تجزیئے، فیصلے اور تیاریاں!! 

تجزیئے، فیصلے اور تیاریاں!! 
تجزیئے، فیصلے اور تیاریاں!! 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


سیاسی تاریخ میں بہت سے طوفانی دوروں کا ذکر سنتے پڑھتے اور خود اپنی آنکھوں سے دیکھتے آئے ہیں مگر گزشتہ ہفتے جماعت اسلامی کے اکابرین نے جو دورہ ملتان کیا۔ وہ منفرد تھا۔ یوں لگتا تھا کہ پوری جماعتی قیادت نے ملتان پر دھاوا بول دیا ہو۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم سراج الحق سیکرٹری جنرل امیر العظیم نائب امراء جناب لیاقت بلوچ، جناب اسد اللہ بھٹو، محترم فرید پراچہ ڈاکٹر معراج، میاں محمد اسلم جنوبی پنجاب کے قائدین راؤ ظفر اقبال، ڈاکٹر صفدر اقبال ہاشمی سبھی ملتان میں تین دن تک متحرک اور فعال رہے، اس دورے کے ایک ایک منٹ کو با مقصد بنانے کے لئے مقامی تنظیم نے یقیناً بڑی محنت اور عرق ریزی سے کام لیا۔ ہر شعبہ حیات سے وابستہ افراد کے ساتھ مرکزی رہنماؤں کی کوئی نہ کوئی تقریب بہر ملاقات کا انتظام کیا گیا تھا۔

جماعت کی سماجی، فلاحی تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن نے بھی احمد چغتائی اور ڈاکٹر ولی محمد مجاہد کی قیادت میں موقعہ سے فائدہ اٹھایا سراج الحق صاحب نے میڈیا کے مختلف شعبوں سے الگ الگ ملاقاتیں کیں نوجوانوں، تاجروں اور وکلاء، کارکنوں اور معززین کے اجتماعات سے خطاب کیا۔ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن اور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی مشترکہ تقریب میں سیاسی حالات پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور جماعت کا موقف واضح کیا لگتا ہے کہ غیر ارادی طور پر جماعت اسلامی عمران خان سے متاثر ہو گئی ہے۔ عمران خان کی ساری جدوجہد کا مرکز و محور یہ نظریہ تھا کہ تب کی دونوں بڑی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے اکابرین سب چور ہیں۔ جبکہ مسلم لیگ (ق) والوں کو وہ ڈاکو قرار دیتے تھے انہوں نے پہلی بار عوامی سیاسی جلسوں میں موسیقی کا تڑکا لگایا۔ سیاسی نغمے بنوائے۔ ان نغموں پر نوجوان خواتین و حضرات رقص کرتے دھمالیں ڈالتے۔ شروع میں اس کو ہدف تنقید بنایا گیا اسے اپنی سماجی و مذہبی اقدار کے منافی قرار دیا گیا۔ پھر پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ سے ہوتی ہوئی یہ بدعت ”دیگر جماعتوں تک بھی پہنچ گئی۔ یہاں تک کہ مولانا فضل الرحمن کے خطاب سے قبل مولانا آ رہا ہے کا نغمہ ضرور بجایا جاتا ہے۔

البتہ اس میں جدید اور مغربی آلات موسیقی سے پرہیز کرتے ہوئے صرف آواز اور (غالباً) دف پر گزارا کیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے ووٹ کو عزت دو والے نغمے نے بھی مقبولیت حاصل کی۔ اب جماعت اسلامی کی قیادت اپنے علاوہ سب کو چور کہہ رہی ہے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی سمیت۔ اسی طرح جماعت کا رنگ ڈھنگ اسلامی کے ساتھ ساتھ عوامی بھی ہو رہا ہے۔ جناب سراج الحق کے استقبال کا جو عوامی انتظام کیا گیا تھا اس میں ڈالے پر ڈیک لگا کر بلند آواز میں ”ویلکم ویلکم سراج الحق“ کا نغمہ سنایا جاتا رہا رات کو جو عوامی استقبالیہ دیا گیا اس میں پنڈال کے اندر اور باہر سڑک پر ڈیک لگا کر یہ نغمہ دو گھنٹے تک سنایا جاتا رہا۔ البتہ سراج الحق صاحب کی آمد پر بند کر دیا گیا۔ مغربی آلات موسیقی کی بلند آہنگ  سے ریکارڈ کیا گیا یہ نغمہ اپنی شاعری، نغمگی اور فنی محاسن کی وجہ سے خاصہ پسندیدہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ جماعت اسلامی کا ثقافتی یوٹرن بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ جن اکابرین کے گھروں میں شادی بیاہ کے موقعہ پر ڈھولک تک کی اجازت نہ ہو ان کے اجتماعات میں ڈیک پر مغربی موسیقی کی مدد سے تخلیق کئے گئے نغموں کو انقلاب ہی کہا جائے گا جس کی بنیاد جماعت کے نئے ہدف عمران خان کی پارٹی نے رکھی تھی۔ لگتا ہے کہ جماعت اسلامی نے بلدیاتی انتخابات اور پھر عام انتخابات کی تیاریوں کے سلسلے کا آغاز کر دیا ہے۔ اس کا اظہار جناب سراج الحق اور محترم لیاقت بلوچ نے بھی مختلف سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کیا ہے۔ تاہم جماعت کی قیادت کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ جو لوگ نصف بلکہ پون صدی سے جماعت کی ”اسلامیت“ سے متاثر ہو کر ساتھ چل رہے ہیں وہ کہیں نئی ”عوامیت“ سے بدک نہ جائیں۔

