جناب صدر!یہ آئین سے مذاق ہے؟
کہنے کو ہم "اسلامی جمہوریہ پاکستان" ہیں مگر عملی طور پر دین مبین اسلام سے کوسوں دور ہیں تو جمہوریت کی کشتی بھی ابھی تک" بیچ منجدھار ہچکولے"کھا رہی ہے......بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد ملک ایسے چل رہا ہے جیسے ٹریفک کے "بند اشارے" پر" دھکا شاہی" چلتی ہے.....جس کا "جتھا" بڑا ہوتا ہےوہ بزور طاقت اپنی"منزل مقصود"کی طرف چل دیتا ہے......
شومئی قسمت کہ ہمارے ہاں جب کبھی جمہوریت رہی بھی تو "برائے نام"....انگریزی میں اسے "فیس سیونگ" کہہ لیں....کبھی "ڈکٹیٹر شپ" نے جمہوریت کا راستہ روک لیا تو کبھی "جوڈیشل ایکٹو ازم"نے روڑے اٹکائے.....برا ہو غیر سیاسی سوچ کا کہ ہرنئے روز کے ساتھ "سیاسی انحطاط" بڑھتا جا رہا ہے....آمر تو آئین اور قانون شکن ٹھہرے ہی اب تو جمہوری لوگ بھی غیر آئینی باتیں کرتے" بے مزہ" نہیں ہوتے.....صدر پاکستان جناب ڈاکٹر عارف علوی کو ہی لیجیے....ایک کے بعد ایک عجیب بات کرتے ہیں.....شاید انہیں اندازہ ہی نہیں کہ وہ کیا "فرماتے"ہیں یا پھر انہیں عمران خان کی "صحبت" نے اپنے رنگ میں رنگ لیا ہے کہ صحبتیں مزاج بدل دیتی ہیں......کوئی زمانہ تھا کہ صدر اور وزیر اعظم کا قوم سے خطاب معنی رکھتا تھا.....ریڈیو اور پی ٹی وی سے تلاوت اور قومی ترانہ نشر ہوتا تو لوگ ہمہ تن گوش ہوجاتے...تقریر کا ایک ایک لفظ غور سے سنتے....پھر خان صاحب مسند نشین ہوئے تو نئے پاکستان میں برسوں پرانا قوم سے خطاب کا انداز بھی بدل دیا...یوں لگتا کسی کلاس کو لیکچر دے رہے ہیں....شاید عارف علوی صاحب بھی اپنے قائد کے نقش قدم پر چل رہے ہیں....وہ بھی نجی ٹی وی چینلز کو انٹرویو دیتے قصے سناتے اور ہاتھ پر ہاتھ مارتے قہقہے بکھیرتے ہیں.....کچھ دن پہلے گورنر ہاؤس لاہور میں سینئر صحافیوں سے ملاقات کے دوران صدر پاکستان نے فرمایا کہ آرمی چیف کی تعیناتی پر آئین مشاورت کی اجازت نہیں دیتا لیکن تعیناتی پر مشاورت ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے.....پھر بولے کہ میں تو پیغام رسانی کرتا رہتا ہوں....یہ بھی مانے کہ عمران خان پرانے دوست ہیں اور انہیں لیڈر مانتا ہوں......
جناب عارف علوی کو عمران خان سے دوستی مبارک ہو....بڑے ادب سے ایک سوال مگر ضرور ہے کہ کیا صدر مملکت "پیغام رساں" ہوتا ہے.....؟ہمارے خیال میں وہ ڈاکیے نہیں صدر پاکستان ہیں اور صدر پاکستان کے فرائض آئین میں واضح ہیں....جناب عارف علوی نے اس مجلس میں یہ عجب منطق بھی پیش کی کہ آئین آرمی چیف کے تقرر پر مشاورت کی اجازت نہیں دیتا مگر مشاورت میں کوئی مضائقہ بھی نہیں...بندہ اس پر ہنسے یا روئے.....کوئی راکٹ سائنس نہیں سیدھی سادی سی بات ہے کہ اگر کسی کام کی آئین میں اجازت نہیں تو وہ کام آئین کے خلاف ہو گا.....یعنی کامن سینس کی بات ہے کہ اگر کوئی چیز آئینی نہیں تو غیر آئینی ہوگی....جب کوئی چیز غیر آئینی ہے تو اسے اپنانے میں مضائقہ کیوں نہیں؟...جناب صدر!آپ کہتے ہیں مضائقہ نہیں ....یہ آئین سے مذاق ہے مذاق....!
صدر پاکستان جناب عارف علوی اس سے پہلے بھی اپنی فلفسیانہ گفتگو میں" الجھ "گئے تھے....پہلے ایک ٹی وی انٹرویو میں امریکی سازش پر قائل نہیں تھے جبکہ دوسرے میں قائل ہو گئے تھے....
مکرر عرض ہے کہ "میر کارواں" کے جو اوصاف علامہ اقبال نے گنوائے وہی شخصیت کو نکھارتے ہیں.....نگہ بلند.....سخن دل نواز.......جاں پرسوز...... وہ پھونک پھونک کر قدم رکھتا اور سوچ سوچ کر بولتا ہے کہ کتنے ہی لوگ اس کے نقش قدم پر ہوتے ہیں....
قومی رہنما کی گفتگو انتہائی نپی تلی ہوتی ہے.........گفتار میں تکرار نہ الفاظ کے انبار......قائد اعظم بہت کم بولے مگر ان کا فرمایا مستند ٹھہرا اور "قومی بیانیہ" بن گیا......
داستان گوئی اور حقائق میں بڑا فرق ہے.....گفتگو کے بھی کچھ آداب ہیں اور زبان کے لیے بھی ایک...سرخ لکیر....طے ہے....لہجہ توازن کھودے تو" بیانیے" مبہم ہو جاتے ہیں....
آرمی چیف کی تقرری کا فوج کے ہیڈ کوارٹرز جی ایچ کیو سے ایوان وزیر اعظم تک ایک "قانونی سفر" ہے.....لندن میں بیٹھے یا کنٹیبر پر چڑھے کسی لیڈر نہیں،یہ صرف اور صرف وزیر اعظم کا استحقاق ہے کہ وہ نئے آرمی چیف کی تقرری کریں....وہی مجاز اتھارٹی ہیں اور آخر کار ان کے دستخط ہی چلیں گے....
جناب صدر!مانا کہ خان صاحب آپ کے "لاڈلے" ہیں لیکن کیا کسی "پیارے"کے لیے ملک کے آئین سے کھلواڑ مناسب ہے؟
جناب صدر!آپ ملک کے سب سے بڑےآئینی عہدیدار ہیں.....کسی" غیر آئینی علاج"کے ذریعے آئین کا "جبڑا "نہ توڑیں.....!!!!
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں