ٹرمپ , امریکی انتخابات اور حکومتی پریشانی

ٹرمپ , امریکی انتخابات اور حکومتی پریشانی
ٹرمپ , امریکی انتخابات اور حکومتی پریشانی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

امریکہ کا حالیہ صدارتی الیکشن ایک شائستہ شخصیت جوبائیڈن اور ایک غیر مہذب شخصیت ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان معرکہ تھا جس میں امریکیوں نے 7 کروڑ 40 لاکھ سے زائد ووٹ دے کر جوبائیڈن کو فتح سے ہمکنار کیا جو آئندہ سال 20 جنوری کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن 20نومبر 1942ءکو ریاست پنسلوانیا کے شہر سٹرٹین میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد جوزف بائیڈن بھٹیوں کی چمنیاں صاف کرنے کا کام کرتے تھے۔ جوبائیڈن نے 1965ءمیں گریجویشن کیا جبکہ 1966 میں اسکول ٹیچر نیلیا بنٹر سے شادی کی۔ شادی سے قبل لڑکی کے والدین سے ملے تو اُن کے یہ پوچھنے پر ”مستقبل میں کیا بننے کا ارادہ ہے؟“ جوبائیڈن کے اِس جواب نے اُنہیں حیران کردیا کہ ”میں مستقبل میں امریکہ کا صدر بنوں گا۔“ جوبائیڈن نے شادی کے بعد 1968ءمیں قانون کی ڈگری حاصل کی اور اپنے خواب کی تکمیل کیلئے 1970ءمیں نیوکاسل کاﺅنٹی کے کونسلر منتخب ہوئے۔ سیاست کی دنیا میں اُن کا یہ پہلا قدم تھا اور وہ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے 1972ءمیں ڈیلاوانر سے امریکی سینیٹ کا پہلا الیکشن جیت کر سینیٹر منتخب ہوئے۔جوبائیڈن کی زندگی صدمات اور حادثات سے بھری پڑی ہے۔ سینیٹ الیکشن میں اپنی کامیابی کے بعد جب وہ سینیٹ میں حلف اٹھانے کی تیاری کررہے تھے تو اُنہیں ٹریفک حادثے میں اپنی اہلیہ اور بچی کی ہلاکت اور دو بیٹوں کے زخمی ہونے کی اطلاع ملی۔ جوبائیڈن، سینیٹ کا حلف اٹھائے بغیر اسپتال چلے گئے اور بعد ازاں سینیٹر کا حلف اسپتال کے اُس کمرے سے اٹھایا جہاں اُن کے دونوں بیٹے زیر علاج تھے۔
جوبائیڈن 3 مرتبہ سینیٹ کی امور خارجہ سے متعلق طاقتور کمیٹی کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ انہوں نے 1988ءاور 2001ءمیں صدارت کیلئے بھی کوششیں کیں مگر کامیاب نہ ہوسکے تاہم وہ 2009ءسے 2017ءتک امریکی صدر بارک اوباما کے دور میں نائب صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ جوبائیڈن کی زندگی اُس وقت ایک بار پھر صدمے سے دوچار ہوئی جب بچپن میں حادثے میں زخمی ہونے والا اُن کا جواں سال بیٹا جنوری 2015ءمیں کینسر سے ہلاک ہوگیا۔ صدر اوباما کی صدارتی الوداعی تقریب کے دوران اپنی تقریر میں جوبائیڈن، بیٹے کی ہلاکت کے بارے میں بتاتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے اور انہوں نے انکشاف کیا کہ جب وہ اپنے جواں سال بیٹے کے کینسر کے علاج کیلئے اپنا گھر بیچنے پر مجبور ہوگئے تو صدر اوباما نے اُن کی 2 لاکھ ڈالر کی مالی مدد کرکے گھر فروخت ہونے سے بچالیا۔ صدر اوباما، جوبائیڈن کو بہت پسند کرتے تھے جنہوں نے جوبائیڈن کو ”صدارتی میڈل آف فریڈم“ کے اعزاز سے بھی نوازا۔
