بک شیلف

بک شیلف
 بک شیلف

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کتاب: باتیں سیاستدانوں کی
مصنف: ضیا شاہد
پبلشرز : قلم فاؤنڈیشن
انٹرنیشنل ۔ یثرب
کالونی، بینک سٹاپ،
والٹن روڈ، لاہور
صفحات: 420 (مجلد)
سنِ اشاعت: اگست 2017ء
قیمت: 1200روپے
تبصرہ: لیفٹیننٹ کرنل غلام
جیلانی خان(ریٹائرڈ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کتاب کے مصنف پاکستان میں اردو زبان کے جانے پہچانے صحافی ہیں۔ ان کی 11کتابیں اب تک شائع ہو چکی ہیں جن میں بیشتر داستانوں اور کہانیوں پر مشتمل ہیں مثلاً خون کا سمندر، حیرت ناک کہانیاں، جنگ عظیم کی کہانیاں، خوفناک کہانیاں، قائداعظم کی زندگی کے دلچسپ اور سبق آموز واقعات وغیرہ۔۔۔ انہوں نے اپنی صحافیانہ زندگی کا آغاز 1960ء کے عشرے کے اوائل میں کیا۔ میں نے بھی انہی برسوں میں مختلف روزناموں اور رسالوں میں ان کی لکھی اور ترجمہ کی ہوئی کئی کہانیاں پڑھیں جو بہت دلچسپ تھیں۔

انہوں نے کالم بھی لکھے اور مختلف اخباروں سے منسلک رہے۔ آج کل روزنامہ ’’خبریں‘‘ کے چیف ایڈیٹر ہیں اور چینل 5کے بانی اور سب کچھ ہیں۔ آزادی ء صحافت کے علمبرداروں میں شمار کئے جاتے ہیں اور اس حوالے سے قید و بند کی صعوبتوں سے بھی بہرہ اندوز رہے ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں انہیں ستارۂ امتیاز جبکہ CPNE کی طرف سے سابق وزیراعظم نوازشریف نے انہیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا ۔


زیر تبصرہ کتاب میں پاکستان کی ان 22شخصیات سے انٹرویو اور ملاقاتوں کا ذکر ہے جن سے وہ ایک بار یا کئی بار ملے۔ انہوں نے کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے: ’’میں نے یہ بات کبھی سوچی بھی نہ تھی کہ ان باتوں اور ملاقاتوں کو قلم بند کروں گا۔ برسوں بعد اپنے حافظے کی مدد سے ان یادوں کو سمیٹا اور اخبار میں ’’یادیں اور ملاقاتیں‘‘ کے عنوان سے قسط وار لکھنا شروع کیا۔

آج انہی تحریروں کو نئے سرے سے مرتب کرکے پیش کر رہا ہوں‘‘۔۔۔ پھر بعد میں انہی شخصیات سے مزید ’’انٹرایکشن‘‘ کا ذکر بھی کیا ہے جو پہلے انٹرویو یا پہلی ملاقات کے بعد کے عرصے میں عمل و تعامل کے تسلسل کا نام کہا جا سکتا ہے۔


جن 22سیاستدانوں کا کتاب میں تذکرہ کیا گیا ہے ان میں سے نصف لغوی معانی کے اعتبار سے سیاستدان نہیں تھے۔ان کی پہلی محبت کچھ اور تھی اور بعد میں حالات کے جبر یا اپنے عہدے کے اختیار نے ان کو وادی ء سیاست میں دھکیل دیا یا وہ خود دھم سے آ کودے۔

ان حضرات میں سے پانچ کا اولین پیشہ ملٹری تھا (ایوب خان، یحییٰ خان، یعقوب خاں، اصغر خاں، اور ضیاء الحق) دو کا تعلق دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت سے تھا (مولانا مودودی اور قاضی حسین احمد) دو بیورو کریٹ تھے (غلام اسحاق خان اور آغا شاہی) ایک خاتون تھیں جو پاکستان کی پہلی خاتونِ اول تھیں (رعنا لیاقت علی خان) اور ایک کرکٹر تھے جو سیاستدان بن چکے ہیں (عمران خان)۔۔۔ ان گیارہ ’’کچے‘‘ سیاستدانوں کے علاوہ دوسرے گیارہ ’’پکے‘‘سیاستدانوں کے نام شیخ مجیب، بھٹو، معراج خالد، حنیف رامے، عبدالرب نشتر، کے ایچ خورشید ، خواجہ رفیق، معراج محمد، نصراللہ خان، جے اے رحیم اور مقبول بٹ ہیں۔
میرے خیال میں مصنف نے کتاب کا جو ذیلی عنوان ’’ایوب خان سے عمران خان تک ‘‘ ٹائٹل پر دیا ہے وہی اس کا اصل عنوان ہونا چاہیے تھا۔ ’’باتیں سیاستدانوں کی‘‘ والا عنوان کسی آئندہ ایڈیشن میں حذف بھی کیا جا سکتا ہے۔


کتاب کے سامنائی اور عقبی ٹائٹل پر جو رنگین تصاویر چھاپی گئی ہیں ان کی ترتیب بھی وہ نہیں جو فہرست میں دی گئی شخصیات کی ہے۔ مثلاً فہرست میں تو عمران خان کا نام سب سے آخر میں درج ہے لیکن ان کی تصویر فرنٹ ٹائٹل پر موجود ہے۔ جبکہ فہرستِ ترتیب کے اعتبار سے اسے بیک ٹائٹل پر ہونا چاہیے تھا۔ علاوہ ازیں ضیاء شاہد کی اپنی تصویر بھی فرنٹ ٹائٹل پر چھاپ دی گئی ہے جس سے یہ گمان گزر سکتا ہے کہ انہوں نے خود پر بھی شائد طبع آزمائی کی ہے۔

لیکن اندرونی فلیپ پر بھی ان کی ایک تصویر لگی ہوئی ہے ۔علاوہ ازیں صفحہ نمبر ایک پر بھی اور بیک ٹائٹل پر بھی ایک ایک تصویر موجود ہے۔اس طرح ان کی اپنی چار تصاویر اس کتاب میں دی گئی ہیں جو میرے خیال میں زائد از ضرورت ہیں۔۔۔ صرف فلیپ پر ایک تصویر کافی تھی اور بس!


اس کتاب کا ایک اور پہلو جس سے اس کی تشہیر متاثر ہو گی وہ اس کی طباعت اور پروڈکشن کا پہلو ہے۔ اسے 85/80 گرام کے سفید ریشمی (Glazed) کاغذ پر شائع کیا گیا ہے۔ یہ مجلد ہے اور اس کا ٹائٹل بھی ڈبل ہے۔۔۔ علاوہ ازیں کتاب میں جن 22شخصیات کا تذکرہ ہے ان کی رنگین تصاویر بھی پورے صفحے پر ان کے ناموں سے پہلے لگا دی گئی ہیں اور ان کا دوسرا صفحہ بلینک چھوڑ دیا گیا ہے جس سے 44 صفحات کا اضافہ کتاب کے حجم میں ہو گیا ہے۔

نتیجتاً اس کا وزن 800 گرام سے زیادہ ہے اور اسے زیادہ دیر تک ہاتھ میں اٹھا کر مطالعہ نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی اسے لیٹ کر تادیر پڑھا جا سکتا ہے کیونکہ اس طرح سینے پر ایک کلو وزن کا یہ کاغذی باٹ زیادہ ناقابلِ برداشت بوجھ بن سکتا ہے۔ یعنی آپ اس کا مطالعہ صرف اپنے سامنے رکھی میز پر رکھ کر ہی کر سکتے ہیں۔

میری شروع ہی سے ایک بُری عادت یہ ہے کہ میں کتاب لیٹ کر مطالعہ کرتا ہوں۔۔۔۔ دوسرے لفظوں میں لکھائی میز پر اور پڑھائی چارپائی پر۔۔۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس کتاب کو بُک پیپر پر چھاپا جاتا جو ہلکے زرد رنگ کا ہوتا ہے، وزن میں بھی بہت ہلکا ہوتا ہے، مختلف دبازتوں (Gramages) میں آتا ہے اور اس پر چھپی ہوئی تحریر زیادہ نمایاں اور دیدہ زیب نظر آتی ہے۔ ہارڈ جلد کی بجائے پیپر بیک سے کام چلایا جا سکتا تھا جس کی کئی اقسام ہیں اور جن کو بین الاقوامی پذیرائی حاصل ہے۔۔۔۔لیکن ضیاء شاہد جیسے تجربہ کار لکھاری، صحافی، ایڈیٹر، میڈیا بِگ وِگ اور طباعت کے جملہ اسرار و رموز سے باخبر آدمی کو اس قسم کے Tips دینے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ کسی بھی پارۂ تحریر کی افادیت اس کی کثرتِ خواندگی پر منحصر ہوتی ہے تو خیال آتا ہے کہ ہم پاکستان میں کاروبارِ نوشت و خواند اور طباعت و اشاعت کے ضمن میں مغربی روایات کی تقلید کیوں نہیں کرتے۔۔۔ اگر کسی کتاب کے اولین دوچار سو نسخہ جات خصوصی اہتمام کے ساتھ اور تحفتاً تقسیم کے لئے مختص کئے جائیں تو بات اور ہے لیکن ایسی صورت میں ان نسخوں پر قیمت درج کرنا چہ معنی دارد؟
جن 22شخصیات کا ذکر اس کتاب میں کیا گیا ہے ان میں 21اب اس جہانِ فانی سے کوچ کر چکی ہیں۔ صرف ایک شخصیت (عمران خان) ایسی ہے جو حیات ہے (خدا ان کو عمرِ دراز اور صحت و سلامتی سے نوازے)۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ضیاء صاحب کو اس تذکرے میں عمران خان کو شامل نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ان کے ذکر کے لئے عمران خان کے ساتھ میاں نوازشریف اور آصف زرداری اور ایک آدھ ایسی کسی شخصیت کو بھی شامل کرکے ایک الگ کتاب کی صورت دے دینی چاہیے جو آج کی سیاسی آب و ہوا میں زندہ و تابندہ ہیں۔۔۔۔ ویسے بھی اس کتاب میں یادوں کے حجم کو عدم مساوات کا شکار کر دیا گیا ہے۔ یعنی عمران خان پر 80 صفحات، مقبول بٹ پر 44صفحات ،ضیاء الحق پر 38 صفحات اور کے ایچ خورشید پر 32صفحات کے شانہ بشانہ ایوب خان، یحییٰ خان، اصغر خان، ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب، جے اے رحیم، آغا شاہی اور معراج محمد پر صرف آٹھ دس صفحات لکھ کر انہیں بھگتا دیا گیا ہے۔ اور عبدالرب نشتر، غلام اسحاق خان اور نوابزادہ نصراللہ خان پر تو صرف 6صفحات قلمبند کرکے افراط و تفریط کا ناخوشگوار مظاہرہ کیا گیا ہے۔

مجھے معلوم نہیں کہ اگر عمران خان پر 80صفحات لکھے جا سکتے ہیں تو ان شخصیات پرنگاہِ التفات کیوں نہیں ڈالی گئی جو آج بھی خان صاحب کے حریف ہیں۔ مجھے یہ بات کہنے میں کچھ باک نہیں کہ مصنف کے صحافیانہ تعلقات ان مقتدر خواتین و حضرات سے بھی رہے ہوں گے جو پاکستان کی مسند اقتدار پر تادیر فائز رہے اور آج بھی ہیں۔


اب میں کتاب کے مندرجات کی طرف آتا ہوں جو تحریر کا اصل جوہر ہوتے ہیں۔۔۔۔ ضیاء شاہد بلاشبہ ایک اچھے لکھاری ہیں کہ ان کی نصف صدی سے زائد عرصے پر پھیلی ہوئی ابلاغی زندگی اور ان کی میڈیائی کامیابیاں اس کی شاہد عادل ہیں۔ ان کی تحریر کی اصل خوبی تحریر کی روانی، سادگی اور سبک روی ہے۔

وہ ثقیل اور بھاری بھرکم الفاظ و محاورات کا سہارا نہیں لیتے۔ ان کی عبارت میں مجھے کہیں عبارت آرائی نظر نہیں آئی اور یہ بات کوئی آسان بات نہیں ہوتی۔ بادہ و ساغر کہے بغیر تو مشاہدۂ حق کی گفتگو بھی نہیں کی جا سکتی۔ لیکن ضیاء شاہد نے عوامی پذیرائی کو آگے رکھا ہے اور اپنی تحریر کی گرانباری یا اپنی علمیت کو سامنے آنے کی اجازت نہیں دی۔


ان کی یادداشت حیرت انگیز ہے۔۔۔ میں سمجھتا ہوں ہر بڑے لکھاری اور معروف صحافی میں اگر ناسٹلجیا اور گزرے مناظر کی پُرکشش باز آفرینی کی صفت موجود نہ ہو تووہ بڑا لکھاری نہیں بن سکتا۔ مختلف شخصیات سے میل ملاقات کی جو تفصیلات انہوں نے اس تذکرے میں جمع کی ہیں وہ ان کی اپنی شخصیت کی تحلیلِ نفسی پر بھی دال ہیں۔ مثلاً وہ ہر ’’بڑے آدمی‘‘ کو ’’میرا دوست‘‘ کہنا نہیں بھولتے۔ اب یا تویہ دو الفاظ ان کا تکیہء تحریر ہیں کیونکہ جس معروف شخصیت کا نام بھی سامنے آتا ہے، وہ ضیاء صاحب کا ’’دوست‘‘ ضرور ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں مشہورِ زمانہ شخصیات کا تذکرہ کرتے ہوئے ضیاء شاہد کو اپنی اَنا کا از بس خیال رہتا ہے۔

وہ ہر بڑے آدمی کا ذکر کرتے ہوئے خود کو کم از کم اتنا ہی بڑا ضرور گردانتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے اقبال کے تصورِ خودی کی تعبیر ان کے ہاں پیش پیش رہتی ہے اور تصور بے خودی کا وہ فلسفہ جو اقبال کے فلسفہ ء خودی کا ایک اور جزو لازم اور خودی کی دوسری منزل ہے، وہ اتنا پیچھے رہ جاتا ہے کہ اس پر ضیاء شاہد کی نظر نہیں پڑتی۔


مصنف نے کئی جگہ تسلیم کیا ہے کہ ان کو ماہ و سال کی تقدیم و تاخیر یاد نہیں رہتی۔۔۔ میرا خیال ہے یہی وجہ ہے کہ قاری کو یہ کتاب پڑھتے ہوئے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں سخت الجھن ہوتی ہے کہ تانگہ آگے ہے یا گھوڑا آگے ہے۔

میری رائے میں ان کو از سرِ نو اس کتاب میں بیان کی گئی ہر شخصیت کا ایک زمانی جائزہ ضرور لینا چاہیے۔ماہ و سال نہ بھی لکھیں تو بھی واقعات میں جن کرداروں کا ذکر آئے ان کی یادوں کی زمانی ترتیب (Time Sequence)کا ایک براڈ بیس (Broad Base) خاکہ تو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے۔ بعض واقعات کا اعادہ بھی کئی جگہ کھٹکتا ہے جس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انہوں نے کسی بھی شخصیت کا تذکرہ لکھتے ہوئے اس کا آغاز و اختتام ایک ہی نشست میں نہیں کیا ہوگا۔

دوسری تیسری نشست میں گزشتہ نشست کے واقعات کا بارِ دگر تذکرہ انسانی محدودات میں شمار ہوتا ہے۔ مثلاً مقبول بٹ شہید پر ان کے مضمون میں دو صفحات (308،323) پر اقبال کا یہ ایک ہی شعر دوبار درج ہو گیا ہے:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
کہا جاتا ہے کہ صحافت، وکالت اور سیاست کے ڈانڈے آپس میں ملے ہوتے ہیں۔ میرے تصور کے مطابق ان تینوں شعبوں اور پیشوں میں ایک قدرِ مشترک یہ بھی ہے کہ ان کو اپنی ذہانت و فطانت سے ملاجلا کر پریکٹس کرنے والا شخص کامرانی کی منازل طے کرتا کرتا ایک ایسے بلند مقام پر جا پہنچتا ہے جہاں زیادہ دیر تک ٹِک کر کھڑا رہنا مشکل ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں ان تینوں پیشوں میں حق و صداقت کے معانی و مفاہیم جدا جدا ہیں۔

آپ کسی ایسی بڑی شخصیت سے بات کرکے دیکھیں جو خود ساز ہو اور ان تین پیشوں سے گزر کر کسی عروج پر پہنچی ہو تو وہ اپنے عروج کی کہانی میں کسی ایک لگی بندھی اخلاقی روائت کی وہ تعبیر نہیں کر سکے گی جو وہ لوگ کرتے ہیں جو اس معراج کو نہیں پا سکے۔۔۔ ان 22شخصیات کی بعض کہانیاں پڑھنے کے بعد میرے اس تصور (Concept) کی توثیق، دست بستہ ہو کر میرے سامنے آ کھڑی ہوئی ہے۔

مزید :

کالم -