہ اس مقصد کے لئے سیاسی نظام کی اہمیت کلیدی ہوتی ہے۔کسی بھی ریاست کا سیاسی نظام، آئین، قوانین اور انصاف کے پیمانوں سے ہی یہ طے ہو تا ہے کہ یہ ریاست اپنے شہریوں کو کس حد تک بہتر سماجی اور معاشی نظام فراہم کر پا رہی ہے، خاص طور پر 19ویں اور20ویں صدی میں انسانوں کو اس با ت کازیا دہ شعور ہو چکاہے کہ سیاسی جدو جہد کر کے اپنے معاشی حالات کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ا س عرصے میں بہت سی سیاسی تحریکیں اور انقلابات بھی رونما ہوئے۔سیاسی تحریک اور مقاصد کے لئے پُرتشدد یا عدم تشدد پر مبنی راستہ اختیار کرنے کی بحث بہت پرانی ہے۔اس حوالے سے دو بنیا دی مکاتب فکر ہیں۔ایک کے مطابق کسی بھی سیاسی تحریک کو اپنے مقا صد حاصل کرنے کے لئے پُرتشدد راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے، جبکہ دوسرے مکتب فکر کے مطابق سیاسی مقاصد پُرتشدد طریقوں کے بغیر بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں، جیسا کہ ہڑتال،پُرامن احتجاج، عدم تعاون، جلسے اور جلوسوں کے ذ ریعے بھی سیاسی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔اس حوالے سے ہمارے پاس حالیہ عرصے میں ایک اہم علمی اور فکری مثال سامنے آئی ہے۔ امریکہ کی ہاروڈ یونی ورسٹی سے وابستہ علم سیاسیات کی ماہر استاد اور مفکرایر یکا چینووتھ کا 2006ء تک یہی نظریہ تھا کہ ایسی سیاسی تحریکیں زیادہ کا میاب رہتی ہیں جن میں تشدد کا سہارا لیا جا تا ہے۔ 2006ء تک ایر یکا چینووتھ نے دہشت گردی، خانہ جنگی، روس، چین، فرانس اور امریکہ میں رونما ہونے والے بڑے انقلابات کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ سیاسی اور سماجی تبدیلی کے لئے پُرتشدد طریقے زیا دہ کامیاب رہے ہیں،تاہم جب ایر یکا چینووتھ کو یہ کہا گیا کہ وہ اس موقف کو مکمل اور باضابطہ تحقیق کے ذریعے ثابت کریں تو ایر یکا چینووتھ نے اس پر با قاعدہ تحقیق کا آغا ز کیا اس تحقیق کا نتیجہ ان کی کتاب:
Why Civil Resistance Works: The Strategic Logic of Nonviolent Conflict,
کی صورت میں سامنے آیا۔اس کتاب میں ایر یکا چینووتھ نے علمی دیانت کے ساتھ اعتراف کیا کہ سیاسی تحریکوں کی کامیابی کے حوالے سے ان کا پہلا موقف صحیح نہیں تھا۔ ایر یکا چینووتھ نے 1900ء سے2006ء تک چلنے والی ایسی پُرتشدد اور عدم تشدد(ہڑتال، احتجاج، عدم تعاون، جلسے اور جلوس) پر مبنی تحریکوں کا ڈیٹا حاصل کیا، جن کا مقصد علا قائی آزادی یا حکومت سے نجات حاصل کرنا تھا۔اس حوالے سے اس عرصے کے دوران 323تحریکوں کا مطا لعہ کیا گیااور ان تحریکوں کی کامیابی میں 160چھوٹے اور بڑے پیمانوں، جیسے ان تحریکوں میں عوام کی شمولیت، ریاست کا کردار اور طر یقہ کار کو اپنے سامنے رکھا گیا۔ ایر یکا چینووتھ نے اس تحقیق سے ثابت کیا کہ عدم تشدد پر مبنی تحریکیں پر تشدد تحریکوں کے مقابلے میں زیا دہ کامیاب رہیں۔ایر یکا چینووتھ کے مطابق عدم تشدد کے ذریعے،جو تحریکیں کامیاب ہوئیں،ان میں چار بڑے عوامل نے اہم کردار ادا کیا۔سب سے پہلا عامل تحریک میں شامل افراد یا گروہوں کی تعداد کا ہوتا ہے، جو مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے مقصد سے جڑے رہیں۔دوسرا یہ کہ ایسی تحریکوں کو کامیاب ہونے کے لئے اسٹیٹس کی حامل اشرافیہ کے کسی دھڑے کو اپنے ساتھ ملانا یا پھر پرانے نظام سے مفاد حاصل کرنے والی اشرافیہ کے طبقات کو بالکل کمزور کر دینا ہوتا ہے۔یہاں اشرافیہ سے مراد سرمایہ کار، تا جر اور سیکیورٹی فورسز کے اداروں سے ہے۔تیسرا ایسی تحریکوں میں احتجاج کے مختلف طریقے اپنا ئے گئے نہ کہ ایک ہی طر یقے پر انحصار کیا گیا۔چوتھا اور انتہائی اہم عامل یہ کہ جب ایسی تحریکوں کو ریاست دبا نے کی کوشش کرتی ہے تو ان تحریکوں نے اس کے جواب میں تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا،کیو نکہ اگر وہ جذبات میں آ کر تشدد کا راستہ اختیار کر لیتیں تو ریاست کے لئے ایسی تحریکوں کو کچلنا بہت زیادہ آسان ہو جاتا۔کامیاب ہونے والی سیاسی تحریکیں احتجاج، ہڑتال اور معاشی عدم تعاون کا منصوبہ بنا تے ہوئے طویل دورانیہ کی منصوبہ بندی کر تیں۔ فنڈز اور خوراک وغیرہ کے لئے مناسب بندوبست کیا جاتا ہے۔ ایر یکا چینووتھ اس حوالے سے جنوبی افریقہ کی مثال دیتی ہیں۔ جنوبی افریقہ کی تحریک کے دوران سفید فام اشرا فیہ کے بزنس اور کاروبار کا بائیکاٹ کیا گیا۔ سیاہ فام افراد، کارخانوں اور صنعتوں میں محنت مزدوری تو کرتے رہے اور اپنی اُجرت بھی لیتے رہے، مگر وہ اپنے پیسوں سے سفید فام سرمایہ کاروں کے کارخانوں میں بنی اشیاء نہیں خریدتے تھے۔ اس معاشی با ئیکاٹ سے سفید فام سرمایہ کا ر اور تاجر معاشی اعتبار سے تباہ ہو گئے، پھر انہی سفید فام سرمایہ داروں اور تا جروں کو اپنی حکومت سے مطا لبہ کرنا پڑا کہ سیاہ فام افراد کو ان کے حقوق دیئے جائیں۔
1989ء میں ڈی کلارک جنوبی افریقہ کے صدر بنے اور انہوں نے نیلسن مینڈیلا کی جما عت افریقن نیشنل کا نگرس سے مذاکرات کا آغاز کیا۔ جنوبی افریقہ میں آزادانہ انتخابات کروائے گئے اور افریقن نیشنل کا نگرس ان انتخابات میں کامیاب ہوئی۔ایر یکا چینووتھ کے مطابق اس سیاسی جدوجہد کے دوران افریقن نیشنل کا نگرس نے طویل منصوبہ بندی کر رکھی تھی اور وہ اس میں کامیاب بھی رہی۔ ایر یکا چینووتھ کے مطابق 1900ء سے 2006ء تک ایسی سیاسی تحریکیں کامیا ب رہیں، جن کو عوام کی کل آبادی کے صرف 3.5فیصد تک کی حمایت ملی۔ایسے ممالک میں جہاں پر سیاسی مقاصد کے لئے عدم تشدد پر مبنی طریقے اپنا ئے گئے، ان میں جمہوری تسلسل ان ریاستوں کے مقابلے میں دس گنا زیادہ رہا،جہاں پر سیاسی مقاصد کے لئے پُر تشدد طریقے اختیار کئے گئے۔جیسا کہ کالم کے آغاز میں ذکر کیا گیا ہے کہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے پُرتشدد یا عدم تشدد پر مبنی احتجاج کی بحث بہت پرانی ہے۔اگر ہم برصغیر کی مثال کو سامنے رکھیں تو ہمیں 1857ء سے1947ء تک انگریزی راج کے خلاف دونوں طرح کی تحریکیں نظر آئیں گی۔ کانگرس جہاں مہا تما گا ندھی کے تحت آزادی کے لئے عدم تشدد کا راستہ اختیار کئے ہوئے تھی تو وہاں دوسر ی طرف کانگرس کے ہی اندر سبھاش چندر بوس کی صورت میں ایک دوسرا نقطہ ئ نظر بھی سامنے آیا۔ بوس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران جا پان کی مدد سے ”انڈین نیشنل آرمی“ بنائی اور انگر یزی راج کے خلاف با قاعدہ جنگ کا اعلان کیا،تاہم برصغیر کے معروضی حالات میں کانگرس اور مسلم لیگ کی صورت میں ایسی سیاسی جماعتیں ہی کامیا ب رہیں، جنہوں نے تشدد کا راستہ اپنانے کی بجائے احتجاج کے کئی دوسرے طریقوں، مثلاً عدم تعان، ہڑتال جلسے اور جلوسوں کا راستہ اختیار کیا۔سیاسی تحریکوں کی کامیابی یا نا کامی میں معروضی حالات کا بھی بڑا عمل دخل ہو تا ہے۔ جیسا کہ 20ویں صدی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ جن ریاستوں میں سخت گیر آمریتیں یا شاہی حکومتیں رہیں تو ان کے خلاف پُرتشدد تحریکیں بھی مقبول ہوئیں اور ایسے جمہوری ممالک جہاں پر اظہار رائے کی آزادی رہی اور عوام کو پُرامن احتجاج کا حق دیا گیا،ایسے معاشروں میں عدم تشدد کے طریقوں سے بھی حکومتیں ختم کی جا تی رہیں۔سیاسی تحریکوں میں پر تشدد اور عدم تشدد پر مبنی طریقہ کا ر کا سوال اتنا زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ ایر یکا چینووتھ نے اس پر ٹھوس تحقیق کر کے سیاسیات اور سیاسی تحریکیوں کے طالب علموں کی بھرپور رہنمائی کی ہے۔