حالیہ صدارتی الیکشن میں جوبائیڈن کی ذاتی زندگی کے صبر آزما سانحات کے دوران ثابت قدمی اور نرم دلی نے بھی اُن کی مدد کی۔ جوبائیڈن، ٹرمپ کے سخت لہجے کے مقابلے میں دھیمے لہجے والی شخصیت ہیں جو عالمی سطح پر امریکہ کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور تنازعات کے حل کیلئے طاقت کے استعمال کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ وہ ٹرمپ کے اسلام مخالف رویئے کے برعکس مسلمانوں کیلئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی صدارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کو یہ یقین دلایا تھا کہ وہ صدر منتخب ہونے پر اسلامی ممالک کے تارکین وطن کے امریکہ میں داخلے پر پابندی کو ختم کردیں گے۔آج یہ کالم تحریر کرتے وقت مجھے جوبائیڈن سے مراکش میں ہونے والی ملاقات یاد آرہی ہے جب وہ 2014ءمیں نائب امریکی صدر کی حیثیت سے مراکش میں منعقدہ گلوبل انٹرپنورشپ سمٹ (Global Entrepreneurship Summit) میں شرکت کیلئے آئے تھے۔ اِس سمٹ میں، میں بھی مدعو تھا اور مختصر ملاقات میں مصافحہ کرتے ہوئے جب میں نے اُنہیں بتایا کہ میرا تعلق پاکستان سے ہے اور میں مراکش کا اعزازی قونصل جنرل ہوں تو جوبائیڈن نے کہا کہ ”پاکستانی بہت عظیم لوگ ہیں۔“
ڈونلڈ ٹرمپ جو مودی اور بھارت کے قریب سمجھے جاتے ہیں، کی شکست سے بھارت میں ماتم برپا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے دور میں بھارت سے کئی اہم معاہدے کئے اور کئی بار بھارت کا دورہ کیا مگر کچھ دیر کیلئے پاکستان آنا گوارہ نہیں کیا۔ ٹرمپ نے مودی کے دورہ امریکہ کے دوران بھارتی نژاد شہریوں سے بھرے اسٹیڈیم میں مودی کا ہاتھ پکڑ کرکے اسٹیڈیم کا چکر لگایا جبکہ مودی نے ”اگلی بار ٹرمپ سرکار“ کا نعرہ لگایا لیکن وقت نے آج یہ ثابت کردیا کہ حالیہ صدارتی الیکشن میں امریکہ میں مقیم بھارتی کمیونٹی بھی ٹرمپ کو شکست سے نہ بچاسکی جبکہ امریکی نژاد مسلمانوں اور پاکستانیوں نے جوبائیڈن کی حمایت کرکے اُنہیں کامیابی سے ہمکنار کیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ٹرمپ نے عمران خان کے دورہ امریکہ کے دوران ملاقات میں اُنہیں یقین دلایا تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرانے میں ثالثی کا کردار ادا کریں گے اور ہم نے امریکہ کو خوش کرنے کیلئے سی پیک اور مسئلہ کشمیر ٹرمپ کی جھولی میں ڈال دیا تھا۔ ٹرمپ، مسئلہ کشمیر تو حل نہ کراسکے مگر بھارت کشمیر پر ضرور قابض ہوگیا۔ عمران خان کو یہ غلط فہمی رہی کہ ٹرمپ سے اُن کے ذاتی مراسم ہیں اور وہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے مگر آج ٹرمپ کی شکست نے پی ٹی آئی حکومت کو صدمے اور مایوسی سے دوچار کردیا ہے اور ٹرمپ کے جانے کے بعد عمران خان کی اقتدار پر گرفت یقینا کمزور ہوگی۔ نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن سے اُمید ہے کہ وہ آنے والے وقت میں پاکستانیوں کو مایوس نہیں کریں گے اور ٹرمپ کی ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے امریکہ کے پرانے اتحادیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کریں گے۔

۔

   نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

۔

اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.

مزید :

بلاگ -