شہید ملت تحریک پاکستان کا روشن کردار
قائد ملت لیاقت علی خان
حامد خان
کرنال( مشرقی پنجاب )کے ایک متمول زمیندار گھرانے میں آنکھ کھولنے والے لیاقت علی خان نے علی گڑھ سے 1919 ء میں گریجویشن کے بعد 1921ء میں انگلستان میں آکسفورڈ سے اصولِ قانون میں ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں1922ء میں بیرسٹری کا امتحان بھی پاس کیا لیکن وکالت سے تعلق بس اتنا سا رہا کہ ہائیکورٹ کے وکلا ء کی فہرست میں نام درج کروا لیا،بطور پیشہ اسے کبھی اختیار نہیں کیا۔ سیاسی زندگی کا آغاز انگلستان سے آنے کے بعد ہی ہو گیا اور شروع ہی سے اس کا رخ مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کی طرف مائل دکھائی دیتا ہے۔ 1923 ء میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ آپ 1926 ء سے 1940ء تک یو۔پی کی مجلس قانون ساز اور بعد ازاں مرکزی مجلس قانون ساز کے رکن رہے۔آپ مسلم لیگ میں سیکرٹری جنرل سے لے کر پارلیمانی ڈپٹی لیڈر تک مختلف ذمہ داریوں پر فائز رہے۔ 1930 ء میں لیاقت علی خان یو۔پی کی واحد مسلم درسگاہ ’’مدرسہ‘‘کے صدر منتظم منتخب ہوئے ۔جیسا کہ شروع ہی سے تعلیمی میدان ان کی نظر میں خاص توجہ کا مستحق تھا۔ تعلیمی میدان میں ان کی سرگرمیاں ان کی فکر و سوچ کی آئینہ دار ہیں۔ 1932ء میں مسلم تعلیمی کانفرنس کے 40 مطالبات انہی کی کوششوں سے منظور کیے گئے ،1944 ء میں اینگلو عریبک کالج ‘دہلی کے صدر کے طور پر منتخب کیے گئے اور دسمبر 1945 ء میں کل ہند مسلم تعلیمی کانفرنس کی صدار ت کی۔فکری حوالے سے علی گڑھ میں ان کے اس خطاب سے روشنی پڑتی ہے:’’ہم آزادی کے لیے جدوجہد اس لیے نہیں کرر ہے کہ ہم انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو کر ہندوؤں کی غلامی میں چلے جائیں بلکہ ہمارا مقصد ایک آزاد اور خود مختار مملکت کی تشکیل ہے تاکہ ہم اس نصب العین تک پہنچ سکیں جس سے ہم کو تیرہ سو سال پہلے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے روشناس کروایا تھا۔قرآن مجید کی رو سے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ صرف خدا کے لیے زندہ رہے اور خدا کے لیے جان دے کیونکہ خدا ہی حقیقی حکمران ہے اور ساری حاکمیت اسی کی ذات میں مرتکز ہے۔‘‘ایک زمیندار خاندان کے چشم و چراغ ہونے کے باوجود سوچ کا ارتقاء استحصالی ذہنیت سے دور کر کے، انکا رشتہ اسلام کے سماجی اصولوں سے جڑ چکا تھا،یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پنجاب میں زرعی اصلاحات کا بل اسمبلی میں پیش کیا تواشرافیہ کی بے چینی دیدنی تھی کیونکہ یہ بل سراسر ان کے مفادات پر ضرب تھا۔ استحصالی نظام کے خلاف ان کا موقف بہت واضح تھا جس کا اظہار انہوں نے ایک جگہ ان الفاظ میں کیا کہ ’’اگر پاکستان کو سرمایہ داروں کے استحصال کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا تو اس ملک کا مستقبل تاریک ہو جائے گا،پاکستان یقیناًنہ تو سرمایہ داروں کا ملک ہو گا اور نہ اشتراکیوں کا،یہاں صرف اسلامی اصولوں پر عمل ہو گا‘‘ (17 نومبر 1948جلسہ مسلم لیگ)۔ لیاقت علی خان کی سوچ و فکر کے حوالے سے با ت ہو جانے کے بعد اب ہم تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے دوران ان کی خدمات کی طرف آتے ہیں۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے بارے میں چوہدری خلیق الزماں نے لکھا ہے کہ ’’1933ء میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کو لیاقت علی خان نے آل انڈیا مسلم لیگ کی باگ ڈور سنبھالنے پر قائل کیا ۔‘‘چنانچہ ا پنے قیام انگلستان کے دوران قائد اعظمؒ نے لیاقت علی خان کے ساتھ اتفاق کیا۔ یوں تو یو۔ پی کی سیاست میں لیاقت علی خان شروع ہی سے منتخب نمائندے کی حیثیت سے مسلم مفادات کا تحفظ کرتے نظر آتے ہیں لیکن وہ مرکزی مجلس قانون ساز کے رکن 1940ء میں منتخب ہوئے۔ قائداعظمؒ تحریک پاکستان کے اگلے جاں گسل مرحلوں میں مصروف ہونے کی بنا پر اسمبلی کے اندر دستوری اور پارلیمانی معاملات میں مسلم مفادات کے لیے بہت کم وقت نکال پاتے ، یہاں تقریباً سار ی ہی ذمہ داری لیاقت علی خان نے ادا کی۔ نوابزادہ لیاقت علی خان کا تحریک پاکستان میں تاریخی کردار ان کا تقسیم ہند سے پہلے عبوری حکومت میں وزیر خزانہ کے طور پر سامنے آتا ہے۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ تقسیم ہند کے عمل کو مکمل کرنے کے لیے پہلے ایک عبوری حکومت تشکیل دی گئی ، حکومت برطانیہ اور کانگریس دونوں کی یہ آرزو تھی کہ عبوری حکومت ایک کابینہ کی طرح کام کرے اور پنڈت نہرو وزیر اعظم کا کردار ادا کریں اور اس طرح ایک’ متحدہ ہندوستان‘ کو کانگریس مسلم لیگ مخلوط حکومت کے حوالے کیا جا سکے۔مزید یہ کہ مسلم لیگ کو ایک واحد دستور ساز اسمبلی میں شرکت پر بھی مجبور کیا جائے جہاں کانگریس اپنی عددی اکثریت کی بنا پر مسلم لیگ کو پاکستان کے مطالبے سے دستبردار کروا سکے،ا کھنڈ بھارت کی تکمیل کی یہ ایک آخری کوشش تھی ! لیاقت علی خان نے قائد اعظمؒ کی رہنمائی میں اسمبلی میں مسلم لیگی ارکان کی قیادت کرتے ہوئے یہ صورتحال پیدا نہ ہونے دی اور نہرو کو وزیر اعظم تسلیم نہ کرنے کے باوجود نہ تو مسلم لیگ کو عبوری حکومت سے ہی خارج کر دینے کا کوئی بہانہ کانگریس کے ہاتھ آنے دیا اور نہ ہی دستور ساز اسمبلی والے منصوبہ کو پایہ تکمیل ہونے دیا ۔ آپ نے وزیر خزانہ کے طور پر کانگریس کو ایسا تگنی کا ناچ نچایا کہ کوئی بھی منصوبہ جو کانگریس کے ہاں سے وزارت خزانہ میں منظوری کے لیے آتااس کی یا تو شکل تبدیل ہو جاتی اور یا پھر وہ مسترد ہو جاتا۔قیام پاکستان کے بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان نے قائد اعظمؒ کے شانہ بشانہ مہاجرین کی بحالی سے لے کر وسائل کی دستیابی اور افواج کی تنظیم سے لے کر معیشت کی بحالی، ہر طرف حالات کو سنبھالنے کی ان تھک جدوجہد کی۔قائد اعظمؒ کی وفات کے بعد بیرونی دنیا میں بھی یہ سوچ موجود تھی اور پاکستان میں بھی یہ پائی جاتی تھی کہ اب کوئی اس بوجھ کو اٹھانے والا ہے بھی یانہیں؟اس مشکل گھڑی میں لیاقت علی خان نے غمزدہ قوم کو پھر سے نئی امید دی ،بیرونی دنیا میں پاکستان کو ایک پراعتماد تاثر دلوایا اور بالخصوص بھارت کے ان مکروہ عزائم پر پانی پھیر دیا جو وہ قائد اعظمؒ کی وفات کے بعد پاکستان کے حوالے سے رکھتا تھا۔انہوں نے مختلف اوقات میں بھارتی جارحیت سے اپنے ملک کو تدبر اور حکمت سے محفوظ بنایا ،مثلا 1950 میں کلکتہ کے فسادات کے بعد بھارت نے افواج مشر قی پاکستان کی سرحدوں پر جمع کرنی شروع کر دیں، فوری طور پر لیاقت علی خان نے ڈھاکہ جا کر مسلمانوں کو رد عمل سے روکاجو فطری طور پر مغربی بنگال سے آتے لوگوں کی حالت زار دیکھ کر ان میں بھڑکنے کو تھا۔ اس کے بعد طے پانے والالیاقت نہرو معاہدہ آج بھی دونوں ملکوں میں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے بنیادی حیثیت کا حامل ہے ، جو بھارت کے اس دعوے کے رد کے لیے کافی ہے کہ بھارتی مسلمانوں سے سلوک اس کا داخلی معاملہ ہے اور پاکستان اس بارے میں کوئی بات نہیں کر سکتا۔
ذاتی خوبیوں کو دیکھیں تو ہمیں ان کی شخصیت میں سیاسی تدبرو بصیر ت اور موقف پر پختگی کی دو نمایاں خصوصیات نظر آتی ہیں۔تقسیم ہند کے موقع پر افواج کی تقسیم کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا تھا۔انہوں نے بطور وزیر خزانہ وائسرائے کو دو دفعہ باقاعدہ اس طرف متوجہ کیا اور پھر ڈیفنس کمیٹی کے اجلاس ہوئے جن میں اسلحے اور افواج کی تقسیم کا فارمولا طے کیا گیا، انہیں تقسیم کے دوران افواج کی اہمیت کا ادراک ہو گیا تھا جو بعد میں کھل کر سامنے آیا۔موقف پر پختگی کی بہترین مثال 1949ء میں بھارت سے روپے کی قدرپرہونے والا قضیہ ہے جب بھارت نے دوسرے ممالک کے ساتھ اپنی کرنسی کی قدر گھٹا دی لیکن پاکستان نے ایساکرنے سے گریز کیا، اب پاکستان کا ایک روپیہ بھارت کے ڈیڑھ روپے کے برابر ہو گیا تھا۔اس پر بھارت نے پاکستان سے تمام تجارت معطل کر دی تآنکہ وہ بھی اپنی کرنسی کی قدر گھٹا نہ دے۔لیاقت علی خان نے بھی ڈھاکہ جا کر کہہ دیا کہ بھارت کو ایک گانٹھ پٹ سن بھی نہیں دی جائیگی اور جیسا یہ کریں گے جواباً ان کے ساتھ بھی ویساہی کیا جائے گا۔یہی صورتحال جاری رہی یہاں تک کہ چھ مہینے بعد بھارت اپنی ضد سے باز آگیا۔
اس طرح لیاقت علی خان ایک ایسے مدبر قائد کے روپ میں سامنے آتے ہیں جو تقسیم سے پہلے اور بعد، قائداعظمؒ کے نائب اور جانشین رہے ،اپنی ذمہ داریوں کو کماحقہ ادا کیا اور ایک صاحب جاہ و حشم خاندان سے ہونے کے باوجود مسلمانوں کی اجتماعی جدوجہد آزادی میں اپنی پوری صلاحیتوں کو لگائے رکھا۔ قائد اعظمؒ نے فرمایا تھا کہ ’’لیاقت علی خان نے نہایت تن دہی کے ساتھ شب و روز کام کیا ہے اور عام آدمی کے لیے یہ سمجھنا بھی بہت مشکل ہے کہ انہوں نے اپنے کاندھوں پر کتنا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔وہ کہلاتے تو نوابزادہ ہیں لیکن فکر و عمل کے لحاظ سے بالکل عوامی کردار رکھتے ہیں اور ملک کے دوسرے نوابوں اور نوابزادوں کو چاہیے کہ وہ ان کے نقش قدم پر چلیں‘‘۔ (6 دسمبر 1934 مسلم لیگ کا اجلاس منعقدہ کراچی)۔اللہ ان کی روح کو غریق رحمت کرے اور وطن عزیز اور مسلمانوں کے لیے ان کی کاوشوں کو شرف قبولیت بخشے۔ آمین
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے