ضمنی انتخابات اور دوماہ کی حکومتی کارکردگی
سال 2018ء کے عام انتخابات ہنگامہ خیز اور معنی خیز تھے، جس پر تمام سیاسی جماعتوں نے اعتراضات اٹھائے ہیں۔ بالخصوص مسلم لیگ نواز کو ان انتخابات پر تحفظات ہیں اور انہوں نے گو مگو کی صورتحال میں انتخابات میں حصہ لیا، جب انتخابات کے نتائج آنا شروع ہوئے تو بظاہر پاکستان تحریک انصاف پورے ملک میں جیتتی ہوئی نظر آرہی تھی یہاں تک کہ ابتدائی نتائج میں بلاول بھٹو زرداری، خواجہ آصف، رانا ثناء اللہ سمیت کئی بڑے ناموں کو ہارتے ہوئے دکھایا گیا، پھر اچانک نتائج آنے کا سلسلہ منقطع ہوگیا اورآر ٹی ایس میں خرابی ہوگئی اور دوسرے دن جب نتائج سامنے آنے لگے تو کئی ہارے ہوئے جیت گئے اور بہت سے جیتے ہوئے ہار گئے،
پھر تمام جماعتوں کی طرف سے اپنے پولنگ ایجنٹس کو گنتی کے وقت باہر نکالے جانے اور فارم 45 نہ دینے کی شکایات سامنے آنا شروع ہوگئیں۔ الغرض ان انتخابات کو کئی لحاظ سے متنازعہ بنایا گیا، مگر دوسری جانب بین الاقوامی مبصرین نے ان انتخابات کو درست اور پچھلے تمام انتخابات سے زیادہ منصفانہ قرار دے دیا۔
وفاق اور دو صوبوں میں پاکستان تحریک انصاف کی مخلوط حکومتیں قائم ہوئیں اور ایک صوبے یعنی بلوچستان میں پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت بنی، جبکہ صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی نے حکومت بنا لی۔ شروع میں اپوزیشن جماعتوں میں بہت زیادہ اتحاد دکھائی دیا اور پاکستان کی تاریخ کی سب سے مضبوط حزب اختلاف بنتی نظر آئی، لیکن جوں ہی اسپیکر قومی اسمبلی کے انتخاب کا مرحلہ پہنچا تو یہ اتحاد تتر بتر ہوا اور اپنے اپنے مفادات اور اپنی اپنی بولیاں بولی جانے لگیں۔
عمران خان نے وزارتِ عظمی کا حلف اٹھانے کے بعد قوم سے جو خطاب کیا اور سو روزہ پروگرام پیش کیا، وہ بہت مسحور کن تھا۔ لیکن حکومت کی ابھی تک کی منصوبہ بندی (بالخصوص مالی منصوبہ بندی) اور کام کرنے والی متحرک ٹیم بنانے میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نظر نہیں آئی ہے، جس کی بدولت ملک مالی بحران کا شکار ہوگیا ہے اور پاکستانی روپے کی ڈالر کے مقابلے میں شرح تبادلہ میں یکدم اتنا فرق آیا کہ ایک ہی دن میں پاکستان کے قرضوں میں 900 ارب روپے کا اضافہ ہوگیا اور پاکستان میں مہنگائی کا ایک نیا سیلاب آگیا ہے اور لوگ پریشان ہوگئے ہیں۔
ایک المیہ یہ ہے کہ لوگوں کو سوچنے کی عادت ہے نہ کسی منصوبہ بندی کی۔
لوگ سوچنے سمجھنے کی بجائے حادثاتی تبدیلیوں اور وقتی مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلے لیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ملک میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ موجودہ حکومت سے عوام کے دل ابھی سے بھرنا شروع ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف اپنی قومی اسمبلی کی جیتی ہوئی نشستوں میں سے تین نشستوں سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے اور پشاور سے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر بھی اے این پی کے ہاتھوں شکست کھا لی ہے۔ قومی اسمبلی کی جن نشستوں پر تحریک انصاف کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ان میں عمران خان کی چھوڑی ہوئی بنوں کی نشست بھی شامل ہے، جس میں ووٹوں کے تناسب کا اندازہ کیا جائے تو عام انتخابات سے اب تک لگ بھگ بیس ہزار ووٹوں کا ردوبدل ہوا ہے، اسی طرح لاہور کے حلقہ 131 میں جہاں سے عمران خان چند سو کے مارجن سے جیتے تھے، وہاں اب ہمایوں اختر خان کو خواجہ سعد رفیق نے دس ہزار ووٹوں سے شکست دے دی ہے۔
اب ذرا ن عوامل پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو پاکستان تحریک انصاف کی تبدیلی کو عوام کی سوچ میں تبدیلی کو بدل گئے ہیں۔
میرے خیال میں جہاں ہمارے عوام کی جلد بازی کی عادت، دور رس نتائج اور منصوبہ بندی کی بجائے وقتی حالات کے تناظر میں فیصلے کرنے کی عادت کا ہاتھ ہے وہیں پی ٹی آئی کی غلط منصوبہ بندی اور ٹکٹوں کی غلط تقسیم کو بھی عمل دخل ہے، اگر لاہور کے حلقہ 131 کو ہی لے لیں تو ہمایوں اختر خان عام انتخابات کے آخری دنوں میں جاکر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے، جب کہ اس حلقے میں پہلے سے پی ٹی آئی کے پاس خاصی بڑی تعداد میں مخلص کارکنان اور راہنما موجود تھے۔ میرے مشاہدے کے مطابق پی ٹی آئی کے پرانے کارکنان اس حلقے کے انتخاب میں متحرک نظر نہیں آئے۔
اب آتے ہیں حکومتی پالیسیوں اور پاکستان کی مالی صورت حال کی طرف تو موجودہ مالی بحران گزشتہ دور حکومت کی کارکردگی کا شاخسانہ ہے، کیونکہ مالی پالیسیاں ایک دن، ایک ہفتے یا ایک مہینے میں تو اپنا رنگ نہیں لاتی ہیں۔ یہ تو سالوں پر محیط پالیسیوں کے نتائج ہوتے ہیں۔ پاکستان غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے کراہ رہا ہے اور پچھلی تمام حکومتوں نے اس بوجھ میں کمی کی بجائے اضافہ ہی کیا ہے، جبکہ ن لیگی حکومت نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے بے تحاشہ قرضے لیے اور ان قرضوں کا استعمال اس طرح کیا کہ ملک کی آمدن کے ذرائع بڑھانے کی بجائے غیر ترقیاتی منصوبوں پر زیادہ خرچ کیا گیا اور اس بات کی بھی کوئی منصوبہ بندی نہ تھی کہ یہ قرضے واپس کیسے کرنے ہیں،
اگر ہماری مالی منصوبہ بندی اور معشیت کا ہمسائے ملک بھارت سے موازنہ کیا جائے تو یہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ بھارت کی آبادی پاکستان سے چھ گنا اور رقبہ چار گنا زیادہ ہے، جبکہ انڈیا کے جی ڈی پی کا حجم 2600 ڈالر اور پاکستان کا 300 ڈالر ہے یہ ایک اور نو کا فرق ہے۔ بھارت کے فارن کرنسی کے ذخائر 400 ارب ڈالر ہیں اور پاکستان کے صرف 16 ارب ڈالر اس سے آپ اپنی حکومتی پالیسیوں اور کارکردگی کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں، اس کی بڑی وجوہات یہ ہیں کہ پاکستان میں جمہوری تسلسل کا فقدان رہا ہے، جس کی وجہ سے کوئی بھی حکومت مستقبل کی لمبی منصوبہ بندی کے بجائے وقتی حالات کے تناظر میں اپنی ترجیحات کا تعین کرتی ہے اور پالیسیوں کے تسلسل کا رحجان نہیں ہے ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کی پالیسیوں کو یکسر بدل کر اپنی ذاتی سوچ کے زیر اثر فیصلے کرتی ہے،
پھر سول اور فوجی حکومتوں کی ترجیحات ہمیشہ مختلف رہی ہیں اور عوام کی یہ حالت ہے کہ وہ کسی حکومت کو دو سال سے زیادہ برداشت ہی نہیں کرتے چاہے ملک میں مارشل لاء ہی کیوں نہ نافذ کرنا پڑے حکومت کو بدلنا لازمی سمجھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جمہوریت اور جمہوری حکومتوں کی پالیسیوں کا تسلسل قائم رکھا جائے اور حکومت کو وقت دیا جائے کہ وہ اپنی کارکردگی دکھا سکے۔ دوسری صورت میں پانچ سال کے بعد عوام کے پاس آپشن موجود ہوتا ہے، اگر حکومت کی کارکردگی ناقص ہو تو اسے بدل دیا جائے۔ محض دو ماہ کی کارگزاری پر فیصلے درست نہیں ہوسکتے۔