سود۔۔۔۔معیشت کیلئے کینسر!
ورلڈ بنک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس وقت شرح نمو صفر اعشاریہ چار(0.4) فیصدہے جس سے غربت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔اس عرصہ میں ڈیڑھ کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے لڑھک گئے ہیں۔ جب پی ٹی آئی نے حکومت سنبھالی اس وقت شرح نمو پانچ اعشاریہ سات کی سطح پر تھی۔مہنگائی گیارہ فیصد سے اوپر چلی گئی ہے۔اشیائے ضروریہ آٹا،چینی،گھی اور دالیں جو ہر گھر کی بنیادی ضرورت ہیں کی قیمتوں میں کئی گنااضافہ ہوچکا ہے جبکہ جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں بھی تقریبا تین سو گنا تک اضافہ ہوگیا ہے۔
معیشت کی تباہی کی اس صورتحال کو عمیق نظروں سے دیکھا جائے تو تمام خرابیوں کی جڑ سودی نظام معیشت ہے۔پاکستان پر اس وقت سو ارب ڈالر سے زیادہ کا قرضہ ہے جس نے پوری معیشت کو جکڑ رکھا ہے۔ملک کی کل جی ڈی پی 7500ارب روپے ہے جس میں سے 2900ارب سود کی ادائیگی میں چلاجاتاہے جو کل آمدن کا انتالیس اعشاریہ سات فیصد بنتا ہے۔اگرکسی ملک کی آدھی آمدن سود کی ادائیگی میں چلی جائے، وہ آگے کیسے بڑھ سکتا ہے۔؟
اس وقت امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا کے 75ممالک ممالک میں اسلامی بینکاری جاری ہے اور حیرت انگیز طور پر غیر مسلم بھی اس سے استفادہ کررہے ہیں۔برطانیہ کے جس بینک نے اسلامی بینکاری کا آغاز کیا تھا اس میں سب سے پہلا اکاؤنٹ ایک غیر مسلم نے کھلوایااور اب اس بینک کی 14شاخیں قائم ہوچکی ہیں۔ملائشیا کے اسلامی بینکوں میں چالیس فیصد سے زائد کھاتہ دار غیر مسلم ہیں۔دنیا میں ہر جگہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ہمارے ہاں اس پر زیادہ پیش رفت نہ ہونے کی اصل وجہ ملک میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کا معیشت پر کنٹرول ہے۔آئی ایم ایف نے اژدھے کی طرح معیشت کو جکڑ رکھا ہے۔سود پر قرضے دینے والے یہ کیسے پسند کرسکتے ہیں کہ ان کا کاروبار بند ہوجائے۔
ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جواہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات
سود کے حرام ہونے پر کسی دلیل کی ضروت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ جو لوگ سود کھاتے ہیں،ان کا حال اس شخص کا سا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر باؤلا کردیا ہو۔اس حالت میں ان کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں تجارت بھی تو آخر سود جیسی ہی چیز ہے،حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا گیا ہے۔لہذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے نصیحت پہنچے اور آئندہ کیلئے سود خوری سے باز آجائے،تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا سوکھا چکا،اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے،اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے،وہ جہنمی ہے،جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔اللہ سود کی جڑ کاٹ دیتا ہے اور صدقات کی نشو و نما کرتا ہے۔اور اللہ کسی ناشکرے بدعمل انسان کو پسند نہیں کرتا۔(سورۃ البقرہ 275-76)حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ سود کے گناہ کے 73درجے ہیں جن میں سے کمترین درجہ یہ ہے کہ جیسے کوئی اپنی ماں سے بدکاری کرتا ہے۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے 72سال پہلے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر بلاسود معیشت کا اعلان کیا تھا۔مگر بانیئ پاکستان کے اس حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے ہم نے پون صدی گزار دی۔دستور پاکستان کی دفعہ ایف 38میں دوٹوک حکم دیا گیا ہے کہ ریاست جتنی جلد ممکن ہو، ربا کو ختم کرے گی لیکن چالیس سال سے حکمران دستور کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔اسی طرح جماعت اسلامی کی درخواست پر وفاقی شرعی عدالت نے 1991میں سود کے خاتمہ کا فیصلہ دیا تھا جس کے خلاف اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے اپیل کردی۔پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے بھی مسلم لیگ ن کی اپیل کی پیروی کی ہے اور اپنے وکیل کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے ساتھ جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔یعنی ان تیس سالوں میں حکومتیں تو بدلتیں رہیں مگر ان کی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تیس سالوں سے ریاست نے عدالتی احکامات کو بھی پس پشت ڈال رکھا ہے
اسلام اپنے ماننے والوں سے عبادات کے ساتھ ساتھ معاملات کی بھی درستگی کا تقاضا کرتا ہے۔معاشی مشکلات میں جہاں صبر و استقامت کا حکم دیا گیا ہے وہیں ان مشکلات سے نکلنے کے کئی راستے بھی بتائے گئے ہیں۔حضور ﷺ کے پاس ایک انتہائی تنگ دست صحابی ؓ حاضر ہوئے اور عرض کی کہ صدقہ کا مستحق ہوں آپ ﷺ نے پوچھا تمھارے پاس گھر میں کچھ ہے؟ صحابی ؓ نے ایک پیالہ اور اسی طرح کی کوئی معمولی چیز پیش کردی،آپ ﷺ نے فرمایا جاؤ اسے بازار میں بیچ کر ایک کلھاڑی خرید لاؤ۔آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے کلھاڑی میں دستہ ڈال دیا اور فرمایا جاؤ اور جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بازار میں بیچو۔کچھ عرصہ بعد وہ صحابی ؓ دوبارہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے،اب وہ مطمئن اور خوشحال تھے۔حضرت عمرفاروق ؓ نے ایک نابینا صحابی ؓ کو دیکھا تو آپ ؓ نے بیت المال کے ذمہ دار کو حکم دیا کہ اس نابیناکیلئے بیت المال سے ماہانہ وظیفہ مقرر کردیا جائے۔ریاست محتاج اور نادار شہریوں کی کفالت کی ذمہ دار ہوتی ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب ریاست خود خوشحال ہو۔ دورِ حاضر کی سودی معیشت کودوبارہ غیر سودی معیشت میں تبدیل کرنا آسان کام نہیں مگر ممکن ضرور ہے۔اگر ہم حامل قرآن ہو جائیں تو اسلام کی گم گشتہ معاشی جنت کا حصول ممکن ہوسکتاہے۔
آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایمان پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستان پیدا
جب اللہ کا حکم ہے کہ اسلام میں مکمل داخل ہوجاؤتو اس میں معیشت بھی شامل ہے۔سرکار دوجہاں ﷺ نے سودی نظام کے خاتمے کا اعلان کیا تو ساتھ ہی دنیا کو ایک متبادل معاشی نظام بھی دیا۔عشر وزکواۃ کا نظام نافذ کرنا اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔خلیفہ اول نے ان لوگوں کے خلاف جنگ کا اعلان کیا جنہوں نے آپ ﷺ کی رحلت کے بعد زکواۃ دینے سے انکار کیا تھا۔قرآن کریم میں زکواۃ کی رقم خرچ کرنے کیلئے مدات کا ذکر ہے۔اللہ کا وعدہ ہے کہ اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے تو اللہ ان پرآسمان کی رحمتوں اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست سودی نظام کے خاتمہ کیلئے اپنی آئینی اور اسلامی ذمہ داریاں پوری کرے۔سٹیٹ بنک نے اسلامی بینکاری کے لئے ایک ڈپٹی گورنر تو مقرر کیا ہے لیکن سودی معیشت کے خاتمہ کاواضح روڈ میپ نہیں دیا جودیا جانا ضروری ہے۔ حکومت کی طرف سے دوٹوک اعلان ہوجانا چاہئے کہ وہ کب تک آئین کی ان دفعات پر عمل درآمد ہوجائے گاجس کے ذریعے سودی نظام کا خاتمہ اور اسلامی نظام معیشت قائم ہوجائے۔