مسلمان سیاستدانوں نے بنگال میں تعلیم کیلئے بہت محنت کی مگر اُنکی اپنی زبان کو معدوم کر دیا گیا، قیام پاکستان کی وجہ سے پنجابی  گورمکھی بننے سے بچ گئی

Nov 16, 2024 | 10:47 PM

مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد 
 قسط:86
مشرقی پاکستان…… بنگلہ دیش کیسے بنا؟
مشرقی پاکستان ایک گنجان آباد خطۂ زمین ہے۔ بنگال، آسام اور بھارت کے اس سے ملحقہ علاقے ایسے ہی گنجان آباد ہیں۔ ان علاقوں میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہے۔ یہاں ہندو اور اس سے ملتے جلتے مذاہب کے لوگ بھی اسی طرح رہتے ہیں۔ بنگال کے حصہ میں مسلمان بھاری اکثریت میں ہیں وہاں بھی پندرہ سے بیس فیصد ہندو آبادی ہے۔ اس طرح مشرقی پاکستان میں چار کروڑ مسلمانوں کے ساتھ تقریباً بیس فیصد ہندو بھی موجود ہیں۔ یہ ہندو اسلام کے مقابلہ میں مقامی بنگالی نیشنل ازم کا پرچار کرتے ہیں۔ انگریز کے دور اولین میں بنگلہ زبان فارسی اور عربی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔ بنگالی زبان کا دیوناگری رسم الخط غیر مسلم حضرات استعمال کرتے تھے۔ ہندو چونکہ زیادہ تعلیم یافتہ تھے اور انگریز مسلمانوں کی نسبت ہندو ساتھیوں کے ساتھ سہولت محسوس کرتا تھا۔ اسی دور میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں کام شروع ہوا تو ہندو بنگالی ماہرین تعلیم نے دیوناگری رسم الخط کو عام کرنے کی تحریک شروع کی اور بنگالی زبان کے فارسی اور عربی رسم الخط کو معدوم کر دیا۔ بنگالی سادہ لوح ہیں اُنہیں ہندو کی چالاکی کا احساس ہی نہیں ہوا۔ تعلیم کے فروغ کے سلسلہ میں ہندو ماہرین نے انگریزی اور دیوناگری کو اس قدر اہمیت دی کہ گذشتہ اڑھائی تین سو برس میں بنگالی زبان کی ہیئت ہی بدل گئی۔
مسلمان سیاست دانوں نے بنگال میں تعلیم کے فروغ کے لئے بہت محنت کی مگر وہ یہ بھول گئے کہ اُن کی اپنی زبان کو معدوم کر دیا گیا ہے۔ بالکل اس سے ملتی جلتی ایک سازش پنجابی زبان کے لئے بھی کی جا رہی ہے۔ پنجاب میں نام نہاد دانشوروں کا ایک مضبوط حلقہ پنجابی زبان کا رسم الخط بدلنے کا خواہش مند ہے اور یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ پنجابی زبان کا اصل رسم الخط گورمکھی ہے۔ حالانکہ سب لوگ جانتے ہیں کہ پنجابی زبان ایک قدیم زبان ہے اور اس کا تعلق مسلمانوں کی زبانوں کے میل جول سے ہے۔ عربی، فارسی، ترکی زبانوں میں سے جس طرح پنجابی پیدا ہوئی اسی طرح بعد میں مختلف علاقائی زبانیں جن میں سرائیکی، جھنگوی اور دیگر کئی زبانوں نے فروغ پایا اور اس طرح لشکری یعنی اردو زبان نے بھی جنم لیا۔ قیام پاکستان کی وجہ سے پنجابی زبان گورمکھی بننے سے بچ گئی ہے مگر وہ لوگ جو مسلمانوں کے دشمن ہیں اُن کی بڑی طاقتور تحریک یہ ہے کہ مسلمانوں میں عربی نام رکھنے اور عربی رسم الخط کو ختم کیا جائے۔ اس سلسلہ میں دیوناگری رسم الخط کا فروغ برصغیر کی ایک مثال ہے۔ اس سلسلہ میں بہت سے لوگ نام نہاد تحقیق کے ڈول ڈال رہے ہیں۔
خیر ہم بات بنگلہ دیش کی کر رہے تھے۔ بنگال میں ہندو اقلیت میں ہونے کے باوجود بہت زیادہ طاقتور ہے اور وہ مسلمانوں کو بنگالی نیشنل ازم کے چکر میں پھنسانے کے بعد دُنیا بھر کے مسلمانوں سے کاٹ رہا ہے۔ بنگالی مسلمانوں کو ہندو دانشوروں نے یہ پڑھایا کہ مغربی پاکستان میں صرف پنجابی رہتے ہیں۔ پنجابی بنگلہ دیش کو لوٹ رہے ہیں اور معیشت کے جو اعداد و شمار بنگال کے ہندو دانشوروں نے بنگالیوں کو پڑھائے ہیں اُن کو وہ حقائق کی روشنی میں دیکھنے کیلئے تیار نہیں۔
1966ء میں بنگالی طلباء کا ایک وفد مطالعاتی دورہ پر لاہور یونیورسٹی آیا اُنہیں شعبہ سیاسیات کے طالب علم صدر کی حیثیت سے ہم نے لاہور کے اہم مقامات دکھائے۔ وہ مال روڈ پر ہاتھ لگاتے اور سونگھتے اور کہتے جیوٹ پٹ سن کی بو آتی ہے۔ واپڈا ہاؤس الفلاح بلڈنگ کے بارے میں بھی یہی کہتے۔ حتیٰ کہ جب پنجاب اسمبلی کی عمارت کو بھی سونگھ سونگھ کر جیوٹ کی خوشبو محسوس کرنے لگے تو ہمارے ایک ساتھی نے اُنہیں کہا کہ دو منٹ کے لئے بیرونی دروازے پر آئیں۔ پورا گروپ باہر آیا تو ان صاحب نے انہیں پنجاب اسمبلی کا بنیادی پتھر دکھایا اور بتایا کہ یہ عمارت قیام پاکستان سے بھی دس برس قبل کی بنی ہوئی ہے اور پھر انہیں الفلاح بلڈنگ کے بارے میں بتایا کہ یہ بلڈنگ چھوٹے ملازمین کے جمع کئے گئے بنوولنٹ فنڈ سے بنائی گئی ہے اور اس کی آمدنی سے ان چھوٹے ملازمین کی مدد کی جا رہی ہے۔ جی پی او اور ہائی کورٹ کی عمارات کو بنے ہوئے اس وقت ساٹھ برس سے زائد عرصہ ہو گیا ہے۔ اس پر وفد کے لیڈر جو کہ ایک ٹیچر تھے نے معذرت کی۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں