ایم کیو ایم لندن کو واپسی کی اجازت کیوں ؟
کراچی میں ایم کیو ایم لندن نے نئے چہروں کے ساتھ واپسی کا اعلان کر دیا ہے۔ اتنے غیر معروف ناموں کے ساتھ واپسی کیا پیغام دے رہی ہے۔ کیا یہ واپسی اس لئے کی گئی ہے تا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے حوالے سے ابہام یہ دور کیا جا سکے کہ وہ اور لندن ایک ہیں۔ پہلے ایم کیو ایم پاکستان اپنے اقدامات سے یقین دلاتی تھی کہ اس کا لندن سے کوئی تعلق نہیں۔ اور اب شاید صورتحال میں اتنی تبدیلی آگئی ہے کہ اب لندن والی ایم کیو ایم یہ یقین دلا رہی ہے کہ اس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ پتہ نہیں کیوں یہ رائے ابھی بھی موجود ہے کہ دراصل ابھی بھی دونوں ایک ہیں
ایم کیو ایم لندن کے لئے اس وقت کراچی میں کیا پورے ملک میں فضا سازگار نہیں۔ اس کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں۔ وہ سیاسی تنہائی کا شکار ہے اور شاید سیاسی تنہائی کا شکار رہے گی۔ اس لئے ایم کیوایم لندن کے پا س پاکستان میں سیا سی کام کی شاید اس وقت کوئی گنجائش اور جگہ نہیں ہے۔ وہ شاید اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ ایم کیو ایم لندن نے نہایت غیر معروف لوگوں کے ساتھ صرف اپنی بقا کے لئے پریس کانفرنس کی ہے ۔ تا کہ اگر واقعی فاروق ستار ہاتھ سے نکل گئے تو کوئی پلان بی تو موجود رہے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ قانون نافذ کرنیو الے اداروں نے ایم کیو ایم لندن کو پریس کانفرنس کرنے کی کیوں اجازت دی۔ کیا ایم کیو ایم لندن کو پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت ہونی چاہئے۔ ایسے تو کل کو بی جے پی پاکستان میں سیاست شروع کر دے۔ یا کسی دوسرے ملک کی کوئی اور جماعت پاکستان میں کام شروع کر دے تو کیا پاکستان میں ایسا کوئی قانون نہیں جس کے تحت انہیں رو کا جا سکے۔ کیوں نہیں قانون نافذ کرنیو الے اداروں نے اس پریس کانفرنس کو روکا۔
ایک طرف تو ایک خبر چھپنے پر پورے ملک میں طوفان آیا ہوا ہے۔ نام ای سی ایل میں ڈالنے اور نکلنے کی نوبت آگئی ہے۔ بڑے بڑے بیوروکریٹ اور وزارء زیر عتاب ہیں اور دوسری طرف ایک ایسی تنظیم کو کھلم کھلا پریس کانفرنس کرنے کی اجازت ہے جس کا قائد پاکستان مردہ باد کے نعرے نہ صرف لگواتا ہے بلکہ اس پر ڈھٹائی سے قائم بھی ہے۔ بے شک سکاٹ لینڈ یارڈ نے اس پر منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت مقدمہ ختم کر دیا ہے لیکن پھر بھی پاکستان کے پاس تو اس کی را سے فنڈنگ کے مکمل ثبوت موجود ہیں تو کیوں پاکستان کی حکومت اس تنظیم اور اس کے عہد یدا ران کے خلاف ایکشن نہیں لیتی۔ کیوں نہیں ایم کیو ایم لندن کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیکر ا س پر مکمل پابندی لگا دی جاتی، اور واضح کر دیا جاتا کہ ا س تنظیم سے کسی بھی قسم کی وابستگی خلاف قانون اور آئین ہو گی۔ حیرانگی کی بات ہے جو طبقے حافظ سعید کے خلاف بہت بولتے ہیں کہ ان کے خلاف ایکشن لیا جانا چاہئے۔ ان کا تنظیمی نیٹ ورک ختم کر دینا چاہئے۔ پتہ نہیں وہ یہ مطالبہ ایم کیو ایم لندن کے بارے میں کیوں نہیں کرتے؟
