حج کے ناقص انتظامات وزیر اعظم عمران خان توجہ کریں

حج کے ناقص انتظامات وزیر اعظم عمران خان توجہ کریں
حج کے ناقص انتظامات وزیر اعظم عمران خان توجہ کریں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حج پرواز کی اڑان بھرتے ہی ہم عالم اسلام کے مقدس ترین مقامات مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے روح پرور نظاروں کے تصورات میں گم ہوگئے کہ ہمیں یہ سعادت میسر ہونے والی ہے کہ ہم دیار رب العزت خانہ کعبہ اور دیار محمدؐ مدینہ منورہ کی زیارت سے فیضیاب ہوں گے یہ لمحات انتہائی مسرور کن اور خوشگوار تھے کہ ہم خدا اور محبوب خدا ؐکی نگری کی زیارت کی سعادت حاصل کرنے والے ہیں۔

یوں تو ہم کئی بار فضائی سفر کرچکے ہیں جن کے دوران یورپ اور دیگر ممالک دیکھنے کا موقع ملا مگر سفر حجاز مقدس ان سب سے الگ منفرد اور ممتاز ممیز تھا جس کے دوران ایک پاکیزہ اور روحانی کیفیت طاری رہی اور یوں ہم نے انہی تصورات کے ساتھ سرزمین سعودی عرب پر قدم رکھا۔

وجہ تخلیق کائنات احمد مرسلؐکے منزہ ومطاہر مقام مدینہ منورہ میں کئی دن گزارے، مسجد نبویؐ میں سربسجود ہوئے دیگر زیارات کے فیض سے بہرہ ور ہوئے اور ان عبادات کے بعد اب وہ گھڑی آگئی جو حاصل سفر تھی اور ہم ذکر باری تعالیٰ کرتے ہوئے مکہ معظمہ پہنچے جہاں مناسک حج کی تکمیل مقصود تھی۔

مکہ شریف پہنچنے کے بعد جب بیت اللہ پر پہلی نظر پڑی تو عجیب طرح کی کیف و سرور سے لبریز ایک روحانی اور پاکیزہ کیفیت طاری ہوگئی جس نے دنیا وی سود وزیاں سے بے نیاز کر دیا اور بے اختیار اپنے خطاؤں پر ندامت کے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی اور شان کبریائی میں اس کے محبوب ؐ کا واسطہ دے کر معافی کے طلبگار ہوئے۔

یہ وہ لمحات تھے جہاں دنیا کی ہر شے ہیچ نظر آئی۔خانہ کعبہ میں عمرہ کی ادائیگی کی فرض نمازوں کے علاوہ نوافل ادا کئے اور پھر حج کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے مناسک حج جو پانچ دنوں پر محیط ہوتے ہیں اور 8ذوالحج سے 12ذوالحج تک جاری رہتے ہیں ان پانچ دنوں میں حجاج کرام منیٰ،عرفات اور مزدلفہ میں مناسک حج ادا کرتے ہیں لیکن بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستانی حجاج کرام نے یہ پانچ دن بڑی اذیت اور تکلیف سے گزارے اور پاکستانی حجاج مناسک حج سکون سے ادا نہیں کر سکے خصوصاً مکتب 81اور مکتب95کے حجاج کو اس دوران بڑی مشکلات درپیش رہیں کیونکہ حکومت پاکستان نے سعودی حکومت کے توسط سے جتنے بھی مکتب قائم کیے وہ غیر معیاری اورکم درجے کے اور دوردراز تھے اور اس پر طرہ یہ کہ انتظامات انتہائی ناقص تھے۔

جہاں تک مکتب 81کا تعلق ہے تو یہ ھانی عبدالرحمن امین موذن کا تھا جب ہم مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ پہنچے تو ہمیں جن کمروں میں رکھا گیا وہ بہت چھوٹے چھوٹے تھے جہاں چار سے چھ بیڈ لگے تھے علاوہ ازیں انتظامیہ نے حجاج کرام کی اکثریت کونہ تو کمپیوٹرائزڈ کارڈ فراہم کیے اور نہ ہی انہیں منیٰ ، مزدلفہ اورعرفات میں ٹرین کے سفر کے لیے پاس دیے۔

7ذوالحج کی رات کو معاونین حجاج کرام نے انہیں مکتب81کے آدمیوں کے حوالے کر دیا جو ہمیں منیٰ خیموں میں لے گئے جن کا سائز بہت چھوٹا تھا اور اوپر نیچے ڈبل بیڈ لگے ہوئے تھے جن کے باعث عمر رسیدہ خواتین اور مردوں کو اوپر چڑھنے میں بہت دشواری تھی اور ان بستروں کے درمیان گزرنے کا راستہ بھی نہیں تھا۔

چار چار بیڈ اکٹھے لگے ہوئے تھے یہاں تک کہ ایک خیمے میں جہاں 32بستروں کی گنجائش تھی وہاں 128بستر لگا دئیے گئے تھے خیموں میں ائر کنڈیشن اور کولروں کا بھی کوئی بندوبست نہیں تھا خوش قسمتی سے جس حاجی کا بستر کولر کے آگے یا قریب ہوتا بس اس کو ہوا آتی تھی باقی حاجی صاحبان گرمی میں تڑپتے اور بلکتے رہے اور اس پر مستزاد یہ کہ منیٰ میں دوران قیام ہمیں باسی کھانا دیا گیا جو انڈیا کا تھا اور کھانے کے قابل بھی نہیں تھا ۔ خیموں میں صفائی ستھرائی نام کی کوئی چیز نہیں تھی غسلخانے غلیظ اور گندے تھے وضو کرنے کی جگہ بھی گندی تھی اور وضو کرنے کا کوئی خاطر خواہ بندوبست نہیں تھا اور نماز کے لیے باہر تیز دھوپ میں چند قالین بچھائے گئے جہاں تقریباً چالیس آدمیوں کے نماز پڑھنے کی گنجائش تھی جبکہ حاجیوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔

علاوہ ازیں خواتین کے لئے نماز ادا کرنے کا کوئی انتظام نہیں تھا وہ نماز اپنے بستر پر ہی ادا کرتی رہیں۔ بعینہ ہی 8ذوالحج کو عرفات میں پھٹے ہوئے خیموں میں قالین پر رات گزارنا پڑی یہاں بھی کھانا باسی دیا گیا یہ بھی انڈیا کا تھا جو حاجیوں نے نہیں کھایا اور انہوں نے اپنے ساتھ لائے ہوئے چنے اور دیگر اشیاء کھا کا گزارہ کیا یا پھر باہر سے سبیل والا کھانا لاکر خود بھی کھایا اور اور اپنی فیملیوں کو بھی کھلایا ۔

اسی طرح 9ذوالحج کی رات مزدلفہ میں کھلے آسمان کے نیچے گزاری اورجگہ بھی اپنی مدد آپ کے تحت ڈھونڈی مزدلفہ میں کھانا تو دور کی بات ہے پانی تک نہیں دیا گیا اور کربلا کی یاد تازہ کرا دی۔ حاجیوں کی اکثریت نے بھوکے اور پیاسے سو کر گزاری 10ذوالحج کی صبح ناشتہ کئے بغیر تمام حجاج کرام یہاں بھی اپنی مدد آپ کے تحت ٹرین کے ذریعے منیٰ پہنچے ۔

