سرکاری ادارے اور اُستاد کا مقام
آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے ، دُنیا بھر میں ہونے والے واقعات اور اُن کے متعلق معلومات لینے کے لئے آپ کو صرف ایک کلک کی ضرورت ہوتی ہے ، اگر کسی ملک کے کلچر اور تہذیب و تمدن کے بارے میں کچھ معلوم کرنا ہو یا کسی قوم کی ترقی کی وجوہات سے آشنا ئی حاصل کرنا ہو تو بھی ایک کلک ہی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جدیدیت کے اس دور میں ہم اور ہمارا وطن عزیز کس جگہ پر کھڑا ہے اس بات کا اندازہ آپ یہاں جاری لوڈ شیڈنگ ، قومی انتخابات کے نتائج کے متعلق منفی سوچ ، روز بروز بڑھتی مہنگائی ، ڈالر کی پرواز ، گولڈ کی قیمتوں میں اضافہ ، دہشت گردی ، غریب اور امیر کے لئے علیحدہ علیحدہ انصاف کے تقاضے ، تعلیمی معیار ، ٹریفک قوانین ، شاہرات پر رش ، سینما جات ، بس سٹینڈز پر بغیر قطار کھڑے عوام اور ایسے دوسرے عوامل جو ہمیں احترام انسانیت سے دُور کر رہے ہیں نظر آئیں گے ، اب ان عوامل کا تمسخر تو اُڑایا جا سکتا ہے لیکن انہیں شاباش نہیں دی جا سکتی ، علم کی فضلیت کے حوالے سے بات کریں تو کہا گیا کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے ، اس فرمان کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ چین میں علم زیادہ ہے بلکہ اس فرمان کے پیچھے کارفرما عمل یہ ہے کہ سعودی عرب سے چین کا فاصلہ بہت زیادہ ہے لہذا اگر آپ کو اتنا لمبا سفر طے کرکے علم کی کوئی بات ملے تو فاصلے کی پرواہ نہ کی جائے۔ہارون رشید کا دور حکومت دیکھیں تو ایک مثال ہی علم اور علم بانٹنے والوں کی فضیلت کو ظاہر کر دیتی ہے ، ایک بار ہارون رشید بادشاہ نے دیکھا کہ اُس کے فرزند ایک شخص کے سامنے اُس کے جوتے اُٹھائے کھڑے ہیں ، وہ شخصجب نماز سے فارغ ہوا تو اُس کو وہ جوتے پہنائے گئے ، ہارون رشید بہت حیران ہوا اور اپنے وزیر بولا کہ یہ کون شخص ہے جس کے جوتے ہمارے بیٹوں کے ہاتھ میں ہیں ، وزیر بولا جناب عالی یہ ان بچوں کا اُستاد ہے جس سے یہ علم حاصل کرتے ہیں ۔سوشل میڈیا پر آج کل ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں سکول کی بس ایک چوراہے میں سٹاپ کرنے کے لئے اپنی رفتار آہستہ کرتی ہے ،یہ دیکھ کر چاروں اطراف سے آنے والی ٹریفک اپنی اپنی جگہ رُک جاتی ہے تاکہ سکول کی بس میں سے طالب علم اُتریں اور سکول میں داخل ہو جائیں اُس کے بعد بس وہاں سے چل پڑتی ہے تو باقی ٹریفک رواں دواں ہوتی ہے ، اس فوٹیج کے نیچے لکھا ہوا تھا کہ ہم ایسی اخلاقی منزل تک کب پہنچیں گے ، علم حاصل کرنے اور معلم کی عزت اور خدمت کرنے کے حوالے سے ہمارا دین اور ہمارے نبی ﷺ نے جو فرمان جاری فرمائے ہیں اُن کے ہوتے ہوئے علم حاصل نہ کرنا یا معلم کی عزت و تکریم میں فرق ڈالنا گناہ کے زمرے میں آتا ہے ، پاکستان کے معروف سکالر اشفاق احمد اپنے ایک واقعہ میں لکھتے ہیں کہ میں اٹلی کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا کہ ٹریفک سارجنٹ نے میرا چالان کر دیا ، مجھے چالان ادا کرنے کے لئے عدالت جانا تھا ، میں عدالت میں پہنچا اور جب میرا چالان جج کے سامنے پیش ہوا تو وہ اور اُس عدالت کا سارا عملہ یہ کہہ کر احترام میں کھڑا ہو گیا کہ عدالت کے اندر ایک اُستاد آیا ہے ، اشفاق احمد مر حوم لکھتے ہیں کہ اُس دن مجھے سمجھ آ گئی کہ یورپی ممالک کی ترقی کا کیا راز ہے ۔ دُنیا بھر میں اساتذہ کی عزت کا یہ عالم ہے کہ عدالت کا جج بھی اُن کے احترام میں کھڑا ہو جاتا ہے جبکہ ہمارے ملک میں اس عزت و تکریم کا جنازہ اُس وقت نکال دیا گیا جب نیب نے یونیورسٹی کے اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا جبکہ نیب اہلکار اس کے مجاز نہیں ہوتے وہ صرف ملزمان کے خلاف شواہد پیش کر سکتے ہیں باقی کام پولیس کا ہوتا ہے ، میڈیا نے پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر مجاہد کامران اور دوسرے پروفیسرز کو لگائی گئی ہتھکڑیوں سمیت خبر آن ائیر کرکے ساری دُنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو باور کروا دیا کہ ہم اپنے اساتذہ کی عزت کس طرح کرتے ہیں ، صد حیف کہ پاکستان میں معلم کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے جبکہ سندھ کے ایک ایس ایس پی کو پروٹوکول سے عدالت میں بغیر ہتھکڑی لایا جاتا ہے جس کے خلاف ثبوت ہیں کہ وہ قاتل ہے اب آپ ہی انصاف کریں کہ معلم اور قاتل کوئی فرق نہیں یا ہمارا معاشرہ بے حس ہو گیا ہے ؟ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور سابق پروفیسرز کے خلاف جو مقدمہ بنایا گیا ہے وہ یہ کہ ان صاحبان نے اپنی تعیناتی کے دور میں پانچ سو سے زیادہ نا جائز بھرتیاں کی تھیں ، اور یہ عمل کرپشن کے زمرے میں آتا ہے ، مان بھی لیا جائے کہ ایسا ہوا تھا تو کیا شرجیل میمن ، ڈاکٹر عاصم ، میاں نواز شریف ، میاں شہباز شریف ، آصف علی زرداری ، ماڈل ایان علی کے خلاف ثبوتوں سمیت مودمات درج ہیں اُن کو اگر یہ سمجھ کر رعائت دی جائے کہ وہ پاکستان میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے یا اُن کے تعلقات اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ تھے تو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ یہ سب ملزمان کسی نہ کسی استاد سے علم حاصل کرتے رہے ہیں ، جہاں استاد کو ہتھکڑی لگے گی اور اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد سے رعائت برتی جائے گی اُس وطن میں ترقی تو کیا اپنی پہچان قائم رکھنا دشوار ہو گا ۔چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے انسانیت کی اس تذلیل کا از خود نوٹس لیا اور ڈی جی نیب کی سرزنش کرتے ہوئے پوچھا کہ اساتذہ کو ہتھکڑیاں کیوں لگائی گئیں ؟ جس کے جواب میں ڈی جی نیب زارو قطار رو پڑے ، ڈی جی کے نکلنے والے آنسو اُس خفت میں تھے جو انہوں نے اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگوائیں یا اس ڈر سے تھے کہ چیف جسٹس پاکستان کہیں مجھے سزا سناتے ہوئے ہتھکڑیاں لگانے کے احکامات نہ جاری کر دیں ، لہذا ہم سے بہتر اُن آنسووں کی حقیقت ڈی جی نیب ہی بتا سکتے ہیں ۔ پاکستان یا کسی بھی ملک کے معاشرے کو شعور دینے کے لئے اساتذہ بہترین زریعہ ہوتے ہیں ، اساتذہ کی ہتھکڑیاں لگا کر تذلیل کرنا جہاں پاکستانی طالب علموں کے لئے غلط پیغام ہے اُسی طرح دُنیا بھر کے معاشروں کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ پاکستان میں استاد کا کیا درجہ ہے اور ہم کس طرح ایک ملزم اور استاد کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں ، ہمیں سمجھنا ہوگا کہ انصاف کے تقاضے یکساں ہوں تو ہی معاشرے ترقی کرتے ہیں اور اُس ترقی میں استاد ایک خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