ساحر لدھیانوی ایک ایسا نام ہے جو ازسر تا پاکشش ہی کشش ہے ۔ ادب سے لے کر فلم تک جتنی شہرت، نام اور مرتبہ ساحر نے حاص کیا وہ قابل رشک ہے ۔ ساحر کے بارے میں لوگ اور تو بہت جانتے ہیں لیکن کچھ ایسی چیزیں ہیں جن پر ابھی تک پردہ پڑا ہوا ہے ۔ اور وہ محض افواہوں کی حد تک ہیں۔ اس کے بارے میں کچھ مضامین ایسے چھپے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ساحر مردانہ اوصاف سے محروم تھا۔ بظاہر اس کی زندگی یوں ہی سمجھ لیجئے کیونکہ مرتے دم تک اس کی شادی نہیں ہوئی تھی جبکہ فوت ہوتے وقت اس کی عمر تقریبا پنسٹھ برس تھی ۔ چنانچہ اس کے بارے میں ایسے شکوک پیدا ہونا ایک لازمی امر ہے ۔ پھر اس کے دوستوں نے اس کے بار میں جو کچھ کہا وہ بھی اس کی تصدیق کرتا تھا۔ لیکن میں اس کے آگے کی کچھ باتیں بتانا چاہتا ہوں کیونکہ ساحر میرا بہت عزیز ، قریبی اور بے تکلف دوست تھا اور مجھ سے وہ کچھ ایسی باتیں بھی کہہ جاتا تھا جو اوروں سے نہیں کہتا تھا۔ اور مجھے اس پر فخر ہے۔
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 87 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جس وقت ساحر ممبئی چھوڑ کر اور لدھیانہ کے مہاجرین کیمپ سے اپنی والدہ اور نانی کو لے کر لاہور پہنچا تھا تو اس وقت اس سے میری قربت شروع ہوئی تھی ورنہ پہلے ایک دو خطوں کے تبادلے کے سوا ہمارے تعلقات نہیں تھے۔ یہاں آنے کے بعد شروع شروع میں ساحر کیمونسٹ پارٹی کے دفتر کی بالکل بالائی منزل پر ایک برساتی نما کمرے میں میکلوڈ روڈ پر ٹھہرا تھا۔ یہ وہی بلڈنگ ہے جس میں بعد میں روزنامہ ’’کوہستان ‘‘ کا دفتر بھی قائم ہواتھا۔ یہ 1947 ء کے آخر کی بات ہے ۔ جب وہ یہاں آکر ٹھہرا تو اس کی ماں کے پاس کچھ زیورات اور نقدی تھی۔
اسے بہت سی توقعات تھیں کہ پاکستان میں آکر ساحر کا نام بہت آگے بڑھے گا ۔نام کی حد تک فیض صاحب اور قاسمی صاحب کو چھوڑ کر نوجوانوں میں کوئی ایسا نہیں تھا جو اس کی شہرت اور مقبولیت کو پہنچے۔ وہ کچھ اس عرصہ اس سٹور نما کمرے میں اپنے گھر والوں کے ساتھ مقیم رہا۔ اس کے بعد اسے ایبٹ روڈ ایک مکان کا حصہ الاٹ ہوا جس میں وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ منتقل ہو گیا۔ اور ساتھ ساتھ روزگار کی کوشش کرنے لگا ۔
یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ ہمارے ایک بزرگ جو رواداری کے لیے بڑے مشہور تھے وہ اپنی ذات کے حوالے سے اس کیلئے مضر بھی ثابت ہوئے ۔ اس زمانے میں پاکستان ٹائمز اور امروز دو پرچے پروگریسو پیپرز کی جانب سے نکلے جن کے مالک میاں افتخار الدین تھے ۔ ان خیالات میں جہاں بہت سے دوسرے افراد کو روزگار کے مواقع میسر آئے وہاں خیال تھا کہ ساحر کو بھی کوئی ملازمت مل جائے گی۔ لیکن اخبار کے چیف ایڈیٹر چراغ حسن حسرت تھے۔ وہ بڑے مشفق آدمی تھے اور ان کے دل میں ساحر کے بارے میں ایک گانٹھ پڑی ہوئی تھی۔
