گوجرانوالہ جلسہ کامیاب ہوگیا تو...!

گوجرانوالہ جلسہ کامیاب ہوگیا تو...!
گوجرانوالہ جلسہ کامیاب ہوگیا تو...!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


چلئے فرض کر لیتے ہیں کہ نون لیگ کا گوجرانولہ کا جلسہ کامیاب ہو جائے کا اور حکومت لڑکھڑا جائے گی۔ ایسا ہوگیا توبلاشبہ نواز شریف کے ''ووٹ کو عزت دو'' کے بیانئے کی توقیر بڑھ جائے گی، پی ڈی ایم کی گھن گرج پرافشاں ہو جائیگی، مریم نواز کی لیڈرشپ نکھر جائے گی، عمران خان کا تبدیلی کا نعرہ مزید گہنا جائے گا، مہنگائی کے ستائے لوگ سکھ کا سانس لیں گے اور اگلے جلسے میں شرکت کے لئے پرعزم گھروں سے نکل آئیں گے،بلاول کے جوان کندھے کراچی جلسے کا بوجھ اٹھانے کو بے تاب ہوں گے، مولانا فضل الرحمٰن عوام مشترکہ اپوزیشن کے جم غفیر کو خطاب سے شانت ہو جائیں گے اور ان کی شکائتیں ہوا ہو جائیں گی، سیاسی تھڑوں پر ہونے والی گفتگو بدل جائے گی، ابھی تو اپوزیشن جماعتیں کہہ رہی ہیں لیکن پھر تھڑوں پر بیٹھے سیاسی تجزیہ کار کہنا شروع ہو جائیں گے کہ حکومت کی ہوا اکھڑ گئی ہے اور یوں ملک میں سیاسی تبدیلی کا عمل واقعی شروع ہو جائے گا کیونکہ تھڑوں کی زبان عام آدمی زیادہ بہترسمجھتا ہے۔ 


اسی طرح تعلیمی اداروں میں حکومت کے حامیوں اور مخالفین طلباء میں نئی بحثیں چھڑ جائیں گی، کوئی پی ٹی آئی کی مٹی رولے گا تو کوئی مریم نواز کی اسی طرح گت بنائے گا جس طرح بے نظیر بھٹو کی سیاست میں انٹری کے بعد ابتدا میں بنائی گئی تھی۔ادھر اسٹیبلشمنٹ ایک قدم اور پیچھے ہٹ جائے گی کیونکہ جس طرح پانی میں پتھر پھینکنے سے لہریں پیدا ہوتی ہیں اسی طرح اس جلسے سے ملکی صورت حال میں مدوجزر پیدا ہونا شروع ہو جائیں گے اور سٹیٹس کو کی قوتوں کو اپنی حکمت عملی ازسر نو تشکیل دینی پڑے گی۔ سٹاک مارکیٹ پہلے ہی ڈانواڈول نظر آرہی ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں طوفان علیحدہ سے برپا ہے اور اگر اپوزیشن کے جلسوں کی وجہ سے ٹریفک کا بہاؤ اگلے تین ماہ تک مختلف حصوں میں معطل ہوتا رہا تو ان قیمتوں کو مزید آگ لگ جائے گی۔ 


تاہم اگر جلسہ ناکام ہوگیا اور محض ایک جلسی ثابت ہوا تو نواز شریف کے بیانئے کا جنازہ نکل جائے گا کیونکہ پانی میں پھینکے گئے ہلکے پتھر سے ہلکا ارتعاش تو پیدا ہو سکتا ہے مگر کوئی بڑا طوفان برپا نہیں ہوسکتا، دوسرے لفظوں میں گوجرانوالہ کے ناکام جلسے سے ملکی نظام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جب تک کہ وہ جلسہ ایک پہاڑ کی طرح جھیل میں گر کر جھیل سے پانی کو اچھال کر باہر نہ پھینک دے۔ 
ایسا لگتا ہے کہ گوجرانوالہ جلسے کی تمام تر کامیابی کا دارومدار نون لیگ کے کارکنوں کی کارکردگی پر ہوگا کیونکہ ابھی تک مولانا فضل الرحمن کا گوجرانوالہ میں ایک بھی کارکن گرفتار نہیں ہوا ہے اور جہاں تک بلاول بھٹو کی پیپلز پارٹی کا تعلق ہے تو اگر اس کے کارکن گرفتار ہو رہے ہیں تو وہ لالہ موسیٰ اور منڈی بہاؤالدین کے علاقوں میں ہو رہے ہیں جبکہ گوجرانوالہ پولیس کی ساری تگ و دو  نون لیگ کے کارکنوں کو پکڑ پکڑ کر تھانوں میں بند کرنے کے لئے ہے۔ اب اگر نون لیگ کے کارکن اسی طرح سے پابند سلاسل کردیئے گئے یا اٹھالئے گئے، جس طرح 2018ء کے انتخابات سے قبل گوالمنڈی اور دیگر علاقوں میں دیکھنے اور سننے کو ملا تھا تو اس جلسے کا نتیجہ بھی وہی ہوگا جو 2018ء کے انتخابات کا ہوا تھا۔ البتہ ابھی تک نون لیگ کے خلاف کوئی خفیہ ہاتھ حرکت میں نظر نہیں آرہا اور لگتا ہے کہ جملہ ذمہ داریاں پاکستان تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کے نازک کندھوں پر ڈال دی گئی ہیں، گویا کہ گھوڑا بھی سامنے ہے اور میدان بھی!....پی ٹی آئی کو اپنی انتظامی صلاحیتوں کو آزمانے کا بھرپور موقع مل رہا ہے مگر ایک ذرا سی غلطی اس کو قعر مذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں لے جائے گی۔  


یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ تاحال نون لیگ کے جلسے کی ویسی کوریج نہیں ہو رہی ہے جیسی پی ٹی آئی کی کارنر میٹنگوں تک کی ہوتی تھی، میڈیا پر ایک طرف پیمرا کی تلوار لٹکی ہوئی ہے تو دوسری جانب میڈیا میں بیٹھے ہوئے کئی تبدیلی کے داعی ازخود بھی پیمرا کی آڑ میں نہ صرف گوجرانوالہ جلسے کا بائیکاٹ کئے ہوئے ہیں بلکہ جہاں تک ممکن ہے اپوزیشن قیادت کی گت بنانے میں مصروف ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مہنگائی کے ہاتھوں عوام کا کچومر نکل جانے کے باوجود میڈیا تاحال حکومت کے ساتھ کھڑا ہے، وہ زمانے لد گئے جب کسی بھی اخبار یا ٹی وی کی کامیابی کا معیار حکومت وقت کی مخالفت میں ہوتا تھا۔ چنانچہ نون لیگ کچھ بھی کہے، میڈیا کے محاذ پر اسے ابھی تک وہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے جو ایک کامیاب جلسے کے لئے ضروری ہوتی ہے کیونکہ فی زمانہ خالی لوگ اکٹھے کرلینے سے ہی بات نہیں بنتی، اس کے لئے جمع شدہ لوگوں کو دکھانا بھی پڑتا ہے۔


اسی طرح عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب مختلف الخیال پارٹیاں کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوتی ہیں تو ان کے کارکن جوش و خروش کا مظاہرہ تب تک کرتے ہیں جب تک کہ ان کا لیڈر تقریر نہیں فرمالیتا، جونہی اس کی تقریر ختم ہوتی ہے کارکن جھنڈے اور کان لپیٹ کر جلسے سے نکل جاتے ہیں اور یوں جلسہ ٹوٹ جانے کا تاثر بڑھ جاتا ہے۔ اگر گوجرانوالہ کے جلسے میں یہی کچھ ہوا تو نواز شریف کے ساتھ ساتھ مریم نواز کی سیاست کا جنازہ بھی نکل سکتا ہے!


آج کے جلسے کے حوالے سے یہ تمام چیلنجز بلاشبہ نون لیگ کے لئے سوہان روح سے کم نہ ہوں گے لیکن اگر نون لیگ اور پی ڈی ایم کی حلیف جماعتوں نے ان خامیوں پر قابو پالیا تو گوجرانوالہ کا جلسہ تاریخی جلسہ قرار پائے گا اور جس طرح بے نظیر بھٹو کی سیاست میں انٹری کے حوالے سے 1986ء کے استقبال اور جلسے کو بطور سند پیش کیا جاتا ہے اسی طرح مریم نواز کی سیاست میں انٹری کے حوالے سے 2020ء کے گوجرانوالہ جلسے کو بطور حوالہ پیش کیا جایا کرے گا۔ تاہم دیکھئے کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک!

مزید :

رائے -کالم -