نیو کلیئر معاہدہ اور امریکہ کی نئی ایران پالیسی
ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ امریکہ انفرادی طور پر ایران کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کوختم نہیں کر سکتا۔انہوں نے ایران کے حوالے سے نئی امریکی پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کی دھمکیاں نئی نہیں ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ نیو کلیئر معاہدے سے الگ ہوا تو ایران بھی معاہدہ ختم کر دے گا۔ ایرانی صدر نے یہ اعلان بھی کیا کہ ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے سے تعاون جاری رکھا جائے گا،تہران میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر نے کہا کہ معاہدہ ختم ہوا تو ہم اسلحہ کی تیاری میں اضافہ کریں گے اور اپنے جوہری پروگرام کو توسیع دیں گے۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ داعش اور دہشت گرد تنظیمیں امریکہ کی پیدا کردہ ہیں صدر روحانی نے معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک پر زور دیا کہ وہ اپنے وعدوں کی پاسداری کریں۔
صدر ٹرمپ نے ایران کو معاہدے پر عملدرآمد کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ ہم اس راستے پر نہیں چل سکتے، جس کا نتیجہ زیادہ تشدد، دہشت اور ایران کی جوہری صلاحیت کے حصول کے خطرے کی صورت میں نکلے وہ اس معاہدے کو بُرا فیصلہ قرار دیتے ہیں، صدر ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ کے افسروں کو ہدایت کی کہ وہ کانگرس اور اپنے اتحادیوں سے مل کر اس معاہدے کے نقائص کو دور کریں،صدر ٹرمپ جس کو بُرا معاہدہ کہہ رہے ہیں اُن کے پیشرو اوباما اِس معاہدے پر بہت فخرکرتے تھے اور اسے ایک ایسا معاہدہ قرار دیا کرتے تھے جو طویل سفارتی کاوشوں کے ذریعے وجود میں آیا اور جس کے ذریعے ایران کے نیو کلیئر پروگرام کو نہ صرف محدود کر دیا گیا ہے،بلکہ اس کے آگے بڑھنے کے راستے بھی بند کر دیئے گئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ ہماری کئی سال کی کوششوں کا نتیجہ ہے،اِس وقت بھی کانگرس کے اسرائیل نواز ارکان نے اس کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی تھی تاہم صدر اوباما اِس معاہدے کی افادیت کے اس حد تک قائل تھے کہ انہوں نے صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا۔ اگر کانگرس نے معاہدہ منظور نہ کیا تو وہ صدارتی ویٹو کا حق استعمال کرتے ہوئے اس معاہدے کی منظوری دے دیں گے تاہم کانگرس نے اس کی توثیق کر دی اور یوں یہ معاہدہ روبعمل آ گیا۔
عجیب اتفاق ہے کہ اگر امریکہ میں ایک صدر معاہدے کے حق میں تھا تو دوسرا صدر اُسے بُرے معاہدے کے نام سے یاد کر رہا ہے اِسی طرح ایران میں بھی رائے عامہ اس معاہدے کے معاملے پر تقسیم تھی،صدر روحانی اور اُن کے حامی اس کے حق میں تھے تو وہ لوگ مخالفت کر رہے تھے،جو امریکہ کے خلاف شدید جذبات رکھتے تھے،انہوں نے معاہدے کی منظوری کے بعد ایران میں مظاہرے بھی کئے تھے،لیکن حسن روحانی کے حامی اسی بنیاد پر اُنہیں دوبارہ صدر بنانے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ ایران کی عالمی تنہائی ختم کرنے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔
اس معاہدے میں پانچ دوسرے ممالک بھی فریق ہیں انہوں نے بھی معاہدے کو پسند کیا تھا اور اس کے بعد ہی ایران پر بہت سی پابندیاں ختم ہو گئی تھیں اور یورپی ممالک سے تجارت شروع ہو گئی تھی ابھی تک یورپی ممالک اِس معاملے پر کھل کر امریکی صدر کا ساتھ دینے کے لئے تیار نظر نہیں آتے۔البتہ دُنیا میں ایک مُلک اسرائیل ایسا ہے،جو صدر ٹرمپ کی اِس پالسی سے خوش ہے، کیونکہ ایران واحد مُلک ہے جو اسرائیل کی دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں ہوتا،بلکہ سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے تو اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی دھمکی دی تھی،ایران کا موقف ہے کہ ایران نہ صرف ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے سے تعاون کر رہا ہے،بلکہ اپنے جس میزائل پروگرام پر عمل پیرا ہے، نیوکلیئر معاہدہ اسے اِس سے نہیں روکتا،یہی وہ نکتہ ہے، جس سے اسرائیل خائف ہے،کیونکہ ایران نے جو تازہ میزائل بنائے ہیں وہ براہِ راست اسرائیل کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں،دُنیا کا کوئی دوسرا مسلمان مُلک ایسا نہیں،جس کی میزائلی قوت اسرائیل کو پریشان رکھتی ہو،اِس لئے صدر ٹرمپ کے بیان پر اسرائیل خوش ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔البتہ خود امریکہ کے اندر صدر ٹرمپ کو اِس معاملے میں پوری حمایت ملنے کی امید نہیں جیسا کہ اِس سے پہلے انہیں اوباما ہیلتھ کیئر بل پر نہیں مل سکی اور صدر اوباما کے دور کا یہ بل صدر ٹرمپ کی مخالفت کے باوجود اب تک مُلک کے قانون کے طور پر موجود ہے اور بعض مسلمان ممالک کے شہریوں کی امریکہ آمد پر انہوں نے جو پابندیاں لگائی تھیں اس پر بھی انہیں عدالتوں کے مخالفانہ فیصلوں کا سامنا ہے۔سابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی نیو کلیئر معاہدے پر ٹرمپ کے خیالات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ ایک بین الاقوامی بحران پیدا کرنا چاہتے ہیں۔اُن کا خیال ہے کہ یہ ایک خطرناک اقدام ہو گا اور اِس سے امریکی سلامتی کے مفادات کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں اور ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا اُن قریبی اتحادیوں کو بھی ہو سکتا ہے جو نیو کلیئر ڈیل میں فریق ہیں۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکی صدر پر داعش اور دوسرے دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی کا الزام بھی لگایا۔ یہی الزام سابق افغان صدر حامد کرزئی بھی چند روز پہلے امریکی صدر پر لگا چکے ہیں۔انہوں نے کہا تھا کہ امریکی جہازوں کے ذریعے افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کو اسلحہ پہنچایا جا رہا ہے۔صدر حسن روحانی اور حامد کرزئی کے الزامات انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں اور اگر امریکی حکومت نے ان الزامات کے بارے میں اطمینان بخش وضاحت نہ کی تو دہشت گردی کے خاتمے کے بارے میں امریکی دعوؤں کی قلعی کھل جائے گی۔ ایک طرف تو امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اور باقی دُنیا کی بھی اِس جنگ میں شمولیت کی خواہش رکھتا ہے،لیکن دہشت گرد گروہوں کو درپردہ ہتھیاروں کی سپلائی کا الزام ایسا ہے،جو امریکہ کی پالیسی کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔ایرانی صدر کے الزام کو تو امریکی اپنے ایک مخالف کا الزام کہہ کر مسترد کر سکتے ہیں،لیکن حامد کرزئی تو اُن کا اپنا مہرہ تھا جسے انہوں نے کابل کی حکومت سونپی تھی اور امریکی سرپرستی کی وجہ سے ہی وہ دس سال تک افغانستان کے صدر رہے۔اِس عرصے میں اُن کی سیکیورٹی کے انتظامات بھی امریکیوں کے سپرد تھے اگر ایسا شخص امریکہ پر الزام لگاتا ہے تو اس کی وضاحت ضروری ہے ورنہ وہ ساری عمارت دھڑام سے گر پڑے گی،جو امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر کھڑی کر رکھی ہے اور وہ خود دہشت گردی کے خاتمے کا چیمپئن کہلانا پسند کرتا ہے۔