گزشتہ دنوں کراچی جانے کا اتفاق ہو تو وہاں ضلعی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ افسر سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے دریافت کیا کہ یہ جو اتنا بڑا اسلحہ ملا ہے ۔ اس کی کیا کہانی ہے تو انہوں نے بتایا کہ یہ اسلحہ اس قدر سائنٹیفک طریقہ سے چھپا یا گیا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس گھر پر پہلے بھی چار بار چھاپے مار چکے تھے لیکن انہیں اسلحہ نہیں ملا تھا۔ اور یہ پانچویں بار ایم کیو ایم کے ہی ایک لیڈر نے خود جا کر بتایا کہ پورچ کا فرش اکھاڑیں پھر ٹینک ملے گا۔ اور ٹینک میں اسلحہ ہو گا۔ یہاں سے جو اسلحہ ملا ہے وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بالآ خر کراچی میں خانہ جنگی کی تیاری تھی۔ ضلعی انتظامیہ کا افسر کہنے لگا کہ ایسی گن ملی ہیں جن کو تو ہمار ی پولیس کو جوڑنا بھی نہیں آتا۔ صرف فوج ہی ان کو استعمال کرتی ہے اور ان کو واپس جوڑنا جانتی ہے۔ اسی ذخیرہ سے ہزاروں کی تعداد میں ایک ایسی برطانوی گن کی گولیاں ملی ہیں جو ابھی تک پاکستان میں نہیں آئی۔ لیکن یہ گن وہاں سے نہیں ملی۔ اس لئے قیاس آرائی یہی ہے کہ کراچی میں ایسے کئی اور اسلحہ کے ذخیرے موجود ہیں۔ جن کو تلاش کرنے میں ابھی تک ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور حساس ادارے بھی کامیاب نہیں ہو ئے ہیں۔
ایسی صورتحال میں جب عسکری اداروں کا یہ بھی خیال ہے کہ کراچی میں جاری آپریشن مکمل ہونے میں ابھی پانچ سال مزید لگ سکتے ہیں۔ ایسے میں ایم کیو ایم لندن کو واپسی کا ماحول فراہم کرنا دانشمندی نہیں۔ اگر تو ملک میں سٹرٹیجک فیصلے کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ ایم کیو ایم لندن کی واپسی پاکستان کے مفاد میں ہے تو انہیں یہ بات عوام کو سمجھانی چاہئے۔ ورنہ ایم کیو ایم لندن کی واپسی ملک کے مفاد میں تو نظر نہیں آتی۔
اب جبکہ تمام منتخب اراکین نے بھی ایک خا ص ماحول میں ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ اپنی وابستگی کا اعلان کر دیا ہوا ہے ۔ایسے میں ایم کیو ایم لندن کو ایک ملک دشمن اور غدار تنظیم قرار دیکر اس پر ہر قسم کی پابندی لگانے میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔ کیا ہم ایم کیو ایم لندن کو کام کرنے کی اجازت دیکر خود لوگوں کو کنفیوژ نہیں کر رہے ہیں۔ کیا صرف ہم بھارت کے دباؤ میں ہی حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر اور ان کی تنظیموں کو دہشت گرد قرار دے سکتے ہیں ۔ حا لانکہ انہوں نے پاکستان کے مفاد کے خلاف کوئی کام نہیں کیا۔ لیکن جنہوں نے بھارت کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف کام کیا ہے۔ انہیں کھلی چھٹی ایک سوالیہ نشان ہے۔ پتہ نہیں کیوں ایم کیو ایم لندن کی پریس کانفرنس کے بعد خبر والے صحافی کا جرم، جرم نہیں لگ رہا۔