یورپی یونین کی جانب سے بیلاروس پر پابندیوں میں توسیع کا فیصلہ، بیلاروس کا فیصلے پر شدید ردعمل
ایسا لگتا ہے کہ یورپی یونین صدر الیگزینڈرلوکاشنکو کے اقتدارمیں رہنے تک بیلاروس پر پابندیوں کو مزید سخت سے سخت کرتا جائے گا۔ یورپی یونین کی کونسل برائے خارجی تعلقات نے پیر کو بیلاروس پر پابندیوں میں مزید ایک سال کی توسیع کا اعلان کردیا ہے، بیلاروس نے اس پیش رفت پر انتہائی سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یورپی یونین تعلقات کو سردمہری کی اس سطح تک لے گیا ہے جو دونوں فریقین کے مفاد میں نہیں ۔ یورپی یونین نے کہا ہے کہ پابندیوں میں توسیع کا فیصلہ بیلاروس کی جانب سے انسانی حقوق کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزیوں، جمہوری اصولوں کے احترام نہ کرنے اور قانون کی بالادستی تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے کیا گیا ہے۔
بیلاروس اور یورپی یونین کے تعلقات فروری 2012 میں اس وقت بگڑ گئے جب یورپی یونین نے انسانی حقوق کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزیوں کی وجہ سے بیلاروس پر پابندیوں کو مزید بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اس پیش رفت کے ردعمل میں منسک نے پولش اور یورپی یونین کے سفیروں کو فوری طور پر ملک چھوڑ دینے کا حکم دے دیا جس کے جواب میں یورپی یونین کے تمام سفیروں نے فوراَ ملک چھوڑ دیا۔ مارچ 2012 میں یورپی یونین نے بیلاروس کے حکام اور کمپنیوں پر پابندی کی لسٹ میں مزید اضافہ کر دیا۔
بیلاروس کے یورپی یونین کیساتھ تعلقات اس وقت مزید بگڑ گئے جب بیلاروس نے سویڈش سفیرسٹیفن اریکسن کو اگست 2012 میں ملک بدر کر دیا، یہ ملک بدری ایک سویڈیش جہاز سے ٹیڈی بیئرز گرائے جانے کی وجہ سے کی گئی، ان ٹیڈی بئیرز پر بیلاروس میں جمہوریت کے حق میں مختلف نعرے درج تھے، جولائی 2012 میں بیلاروس نے یورپی یونین پر اس واقعہ کا الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ یورپی یونین بیلاروس میں بھی عرب ملکوں، یوکرائین، اور جارجیا کی طرح اقتدار کی تبدیلی چاہتا ہے۔
مشرقی یورپ کے امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کا ماننا ہے کہ یورپی یونین بیلاروس کی یورپ میں شمولیت سے پہلے وہاں اقتدار کی تبدیلی چاہتا ہے۔ ماہرین کی جانب سے یہ خیال اس وجہ سے ظاہر کیا جارہا ہے کیونکہ یوکرائین میں بھی مغرب نواز حکومت کے الیکشن ہارنے کے بعد یورپی یونین میں اس کی شمولیت کو روک دیا گیا تھا۔
پیر کو پابندیوں میں توسیع کے موقع پر یورپی یونین کا کہنا تھا کہ بیلاروس نے نہ تو سیاسی قیدیوں کو رہا کیا اور نہ ہی ان کی بحالی کے لئے کوئی اقدامات کئے، اس طرح قانون کی بالادستی اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کے حوالے سے بھی بیلاروس میں کوئی مثبت پیش رفت نہیں دیکھی گئی اس لئے یورپی یونین نے موجودہ پابندیوں کو 31 اکتوبر 2013 تک برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بیلاروس نے 31 اکتوبر 2013 تک پابندیوں کے فیصلے پر کڑی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ بیلاروس نے ہمیشہ تعمیری اور احترام پر مبنی بات چیت کی حمایت کی ہے۔ اس سے پہلے بیلاروس کو منسک کی جانب سے اپوزیشن پر کریک ڈاؤن کے موقع پر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
یورپی یونین نے بیلاروس میں ستمبر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے، برسلز کا ماننا ہے کہ ان انتخابات میں عالمی جمہوری پیمانوں کو خاطر میں نہیں لایا گیا۔ تمام 110 پارلیمانی نشستیں لوکاشنکو کے حامی امیدواروں نے جیتیں۔
بیلاروس کے صدر الیکذنڈر لوکاشنکو 20 جولائی 1994 سے صدارت کے عہدے پر براجمان ہیں۔ لوکاشنکو کے یورپی یونین سے تعلقات کافی عرصے سے کشیدہ ہیں۔ جبکہ پچھلے دو سالوں سے روس کیساتھ لوکاشنکو کے تعلقات میں بھی کشیدگی دیکھی گئی ہے، تاہم ستمبر 2012 میں صدر پیوٹن اور لوکا شنکو نے سوچی میں ایک ملاقات کی جس میں باہمی دلچسپی کے امور کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اس موقع پر دونوں رہنماؤں نے تجارتی تعلقات اور مشترکہ منصوبوں کو بڑھانے پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
دی کوزہ نیوز ڈیسک