حسرت کی ایک غزل اس زمانے میں بہت مشہور ہوئی تھی ۔ جو یہ تھی
عارض ورخسار کی باتیں کریں
آؤ حسن یار کی باتیں کریں
سہل الممتنع میں یہ ایک بہت اچھی غزل تھی۔ ساحر کی عادت تھی کہ وہ جس کو پسند کرتاتھا اسی زمین میں اپنے انداز کی بات کر جاتا تھا۔ چنانچہ اس نے اس زمین میں یہ غزل کہی
اجنبی سرکار کی باتیں کریں
اس نے انگریز کے خلاف اپنی اس غزل میں باتیں کی تھیں۔ میرے خیال میں یہ اس آدمی کو TRIBUTE ہوتا ہے جس کی زمین میں غزل کہی جاتی ہے ۔ یہی نہیں بلکہ اگر Parody کہی جائے تو بھی وہ سمجھتا ہے کہ میری غزل مقبول ہے جو اس زمین میں غزل کہی جارہی ہے اور وہ خوش ہوتا ہے ۔ لیکن چراغ حسن حسرت کے دل میں ساحر کی اس جرأت کے بعد ایک گانٹھ پڑی ہوئی تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ ساحر نے ان کی غزل کو بگاڑا ہے۔ چنانچہ جب ساحر کا نام آیا تو انہوں نے اسے ملازمت دینے سے انکار کر دیا جس پر وہ بہت دلبرداشتہ ہو اکیونکہ اس سے پہلے بھی کئی جگہ ملازمت کے سلسلے میں ناکامیاں ہو چکی تھیں۔ اسے اس سے پہلے ایک سہ ماہی پرچے ’’سویرا ‘‘ میں ملازمت ملی تھی لیکن اس کے پیسوں سے تو اس کا جیب خرچ بھی نہیں چلتا تھا۔ پھر ان دنوں جو مشاعرے ہوتے تھے وہ بھی اس کے اخراجات کے لئے ناکافی تھے۔ چنانچہ اس واقعہ کے بعد اسے بہت صدمہ ہوا اور اسی دوران اس کے ماموں نے انڈیا میں اسے واپس بلوالیا جس کے بعد اس نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔
اسی لاہور میں جب ساحر پہلے رہتا تھاتو امرتا پریتم بھی یہیں رہتی تھیں۔ امرتا پریتم نہایت خوبصورت لڑکی کے طور پر اس زمانے میں مشہور تھی اور ان کے یکطرفہ طور پر چاہنے والے بہت سے تھے۔ وہ بڑے گھر کی بھی تھیں اور پڑھی لکھی بھی تھیں پھر ایک اعلیٰ درجے کی شاعرہ بھی تھیں۔ چنانچہ ان کے بہت سے چاہنے والے پیدا ہوگئے۔ اور ساحر بھی ان میں سے ایک تھے لیکن اس کی خوبی یہ تھی کہ امرتا پریتم بھی اسے چاہتی تھی اور اس کے انتظار میں رہتی تھی۔
امرتا پریتم اور ساحر لدھیانوی کے بارے میں لوگوں کا خیال یہ تھا کہ ان کے مراسم عام حدود سے آگے پہنچ چکے ہیں۔ واللہ علم بالصواب ۔ اس بارے میں آگے چل کر لوگوں کو اور شبہات اس لیے پیدا ہوئے کہ امرتا پریتم کے ایک بیٹے کی شکل ساحر پر ہے ۔ امرتا پریتم نے اپنی خودنوشت سوانح عمری میں لکھا ہے کہ میرا بیٹا مجھ سے پوچھتا ہے کہ ’’ممی مجھے لڑکے پوچھتے ہیں کہ کیا تم ساحر انکل کے بیٹے ہو۔ کیونکہ تمہاری شکل ان پر ہے۔ ‘‘ تو میں اسے کہتی ہوں کہ اگر تم ساحر انکل کے بیٹے ہوتے تو میں تمہیں سچ کہہ دیتی ۔ تم ساحر کے بیٹے نہیں ہو ۔ میرے ساتھ یہ ہوا کہ ساحر میرے تصورات پر چھایا ہوا تھا اور ہر وقت میرے تصور میں اس کی تصویر رہتی تھی اس لیے تمہاری شکل ان پر ہے۔‘‘ جی چاہتا ہے کہ ان کی اس بات کو مانا جائے لیکن یہ بڑی غیر سائنسی بات ہے۔
امرتا پریتم کی بات اپنی جگہ ۔ لیکن سائنس اس چیز کی نفی کرتی ہے کہ اگر کوئی تصورات پر چھایا ہو تو بچے کی شکل اس پر ہو گی۔ میں یہ بات ان لوگوں کے حوالے سے کہہ رہا ہوں ہمارے اس طرح کی بات کی نفی کرتے ہیں۔ ایک بہت پڑھے لکھے ہندو نے مجھے سے کہا کہ ہمارے ہر ایک گھر میں کرشن جی مہاراج کی تصویر لگی ہوتی ہے اور تصویر بھی بہت خوبصورت ہوتی ہے ۔ کرشن جی مہاراج کی تصوراتی تصویر بناتے بناتے ایک ایسا شاہکار بن چکا ہے کہ دنیا میں ایسا خوبصورت مرد کہیں بھی نہیں ہے ۔ اور کرشن جی عورتوں کے تصورات پر چھائے بھی رہتے ہیں۔ کیونکہ اس میں ان کا عقیدہ شامل ہوتا ہے ۔ اگر یہ بات مان لی جائے کہ بچے کی تصویر وہ بنتی ہے جو ذہن پر چھایا رہے تو ہندو گھروں میں نوے فیصد بچوں کی شکل کرشن جی مہاراج پر ہونی چاہیے۔
یہ ایک پڑھے لکھے ہندو کا کہنا ہے ۔ اب ایک طرف امرتا کا بیان ہے جو کہ بڑی دلیر خاتون ہیں اور ان کی بات ماننے کو جی چاہتا ہے ۔ دوسری طرف یہ سائنسی بات ہے جسے بھی رد نہیں کیا جا سکتا لیکن میں یہ تمہیں اس لئے باندھ رہا ہوں کہ میں ساحر کے بارے میں اس بات کی تردید کرنا چاہتا ہوں کہ وہ مردانہ اوصاف سے محروم تھا۔
ایک تو امرتا پریتم کے بیٹے کی شکل ساحر کے بارے میں اس بات کو شبے میں ڈالتی ہے دوسرا ساحر کے بارے میں میرا یہ آنکھوں دیکھا واقعہ ہے کہ دسمبر 1947 ء میں ساحر ایبٹ روڈ پر رہتے تھے جبکہ میں رائل پارک میں رہتا تھا ۔ میرے ساتھ چندرکانتا رہتی تھیں جن کا نام میرے ساتھ وابستہ رہا ہے۔ ساحر ایبٹ روڈ پر اپنی ماں اور نانی کے ساتھ رہتے تھے۔ ہمارے دونوں کے مکانوں میں فاصلہ بمشکل آدھے فرلانگ کا تھا۔ اس زمانے میں پینے پلانے پر کوئی پابندی نہیں تھی اور لوگ اکثر پیتے تھے اور ایک دوسرے کے ہاں اکثر پروگرام بنتا تھا۔
ایک دن ساحر میرے ہان آئے اور یہاں پینے کا پروگرام بنا ۔ ساحر نے دو پیگ لیے اور کہنے لگے ’’ اگر میں اس سے زیادہ پیؤں تو مجھے نیند آجاتی ہے ۔ اس لیے میں اور نہیں پؤں گا‘‘ میرا بھی یہی معاملہ تھا میں تو اور لوگوں کا ساتھ دیتا تھا۔ اس دن میں نے ساحر سے کہا’’ ایک پیگ اور پی لو اگر نیند آئی بھی تو ساتھ ہی تو تمہارا گھر ہے چلے جانا‘‘ کہنے لگا’’ مجھ سے نہیں اٹھا جاتا‘‘ میں نے کہا ’’ یہ بھی تو تمہارا گھر ہے اس لیے یہاں سو جانا‘‘۔ کہنے لگا اچھا اورپھر اس نے ایک پیگ اور لیا۔ واقعی وہ پیگ پینے کے بعد وہ اونگھنے لگا۔ اور کہنے لگا ’’ مجھے پاجامہ دو کیونکہ میں کپڑے بدل کر سونا چاہتا ہوں‘‘ اس نے کھانا بھی نہیں کھایا بلکہ صرف پینے کے دوران ہی کچھ Snacksلیے۔ اور سو گیا۔
صبح میں اٹھا تو دیکھا کہ ساحر نہیں ہے ۔ ساحر اس سے پہلے بھی کئی بار میرے ہاں سو چکا تھا اور سوتے ہوئے میں کئی بار مردانگی کے عام آثار اس میں دیکھ چکا تھا۔ لیکن اس کے باوجود اس نے جو معاشقہ بھی کیا وہ کبھی وصال تک نہیں پہنچا۔ انہی دنوں اس کا یہاں ایک مسلمان لڑکی سے معاشقہ ہوا تھا اور اس کے ساتھ وہ راتیں بھی گھومتا تھا ۔ اور ان کی خط و کتابت بھی ہوتی تھی۔ لڑکی بڑی خوبصورت تھی اور ایک امیر گھرانے سے تھی لیکن جب دونوں کی قربت ہونے لگی تو ساحر وہاں سے بھاگ گیا۔ میرے ذہن میں ساحر کے یہ سب واقعات تھے اور ساتھ ہی ذہن میں اس کے بارے میں مشہور یہ افواہیں بھی تھیں کہ وہ مردانہ اوصاف سے محروم ہے۔
چنانچہ اس روز جب میں صبح اٹھا اور دیکھا کہ وہ نہیں ہے تو میں نے کپڑے ڈھونڈ ے جو وہ رات کو پہن کر سویا تھا۔ اس کے اپنے کپڑے بھی وہاں موجود نہیں تھے۔ میری سمجھ میں کوئی بات نہ آئی ۔ کچھ دیر بعد جھاڑو دینے والی لڑکی آئی تو اس نے صفائی کے دوران کہا کہ چار پائی کے نیچے پاجامہ پڑا ہے۔ میں نے وہ اٹھایا تو دیکھا کہ وہ خراب ہوا تھا۔ گویا خواب کی کیفیت میں جو مرد کو ہوتا ہے وہ ہوا تھا۔اس کے بعد میں نے حکیم نیئر واسطی سے پوچھا کہ ’’کیا نامرد آدمیوں کو احتلام ہوتا ہے‘‘ انہوں نے کہا کہ نہیں ہوتا۔ میں نے کہا’’ ساحر کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ نامرد ہے لیکن میرے گھر میں رات یہ واقعہ ہوا ہے‘‘ تو وہ کہنے لگے کہ پھروہ نامرد نہیں ہے بلکہ ٹھیک ہے۔
جب ساحر ممبی چلا گیا تو پتہ چلا کہ وہاں ایک نئی گلوکارہ سدھاملہوترا سے اس کے مراسم کافی بڑھے لیکن پتہ چلا کہ آخر میں یہ معاملہ ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد ساحر کا لتا سے سلسلہ مشہور ہوا اور پھر پتہ چلا کہ وہ معاملہ بھی ٹوٹ گیا۔ اس دوران برابر اس کی ہجرو وصام کی نظمیں بھی ہو رہی ہیں اور ساتھ یہ بھی کہ
تم میں ہمت ہے تو دنیا سے بغاوت کر دو
ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لو
اس نے یہ شعر اس طرح کہا جیسے درمیان میں سماج آگیا تھا۔ حالانکہ کوئی سماج درمیان میں نہیں آیا تھا بلکہ یہ خودہی بھاگ جاتے تھے۔(جاری ہے )
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 89 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں