اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 58
میرے سامنے ایک بڑا خوب صورت مندر تھا جس کے دالانوں میں ہرن اور شیر کی کھال کے فرش جگہ جگہ بچھے تھے۔ صحن میں کونے کی طرف تالاب تھا۔ تالاب کے اوپر لکڑی کی چھت تھی۔ تالاب کا پانی ساکن تھا اور اس میں ایک بھی مچھلی نہیں تھی۔ مندر کے دالان میں سے گزرتا ہوا میں مندر کے سب سے بڑے ہال کمرے میں آگیا جہاں لوہان سلگ رہے تھے اور سامنے دیوار کے آگے سیاہ پتھر کے چبوترے پرسنگ سرخ سے ایک اژدہا کا بہت بڑا بت رکھا تھا جس نے کندلی ہوئی تھی۔ پھن اٹھا ہوا تھا اور آنکھوں میں دو سرخ یا قوت چمک رہے تھے۔
یہ شیش ناگ کا بت تھا۔ یہ بت اتنا بڑا تھا کہ اس کے چبوترے میں ایک دروازہ بنا ہوا تھا جو شاید سانپ کے بت کے اندر ہی اندر اس کے پھن تک جاتا تھا۔ دو خوب صورت دیوداسیاں شیش ناگ کے آگے جھکاتے ہوئے گزر گئیں۔ ان کے بالوں کے جوڑے سانپ کے پھن کی طرح بنے ہوئے تھے۔ پیشانیوں پر بھی سانپ کے پھن کی شکل کا سرخ ٹیکا لگا تھا۔ ایک پجاری زرد و موٹے لباس میں میرے قریب سے گزرا تو میں نے اس سے بڑے پروہت کے بارے میں پوچھا۔ اس نے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا اور خاموشی سے گزر گیا ۔ کونے میں دوستونوں کے درمیان ایک دروازہ تھا جس کے کواڑ بند تھے۔ یہ دروازہ سیاہ لکڑی کا تھا اور اس پر سانپ کی شکلیں کھدی ہوئی تھی۔ میں نے آہستہ سے دروازے پر دستک دی۔ ایک گول مٹکے جیسی توند ، موٹی گردن اور منڈے ہوئے سر والے اونچے لمبے آدمی نے دروازہ کھول کر اپنی مقناطیسی چمک والی نیم سرخ آنکھوں سے مجھے گھور کر دیکھا اور پوچھا کہ میں کون ہوں اور اس کے آرام میں مخل ہونے کے لئے وہاں کیوں آیا ہوں؟ میں نے موقعے کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے فوراً جیب سے سونے کے چار سکے نکال کر اسے پیش کئے اور کہا۔
’’ عظیم مندر کے پروہت اعظم کی خدمت میں ، میں یہ حقیر نذرانہ پیش کرتا ہوں۔ ‘‘
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 57پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سونے کے سکوں نے اس کی نیم سرخ آنکھوں کی چمک دو بالا کردی۔ اس نے سکے لے کر رکھ لئے اور مجھ سے پوچھا کہ میں کون ہوں اور کیا مقصد لے کر یہاں آیا ہوں میں نے اسے منت کے بارے میں من گھڑت کہانی بیان کی تو اس نے مجھے اندر بلالیا ۔ یہ ایک شاندار کوٹھری تھی جس میں آرام و آسائش کی ہر شے موجود تھی۔ آگ کی آنگیٹھی دہک رہی تھی۔ فضا نیم گرم تھی۔ کونے میں لکڑے کے شاندار پلنگ پر ریشمی لحاف والا بستر لگا تھا۔ دیواروں پر صندل کی لکڑی کو کھود کر بنائی گئیں شیش ناگ کی تصویریں لگی تھی، نجور سلگ رہے تھے۔ اس نے مجھے لکڑی کی ایک چوکی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود پلنگ پر ریشمی لحاف میں دھنس کر بیٹھ گیا او ربولا کہ میں ہی پروہت کپالا ہوں۔ پھر اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں کس قسم کی منت ماننا چاہتا ہوں۔ جب میں نے اسے بتایا کہ میں اپنی منت کے سلسلے مین چھ ماہ تک مندر میں قیام کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں تو اس کی سیاہ کالی بچھو ایسی بھویں اوپر کو چڑھ گئیں اور بولا کہ یہ ایک لمبی مدت ہے۔ اس کے لئے تمہیں سونے کے پچاس سکے پیشگی دینے پڑیں گے۔ میں نے کہا کہ میرے پاس سونے کا ایک بھی سکہ نہیں ہے لیکن یہاں سے تھوڑی دو نیچے ایک گاؤں میں میرا چچا رہتا ہے۔ میں آپ کو اس سے اپنے خاندانی ہار میں سے ایک ہیرا لا کر دے سکتا ہوں۔
ہیرے کا نام سن کر پروہت کپالا کی باچھیں کھل گئیں اس نے اپنا ایک ہاتھ بلند کرتے ہوئے کہا’’ شیش ناگ تمہاری منت پوری کرے گا لیکن یہ ہیرا تمہیں یہاں منت کی عبادت شروع کرنے سے پہلے لا کر مجھے دینا ہوگا تاکہ میں اسے شیش ناگ دیوتا کے حضور پیش کر کے اس کی اجازت طلب کر سکوں۔ ‘‘
میں سمجھ گیا کہ کمینہ بڑا لالچی ہے اور یونہی میری جان نہیں چھوڑے گا اور مجھے ہر حالت میں وہاں چھ ماہ بسر کرنے تھے۔ میں نے وعدہ کیا کہ رات کے پچھلے پہر میں گاؤں جاؤں گا اور صبح ہونے تک ہیرا لا کر اس کی خدمت میں پیش کروں گا۔ اس نے مجھے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ اگر میں صبح ہونے تک ہیرا نہ لایا تو مجھے مندر میں رہ کر عبادت کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ میں نے وعدہ کر لیا اور مندر سے واپس ہوا پہرے دار چکرا کو میں نے اس بارے میں کچھ نہ بتایا۔ مجھے بھلا کہاں جانا تھا۔ ہیرے کا ہار تو میری جیب میں رکھا تھا۔ میں مندر سے نکل کر چکھ دور نیچے چلا گیا اور پھر ایک پہاڑی کھو میں راہ گزارنے کے لئے چھپ گیا۔ میری جگہ کوئی عام انسان ہوتا تو اتنی شدید برفانی سردہ مین ٹھٹھر کر مر جاتا لیکن میں بڑے آرام سے غار کے پتھروں پر بیٹھا رہا۔ میں نے لکڑی کی دبی نکال کر ایک بار پھر اپنے دوست قنطور کی لاش کے ٹکڑوں کو دیکھا۔ وہ بالشت بھر کے سانپ کے دو ٹکڑے تھے۔ اوپر کے ڈھڑ والا ٹکڑا اب بالکل حرکت نہیں کرتا تھا مگر قنطور کی سرخ آنکھیں کھلی تھیں اور ان کی رنگت زرد پڑنے لگی تھی۔ مجھے اندیشہ لاحق ہوا اور میں اسے جتنی جلد ہوسکے شیش ناگ مندر کے تالاب میں رکھ دینا چاہتا تھا۔ چونکہ ڈبی لکڑی کی تھی اس لئے اس کا پانی کی سطح سے نیچے جانا ناممکن تھا۔ میں اس کے ساتھ پتھر کا ایک ٹکڑا باندھ کر اسے تالاب کی تہہ میں خود رکھنا چاہتا تھا۔
میں اس کام سے اگلی رات فارغ ہوجانا چاہتا تھا۔ خدا خدا کر کے رات ختم ہوئی۔ دن کی روشنی کیلاش پربت کی برفانی چوٹیوں پر پھیلی تو میں نے ہار میں سے ایک ہیرا توڑ کر الگ کر لیا اور واپس مندر کی طرف چل پڑا۔ مکار لالچی پروہت کپالا جیسے میرا انتظار ہی کر رہا تھا۔ میں نے اسے ہیرا دیا تو وہ اسے دیر تک الٹ پلٹ کر تکتا رہا۔ چہرہ خوشی سے کھل گیا تھا۔ صاف لگ رہا تھا کہ اسے ہیروں کی پہچان ہے اور وہ اس ہیرے کی قیمت سے خوب واقف ہے۔ اس نے ایک پجاری کو بلا کر مندر کے برآمدے میں ایک کوٹھری کھلوا دی اور مجھے شیش ناگ کے سامنے منت ماننے اور چھ ماہ تک وہاں رہ کر عبادت کرنے کی اجازت مل گئی۔
