جنرل قمر جاوید باجوہ کے دہشت گردوں کیخلاف کامیاب آپریشن

جنرل قمر جاوید باجوہ کے دہشت گردوں کیخلاف کامیاب آپریشن
جنرل قمر جاوید باجوہ کے دہشت گردوں کیخلاف کامیاب آپریشن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جنرل قمر جاوید باجوہ نے 28نومبر 2016ء میں جب پاک فوج کے سربراہ کا منصب اعلیٰ سنبھالا تو اس وقت وطن عزیز متعدد بحرانوں کا شکار تھا۔ دہشت گردی، بلوچستان اور کراچی کی دگرگوں صورتِ حال، سیاست دانوں کی آپس کی چپقلش کے باعث ان میں جمہوری اقدار کی پاسداری کا فقدان،اس کے علاوہ کئی اور امور بھی ایسے تھے جو اصلاح طلب تھے۔ ان سب میں اہم اور بڑا مسئلہ دہشت گردی کا تھا جو گزشتہ دو دہائیوں سے ملک کو درپیش ہے، گو کہ جنرل باجوہ کے پیشرو اور پاکستان کی بہادر افواج نے اس حوالے سے اہم اور قابل ِ ذکر کامیابیاں حاصل کیں،جس کے باعث ملکی عوام کی اکثریت یہ سمجھنے لگی کے شاید ”ضرب عضب“ کے نتیجے میں دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور وہ ختم ہوچکے ہیں، لیکن 2017ء کے ابتدائی دو ماہ میں ملک میں دہشت گردی میں اچانک تیزی آئی اور شدت پسندوں نے ایک ہی روز پشاور، کراچی اور پھر بلوچستان میں اہم سرکاری اور شہری اہداف کو نشانہ بنایا۔ان حملوں میں لاہور کے چیئر نگ کراس میں ہونے والا واقعہ، جس میں 18افراد ہلاک ہوئے، خصوصی طور پر قابل ِ ذکر ہے۔ دہشت گردی کی ان خوفناک اور مذموم کارروائیوں کے خاتمے کے پیش نظر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے آپریشن ”رد الفساد“ شروع کیا،جس کا مقصد ملک میں دہشت گردی، دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا قلع قمع کرنا اور ملک میں امن وامان بحال کرنا مقصود تھا۔ 25فروری2017ء سے شروع ہونے والے اس آپریشن سے دہشت گردانہ کارروائیوں میں نمایاں کمی آئی اور ملک میں امن عامہ کی صورتِ حال بہت بہتر ہوئی۔ اس آپریشن کے باعث اب غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری بھی کررہے ہیں۔علاوہ ازیں کھیلوں کی سرگرمیوں کا سلسلہ بھی شروع ہوا جو اب بھی جاری ہے۔ یہ  سب کچھ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے باعث ہوا۔


آپریشن ”ردا لفساد“ کے ذریعے سینکڑوں دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا، بے شمار بڑے آپریشن کیے گئے اور خفیہ اداروں کی معلومات پر نتیجہ خیز کارروائیاں کی گئیں۔ آپریشن ”ضرب عضب“ اور آپریشن ”رد الفساد“ کے ذریعے دہشت گردوں کے سینکڑوں ٹھکانے تباہ کئے گئے، ہزاروں مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا۔ فوج کے معتبر ذرائع کے مطابق آپریشن ”رد الفساد“ کا مطلب نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرنا ہے اور اس آپریشن کے تحت خفیہ اداروں کی معلومات کی بنیاد پر اس کا دائرہ کار فاٹا اور خیبر پختونخوا سے لے کر کراچی، صوبہ بلوچستان اور صوبہ پنجاب تک پھیلا دیا گیا۔ علاوہ ازیں ملکی سرحدوں،خصوصاً پاک افغان سرحد،جسے ڈیورنڈ لائن بھی کہا جاتا ہے،جو دونوں ملکوں کے درمیان ابتدا ہی سے پیشتر مسائل کی وجہ رہی ہے،اس کو محفوظ بنانا ضروری تھا۔پاک فوج نے اپنی مدد آپ کے تحت خصوصی توجہ دے کر پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام کافی حد تک مکمل کر لیا ہے۔افغانستان فرار ہونے والے دہشت گرد اپنے نیٹ ور ک کے ذریعے افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان پر حملے اور ان حملوں کی مذموم منصوبہ بندی کرتے ہیں، جنہیں پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی آشیر باد حاصل ہے۔ افغانستان میں بھارتی سفارت خانہ جو بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کا گڑھ ہے،ان کارروائیوں کا مرکز ہے۔ اس سلسلے میں اسے افغانستان اور امریکی تائید کے علاوہ اسرائیل کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب کے بعد افغانستان سے پاکستان پر دہشت گردانہ حملے کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ 


