حمزہ کے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟

حمزہ کے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟
حمزہ کے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


آخر حمزہ شہباز کے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟ انہیں ہی ہر بار قربانی کا بکرا کیوں بننا پڑتا ہے؟ کیا وہ شریف فیملی کے نظر وٹو ہیں؟ کیا شریف فیملی میں ان کی حیثیت وہی ہے جو بھٹو فیملی میں آصف زرداری کی ہے جن کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ پہلے بھی آٹھ سال بے قصور جیل میں رہے اور آج بھی بے قصور بند ہیں۔ کیپٹن صفدر کو شریف فیملی کا جوائی ہونے کی وہ سزا نہیں ملی جو آصف زرداری کو بھٹو فیملی کا جوائی ہونے کے ناطے ملی ہے، لیکن حمزہ شہباز تو آصف زرداری سے بھی بڑھ کر سزا کاٹتے رہے ہیں اور کاٹ رہے ہیں، آخر کیوں؟


نیب کا سارا زور بھی حمزہ شہباز پر ہی چلتا ہے، جنرل مشرف کا کمانڈو پن بھی انہی کو جھیلنا پڑا تھا، پوری شریف فیملی ملک سے باہر تھی اور وہ زیر عتاب تھے۔ آج بھی پوری شریف فیملی جیلوں سے باہر ہے اور وہ اندر ہیں۔ ان کو تو زیر عتاب رہنے کی ایسی عادت پڑگئی ہے کہ اگلی بار ایسا کوئی موقع آیا تو سب سے پہلے بھاگ کر پولیس کی وین میں سوار ہو کر بیٹھ جائیں گے اور پوچھنے پر کہیں گے کہ پچھلی مرتبہ بھی انہیں کھڑے ہو کر تھانے تک جانا پڑا تھا۔ سہگل فیملی کے روح رواں طارق سہگل نے ایک مرتبہ بتایا تھا کہ انہوں نے پریکٹیکل لائف کا آغاز بھٹو دور میں اس وقت کیا تھا جب ان کی فیملی کے کاروباری یونٹوں کو قومی تحویل میں لیا جا رہا تھا، فیملی کے بڑے انہیں جس بھی مل پر بھیجتے حکومت اسے قومی تحویل میں لے لیتی تھی۔ کہنے لگے کہ فیملی میں یہ بات مذاق کے طور پر کی جانے لگی تھی کہ طارق کو کوئی مل نہ دینا کیونکہ یہ جس مل پر جاتا ہے حکومت اسے قبضے میں لے لیتی ہے۔ لگتا ہے کہ حکومتی اداروں نے بھی اسی طرح حمزہ شہباز کو نشانے پر رکھا ہوا ہے اور جب کبھی حکومتی اداروں سے جان چھوٹتی ہے تو عائشہ احد ملک ان کی جان کے پیچھے پڑ جاتی ہے اور ان کا گھر سے نکلنا دوبھر کردیتی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ سلمان شہباز اپنے والد کی طرح ہاتھ لہرا لہرا کر لتے لیتے ملک سے باہر چلے گئے اور حمزہ شہباز اپنے دھیمے پن کے باوجود اندر ہیں۔ ایسا تو ہرگز نہیں کہ وہ شریف فیملی کے سوتیلے سپوت ہیں، لیکن ان کے ساتھ سلوک سوتیلوں ایسا ہی ہوتا ہے، پوری فیملی کے دلدر ایک طرف اور حمزہ کا مقدر ایک طرف، ستم تو یہ ہے کہ خود ان کے والد شہباز شریف، تایا نواز شریف اور بڑی کزن مریم نواز کے منہ پر بھولے سے بھی ان کے لئے ہمدردی کے دوبول میڈیا پر سننے کو نہیں ملتے ہیں۔ انہیں کبھی کسی نے ضمیر کا قیدی قرار نہیں دیا ہے۔ کیا ایسا محض اس لئے ہو رہا ہے کہ وہ چالاک اور ہوشیار نہیں ہیں، بھولے ہیں، باتوں میں آجاتے ہیں، کوئی شکائت زبان پر نہیں لاتے، یہ ان کی فرمانبرداری نہیں تو اور کیا ہے کہ پہلے وہ تایا اور ابا کے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑے تھے اور مریم باجی کے پیچھے مودب کھڑے ہیں۔ یاد آیا کہ جب مریم نواز اپنی والدہ کی انتخابی مہم چلانے کے لئے حلقہ 120میں آئیں تو مزنگ میں ایک جلسے کا اہتمام ہوا جہاں متوالوں نے مریم نواز زندہ باد کے وہ نعرے لگائے کہ ایک پرانے مزنگئے محمد سلیم سے رہا نہ گیا اور اس نے اردگرد کھڑے نوجوانوں سے پوچھا کہ تمھیں نوکریوں پر کس نے رکھوایا ہے، جب انہوں نے جواب کہ حمزہ شہباز نے رکھوایا ہے تو سلیم نے تنک کر کہا کہ پھر اس نعرے کیوں نہیں لگاتے، یوں اس دن حمزہ کے حق میں کچھ نعرے بلند ہوئے تھے!


حمزہ کو سیاست کا ستارہ جرات ملنا چاہئے کیونکہ جب بھی گلشن کو خوں کی ضرورت پڑی کے مصداق جب بھی شریف فیملی پر برا وقت آیا ہے، کوئی اور آئے نہ آئے حمزہ شہباز ضرور زیر عتاب آئے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ خود نواز شریف نے حمزہ کی ضمانت یا رہائی کے لئے اس طرح کا تردد کبھی نہیں کیا، جس کا مظاہرہ وہ مریم نواز کے معاملے میں کر چکے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ حسن اور حسین نواز پاکستان آکر، پیشیاں بھگت کر، پریس کانفرنسیں کرکے اور دھمکیاں دے کر بھگوڑے ہو گئے مگر حمزہ کو ائرپورٹ پر دھر لیا جاتاہے، آخر کیوں؟


ایسا لگتا ہے کہ قومی اداروں، خاص طور پر نیب نے ان پر نظر رکھی ہوئی ہے، جونہی کچھ ہوتا ہے حساب کتاب انہی سے شروع ہوتا ہے۔ 6ستمبر 1974ء کو پیدا ہونے والے حمزہ شہباز اس وقت بھی پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں مگر ان کی گرفتاری سے زیادہ غلغلہ تو رانا ثناء اللہ کی گرفتاری پر مچا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ نواز شریف کے ساتھی سمجھے جاتے ہیں، حمزہ نواز شریف کے سپاہی اور شہباز شریف کے فرزند ہیں۔ وہ دو انتہاؤں میں پھنسے ہوئے ہیں، وہ دو طرح کے سیاسی مزاجوں کے بیچ تنی ہوئی رسی پر چل رہے ہیں، لیکن اس سرکس میں ان کا کردار اس جوکر کا ہے جو آدھے رستے میں اس تنی ہوئی رسی سے نیچے گرکر سیدھا جال میں جا پھنستا ہے، لوگ اس سے محظوظ تو ہوتے ہیں، لیکن ان کی نظر مس جولی کی مہارت پر ہوتی ہے جو بغیر ڈگمگائے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جاپہنچتی ہے، حمزہ پہ ہنسنا بند کیا جائے!
 

مزید :

رائے -کالم -