رات کو پھر کھانا باسی دیا گیا اور حاجیوں نے نہیں کھایا اور احتجاج کیا۔ سکیٹر 5کے انچارج مسٹر شکیل اور ڈائریکٹر حج امتیاز شاہ سے شکایت کی گئی جنہوں نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا اور مسٹر شکیل نے کہا کہ میں کوشش کرکے کھانے کا معیار بہتر کراتا ہوں مگر 11ذوالحج کوپھر وہی لفافوں میں بند باسی کھانا دیا گیا جو زائد المعیاد تھا اور آخر کار حاجی صاحبان کی برداشت جواب دے گئی جو کہ تین دن سے بھوکے تھے کچھ نے ادھر ادھر کے خیموں میں جاکر باہر سے مانگ کر کھانا کھایا اور جب حج مشن کے حکام اور مکتب 81کے ذمہ داروں نے نہ ہماری جائز گزارشات پر عمل کیا اور نہ ہی ان کے ازلہ کی کوئی کوشش کی تو اذیت کے مارے حاجیوں نے خیموں سے نکل کر سڑک پردھرنا دیا جس کے دوران منیٰ کی پولیس سے مذاکرات ہوئے اور انہیں باسی کھانا دکھایا گیا تو انہوں نے تاسف کا اظہار کیا مکتب 81کے منتظمین کو شرم دلائی جس کے باعث 11ذوالحج کو تازہ بریانی بنا کر دی گئی جوتین چار دن سے کھانے پینے سے ترسے ہوئے حاجیوں نے کھائی منیٰ پولیس کے حکام نے کہا کہ مکتب 81کے خلاف کوئی بھی کارروائی پاکستانی سفارتخانہ یا حج مشن کے ڈائریکٹر جنرل کر سکتے ہیں ہم بے بس ہیں اور کچھ نہیں کر سکتے۔ منیٰ پولیس کا تازہ کھانا دلانا ہی حاجیوں کے لیے غنیمت تھا مکتب 81کے ذمہ داروں نے منیٰ سے مکہ مکرمہ واپسی کے لیے کوئی ٹرانسپورٹ بھی فراہم نہ کی۔

حاجیوں نے مغرب کی نماز سے پہلے منیٰ کو چھوڑنا تھا حاجیوں کی اکثریت رمی کرکے دن 11بجے سے ٹرانسپورٹ کا انتظار کرتی رہے اورتقریباً شام چھ بجے تک طویل انتظار کرنے کے بعد بھی انہیں ٹرانسپورٹ فراہم نے کی گئی تو حسب سابق حاجیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت نکلنا شروع کیا مکتب81کے ذمہ داروں کی اس سلسلے میں بہت منت سماجت کی گئی لیکن ان بے رحم لوگوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور انہوں نے ٹرانسپورٹ کا بندوبست نہ کیا اس طرح ضعیف ، بوڑھے اورخواتین نے پیدل چل کر اور کچھ نے منہ مانگے دام دیئے اور ٹیکسیوں کے ذریعے واپس مکہ مکرمہ پہنچے۔
یہ نہایت افسوسناک امر ہے کہ سرکاری خرچ پر عہدیدار آئے اور بہترین سہولیات میں حج ادا کیااور واپس چلے گئے لیکن انہوں نے حج کے دوران حاجیوں کو نہایت دقت آمیز اور تشویشناک حدتک درپیش مسائل پر کوئی توجہ نہ دی اور ان کے مسائل کو درخور اتناء نہ سمجھا اور یہ تمام مشکلات کسی ایک مقام پر نہیں بلکہ منیٰ ، عرفات اور مزدلفہ میں ہر مقام پر درپیش رہیں۔

اب ان تمام امور کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے سابق حکومت کویانگران حکومت کو بہرحال اب یہ موجودہ حکومت خصوصاً وزیر مذہبی امور نورا لحق قادری اور سیکرٹری وزارت مذہبی امور کی ذمہ داری ہے کہ وہ حاجیوں کو حج 2018میں پیش آنے والے ان مسائل کی اصلاح کریں تاکہ آئندہ حجاز مقدس کے سفر پر جانے پر حجاج کرام کو ان پریشان کن مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے اور وہ آسودگی سے فریضہ حج ادا کر سکیں اور یہاں یہ بھی مناسب ہوگا کہ وزیر اعظم عمران خان وزیر مذہبی امور اور وزارت مذہبی امور کے حکام کو سختی سے اس بات کا پابند کریں کہ وہ اصلاح احوال کر لیں اور یوں وزیر اعظم حاجیوں کی دعائیں لیں جن کے باعث نئے پاکستان کی مضبوط بنیادیں استوار ہوں گی اور اس خرابی کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم صادر فرمائیں۔

مزید :

رائے -کالم -