جماعت کے اکابرین کی باتوں سے لگتا ہے کہ اس بار بھی تنہا پرواز کا ارادہ ہے سراج الحق صاحب نے تو وکلاء سے خطاب میں دو ٹوک انداز میں کہہ بھی دیا کہ جماعت پی ڈی ایم کا حصہ نہیں ہے اور نہ آئندہ اس کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔ ادھر پیپلزپارٹی مولانا فضل الرحمن سے پینگیں بڑھا کر واپس پی ڈی ایم میں عملاً شامل ہو گئی ہے۔ حکومت مخالف تمام قوتیں ”گو عمران گو“ کے یک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہو کر متحدہ جدوجہد کا آغاز کر رہی ہیں۔ اس میں جماعت کی پالیسی کیا ہونی چاہئے یہ سوچنا خود جماعت کے اکابرین کا ہی کام ہے۔ اگر تنہا پرواز کا ارادہ ہے تو اس کی انتخابی تیاریاں عوامی سطح پر فی الحال نظر نہیں آ رہیں، ہو سکتا ہے کہ ملتان میں ہونے والے اجلاسوں میں کوئی لائحہ عمل طے ہو گیا ہو جس کا اعلان سردست کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ اطمینان کی بات صرف یہ ہو سکتی ہے کہ اگر بلدیاتی انتخابات کے لئے جماعت اسلامی کی تیاریاں نظر نہیں آ رہیں تو اس سلسلے کی انتخابی سرگرمیاں بھی ابھی کسی طرف سے دکھائی نہیں دے رہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ چیئرمینوں اور کونسلروں کی صورت میں بعض سیاسی جماعتوں کے نیٹ ورک موجود  اور فعال ہیں۔ انہیں امیدوارمیدان میں اتارنے میں زیادہ وقت درکار نہیں ہوگا۔ سیاسی قوتیں اور سماجی حلقے ”تبدیلی“ کی تبدیلی کے امکانات محسوس کر رہے ہیں۔

اس صورت حال میں حصہ وصول کرنے کی تگ و دو ہونے جا رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ اندازے کہاں تک درست ہیں۔اگر مان لیا جائے کہ ”صفحہ پھٹ چکا ہے“ اور ”اٹھاپٹخ“ ضروری ہو گئی ہے تو پھر کیا ہوگا؟کیا حصہ بقدر جُثہ کا فارمولا طے ہو گا یا چھابہ الٹا دیا جائے گا۔ حصہ بقدر جثہ کا فیصلہ ہوا تو کیا نئے انتخابات ہوں گے یا ایوانوں کی صورت حال دیکھ کر نتائج کا اعلان کر دیا جائے گا۔ خیر یہ ساری باتیں ابھی قبل از وقت لگتی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں کے فیصلے لاگو ہوتے ہیں وہاں تیاریاں قبل از وقت ہی شروع ہوتی ہیں۔ تجزیے، فیصلے اورتیاریاں۔


چلتے چلتے مختصر خبر۔ خانیوال شہر کی خالی ہونے والی صوبائی نشست پی پی 206پر ضمنی الیکشن کے لئے تحریک انصاف نے مرحوم ایم پی اے نشاط احمد ڈاہا کی اہلیہ نورین نشاط ڈاہا کو ٹکٹ جاری کر دیا ہے، جبکہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے مرحوم ایم پی اے نشاط ڈاہا کی ”آخری خواہش“ پوری کرتے ہوئے خانیوال شہر کے لئے کروڑوں کی ترقیاتی گرانٹ جاری کردی ہے۔ یاد رہے کہ مرحوم نشاط احمد ڈاہا مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے تھے جو وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے ”حسن کارکردگی“ کے اسیر ہو گئے تھے اور ن لیگ نے انہیں شوکاز نوٹس جاری کر دیا تھا۔ اب الیکشن کمیشن بیچارا کیا کرے؟ یہ گرانٹ تو مرحوم کی آخری خواہش تھی جواب پوری کی گئی ہے۔ انتخابی فائدہ اٹھائے لیکن شہر کو سیاسی رشوت تو نہیں دی گئی!!

مزید :

رائے -کالم -