وہاں کی رسم کے مطابق میں غسل کر کے شیش ناگ کے آگے دوزانو ہو کر بیٹھ گیا منت ماننے والا اپنی منت کسی کو نہیں بتاتا تھا اور صرف دل میں اسے تین بار رہراتا تھا۔ میں نے دل میں کچھ بھی نہیں دہرایا ۔ بس قنطو رکے بارے میں ہی سوچتا رہا۔ دو دیواسیوں نے میرے گلے میں پھولوں کی مالائیں ڈالیں اور پجاریوں نے میرے ماتھے پر کیسر کا نشان لگایا۔ میں نے مندر کے ایک کونے میں بیٹھ کر عبادت شروع کردی۔ مجھے سرخ پتھروں کے منکوں کی ایک مالا دے دی گئی جس کا مجھے آدھی رات تک وہاں بیٹھ کر جاپ کرنا تھا۔ مجھے شیش ناگ کی عبادت اور مالا کے جاپ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ بس آدھی رات تک بیٹھا دل میں یونہی ادھر ادھر کی باتیں سوچتا رہا ۔ کبھی نیم وا آنکھوں سے دیوداسیوں اور پجاریوں کو ادھر ادھر چلتے پھرتے دیکھ لیتا اور پھر آنکھیں بند کر لیتا۔ اسی طرح جب آدھی رات گزر گئی تو میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور اٹھ کر شیش ناگ کی بت کی بادل نخواستہ تعظٰم بجا لاتا ہوا واپس اپنی کوٹھری میں آگیا ۔
میری کوٹھری جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں مندر کے ہال کمرے سے باہر برآمدے میں تھی جس کے آگے صحن کے کونے میں وہی تالاب تھا جس کی تہہ میں مجھے قنطور کی لاش والی لکڑی کی ڈبیا کو رکھنا تھا۔ یہ کام میں اسی رات کر دینا چاہتا تھا۔
میں نے اپنی کوٹھری میں آکر چراغ گل کر دیا اور ادھرادھر گزرنے والے پجاریوں کو یہ تاثر دیا کہ میں سوگیا ہوں۔ رات کا پچھلا پہر تھا۔ مندر میں ہر طرف گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ کسی طرف سے ہوا کی ہلکی سی سرگوشی بھی سنائی نہیں دے رہی تھی۔ مندرکے پجاری اور دیوداسیاں گہری نیند سورہی تھیں میں اپنے مشن کے لئے تیار ہوگیا۔ میں نے پہلے ہی سے پتھر کے دو ٹکڑے لکڑی کی ڈبی کے ساتھ رسی باندھ رکھے تھے۔ تھوڑا سا کواڑ کھول کر باہر جھانک کر دیکھا۔ مندر کا صحن خالی اور ویران ویران تھا۔ برآمدے کی کسی کوٹھری کے روشن دان میں روشنی نہیں تھی۔ میں کوٹھری سے باہر نکل آیا۔ ایک بار پھر دونوں طرف دیکھ کر تسلی کی۔ چونکہ میں اندھیرے میں بھی چیزوں کو دیکھ سکتا تھا اس لئے برآمدے کے اندھیرے کونوں پر بھی نگاہ ڈالی۔ کسی جگہ کوئی متنفس نہیں تھا۔ میں دبے پاؤں برآمدے میں سے ہوتا ہوا تالاب کی طرف چل پڑا۔ لکڑی کی ڈبیا جس میں سانپ قنطور کی لاش کے دونوں ٹکڑے رکھے تھے میرے ہاتھ میں تھی۔ سخت سردی میں تالاب کے اوپر کہر سا چھایا ہوا تھا۔ میں تالاب کے مشرقی کونے کی طرف آکر کنارے کے پتھروں پر اکڑوں بیٹھ گیا۔ میں نے جلدی سے ڈبیا کو تالاب کی سطح پر رکھ کر اس کا ڈھکن کھول کر اسے چھوڑ دیا۔ ڈبیا کے ساتھ بندھے ہوئے پتھر اسے پلک جھپکنے میں پانی کے اندر لے گئے۔
(جاری ہے ۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)