آپریشن ”رد الفساد“ نے دہشت گردی کے خلاف جو نئی حکمت عملی اور نئی جہتیں متعارف کرائی ہیں،وہ پہلے نہیں ہوئیں جو اس آپریشن میں دیکھنے میں آئیں۔ آپریشن ”رد الفساد“ دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کا دسواں آپریشن ہے،اس سے قبل بھی 2007ء میں پاک فوج نے خیبرپختونخوا اور فاٹا میں بھی کئی آپریشن کیے ہیں۔ 2007ء میں ہی وادیئ سوات اور شانگلہ میں آپریشن ”راہ حق“ ہوا۔ اگلے سال بھی ”راہ حق دوئم“ اور 2009ء میں آپریشن ”راہ حق سوئم“ بھی کیا گیا۔2008ء میں خیبر ایجنسی میں آپریشن ”صراط مستقیم“ اوراسی برس باجوڑ ایجنسی میں آپریشن ”شیر دل“ بھی کیا گیاجس میں فرنٹیئر کور نے بھی حصہ لیا۔ 2009ء میں بونیر، لوئر دیر اور شانگلہ میں آپریشن ”بلیک تھنڈر سٹارم“کیا گیا،جو 26اپریل سے جون 2009ء تک جاری رہا اور پاک فوج نے مہمند ایجنسی میں آپریشن ”مریخنا“ بھی کیا۔ 2009ء میں سوات میں آپریشن ”راہِ راست“جسے سوات آپریشن بھی کہا جاتا ہے،اس آپریشن کے تحت سوات کو دہشت گردوں سے پاک کیا گیا،جس پر علاقے کے عوام نے سکھ کا سانس لیا اور معمول کی زندگی گزارنے لگے۔ 2009ء میں آپریشن ”راہ نجات“ ہوا اور 15جون 2014ء کو فوج نے اپنی تاریخ اور ایشیاکا سب سے بڑا انسداد دہشت گردی آپریشن ”ضربِ عضب“ شروع کیا۔اس آپریشن میں ایلیٹ کمانڈو فورس ایس جی ایس نے بھی حصہ لیا اور ہمارے بہادر جوانوں کی بدولت اس میں بڑی کامیابی حاصل ہوئی،جس کے باعث شمالی وزیر ستان کو دہشت گردوں سے پاک کرکے حکومتی رٹ بحال کر دی گئی۔


اسی آپریشن کے دوران راجگال کے مشکل ترین پہاڑی و جنگلاتی علاقوں کو بھی دہشت گردوں سے کلیئر کیا گیا،جبکہ اکتوبر 2014ء میں خیبر ایجنسی میں خیبر ون اور ٹو کے آپریشن ہوئے، تاہم جو چند بچے کھچے دہشت گرد رہ گئے اور انہوں نے آسان اہداف اور اپنی مذموم حرکتوں سے معصوم شہریوں کو بھی نشانہ بنایا، جس کے باعث آرمی چیف نے اپنی سربراہی میں آپریشن ”رد الفساد“ شروع کیا،اس آپریشن کی کامیابی اور اس کے شاندار نتائج کا سہرا جنرل قمر جاوید باجوہ کے سر ہے۔آپریشن ”ردالفساد“  کے آغاز پر آرمی چیف جنر ل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ ہر پاکستانی  آپریشن ”ردالفساد“  کا سپاہی ہے۔ ہم سب مل کر ملکی و غیر ملکی عناصر کے گٹھ جوڑ اور ان کے ناپاک عزائم کو شکست دیں گے۔ سپہ سالار کے ان الفاظ پر پوری پاکستانی قوم نے پاک آرمی کا ساتھ دیا اور پاک فوج نے ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ملک پاکستان کو امن کا گہوارہ بنا دیا۔ ہمارے سیاست دانوں کو بھی چاہئے کہ وہ ملک میں امن اور سلامتی کو قائم و دائم رکھنے کے لئے پاک فوج کا ساتھ دیں اور اس ادارے کو بلاوجہ سیاست میں نہ گھسیٹیں، کیونکہ جہاں امن اور سلامتی ہو گی،وہاں ترقی اور خوشحالی ہو گی اور ان شا اللہ ترقی اور خوشحالی پاکستان کا مقدر ہے۔

مزید :

رائے -کالم -