لیاقت علی خاں اور اکتوبر کا مہینہ
پاکستان جمہوری تحریک نے ملک میں حقیقی جمہوریت کے لئے تحریک کے آغاز کے سلسلے میں پہلا جلسہ منعقد کرنے کے لئے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خاں کے یوم شہادت 16 اکتوبر کو منتخب کیا ہے جو اس لحاظ سے ایک قابل تعریف فیصلہ ہے کہ موجودہ حالات میں حزب اختلاف کی طرف سے شہید ملت کو خراج عقیدت پیش کرنے کا اس سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان ایک جمہوری عمل کے ذریعے وجود میں آیا تھا۔البتہ یہ احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ جمہوری عمل کے ذریعے پاکستان کا قیام کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ امریکی مورخ سٹین لے ولپرٹ نے قاند اعظم محمد علی جناح کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا ہے: ”بہت کم لوگ ہوں گے جنہوں نے تاریخ کا دھارانمایاں طور پر موڑا ہو،ان سے بھی کم ہوں گے جو دنیا کے نقشے میں تبدیلی لائے ہوں اور شاید ہی کوئی ہوگا، جس نے ایک قوم اور ریاست تشکیل دی ہو“قائداعظمؒ نے یہ تینوں کام کئے۔غیر معمولی طور پر وجود میں آنے والی اس ریاست کو سنبھالنا اور چلانا بھی کوئی آسان کام نہیں تھا۔ریاست کو درپیش پہاڑ جیسے اندرونی اوربیرونی مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے اسے متحد اور یکجا رکھنے کے لئے ذمہ داریاں قائداعظم نے بطور گورنر جنرل خود سنبھال لیں اور بطور وزیراعظم حکومت کی سربراہی اپنے معتمد رفیق کار لیاقت علی خاں کے سپرد کردی۔لیاقت علی خاں کو انہوں نے ہندوستان میں بننے والی عبوری حکومت میں بھی مسلم لیگ کی جانب سے بطور وزیر خزانہ نامزد کیا تھا۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد ان کی سر پرستی سے محروم ہوجانے کے نتیجے میں لیاقت علی خاں کا کام اور بھی مشکل ہوگیا تھا۔نو زائیدہ ملک میں انہیں جن مسائل کا سامنا تھا اس کا اندازہ دشمن کے تخمینوں سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔
لیاقت علی خاں نے انتہائی تدبر اور دانشمندی سے حالات کا مقابلہ کیا اور پاکستان رفتہ رفتہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونا شروع ہو گیا۔لیاقت علی خاں نے دیگر مسائل پر تو قابو پالیا،لیکن اندرونی دشمنوں سے ہار گئے، جنہوں نے انہیں وزاتِ عظمیٰ کے پانچ سال پورے کرنے سے قبل ہی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ملک کے وزیر اعظم کو پانچ سال پورے نہ کرنے دینے کی ریت یہیں سے شروع ہوئی۔ ان کی جگہ خواجہ ناظم الدین نے بطور وزیر اعظم ذمہ داریاں سنبھالیں اور اپنی جگہ ملک غلام محمد کو گورنر جنرل مقرر کردیا جو اس وقت وزیرخزانہ تھے۔ بے پناہ طاقت کے حامل ملک کی اس اعلیٰ ترین مسند تک،(جس پر بیٹھ کر حکومتوں اور اسمبلیوں کو توڑا اور جوڑا جا سکتا تھا)، خود کو تاج برطانیہ کا نامزد اور نمک خوار سمجھنے والے ایک بیوروکریٹ کی رسائی ایک ایسا موڑ تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہیں سے ملک میں جمہوریت کی تباہی اور بربادی کا دور شروع ہوا۔ ملک غلام محمد نے، جن کا تعلق لاہور سے تھا اور جو کراچی کے گورا قبرستان میں ابدی نیند سو رہے ہیں، اگرچہ بطور گورنر جنرل جمہوریت کا بیڑہ غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، لیکن اپنی ذات کی حد تک وہ قسمت کے دھنی تھے۔
علی گڑھ یونیورسٹی سے اکاؤنٹس میں بی اے کرکے وہ انڈین سول سروس میں بھرتی ہو گئے۔ ان کی پہلی پوسٹنگ ریلوے میں اکاؤنٹ کے شعبے میں ہوئی، جہاں سے ترقی کرتے کرتے وہ اونچے عہدوں تک پہنچے۔ انہوں نے نظام حیدرآباد اور نواب بہاولپور کے مالیاتی مشیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں اورانہی روابط کی بنا پر ان کا لیاقت علی خان سے رابطہ ہوا،جنہوں نے ہندوستان میں عبوری حکومت کے وزیر خزانہ کے طور پرانہیں اپنا معاون رکھ لیا اور جب وہ پاکستان کے وزیراعظم بنے تو انہیں وزیر خزانہ لگا دیا۔ملک غلام محمد گورنر جنرل کے عہدے پر خواجہ ناظم الدین کی وساطت سے پہنچے تھے، جس کا احسان انہوں نے ایسے اتارا کہ دو سال بعد برٹش انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت حاصل اختیارت کو استعمال کرتے ہوئے خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو بر طرف کرکے ان کی جگہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرہ کو وزیر اعظم لگا دیا۔اس کے بعد اگلے سال جب آئین ساز اسمبلی نے آئین سازی کا کام مکمل کرلیاتھا اور برٹش انڈیا ایکٹ میں ترمیم کرکے گورنر جنرل کے اختیارت میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کی تھی تو اس اسمبلی کو ہی تحلیل کر دیا۔یہ واقعہ 24 اکتوبر 1953ء کو پیش آیا۔ وزیر اعظم بوگرہ کی حکومت کو بھی ختم کر کے دوبارہ حکومت بنانے کی دعوت دی گئی جو غیر سیاسی وزیروں پر مشتمل تھی۔ اسمبلی توڑنے کے فیصلے کو اسمبلی کے سربراہ مولوی تمیز الدین نے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا، جس پرجسٹس جارج نے اسے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسمبلی بحال کردی۔ اس موقع سپریم کورٹ گورنر جنرل کے کام آئی، جس کے جسٹس منیر نے پانچ میں سے چار ججوں کی اکثریت کے ساتھ سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کو تکنیکی بنیادوں پر رد کر دیا۔اس فیصلے سے بھی ایک جج جسٹس اے آر کارنیلیس نے اختلاف کیا اور آئین ساز اسمبلی کو قانون ساز ادارے کی حیثیت سے اعلیٰ ترین حیثیت کا حامل قراردیا۔
یہ محض اتفاق تھا کہ ملک غلام محمد نے آئین ساز اسمبلی پر فالج گرایا تو خودان پر بھی فالج گر گیا۔ وہ علاج کے لئے لندن گئے تواپنے ہم قبیلہ سکندر مرزا کو، جو برطانوی فوج اور سول سروس میں رہے تھے اور پاکستان بننے پر سیکرٹری دفاع کے عہدے سے ترقی کرتے ہوئے وزیر داخلہ کے منصب تک پہنچ گئے تھے، اپنی جگہ گورنر جنرل مقرر کرگئے۔سکندر مرزا نے جمہوریت کی بربادی کے لئے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ انہوں نے دوسری آئین ساز اسمبلی کو جو آئین تیار کرچکی تھی، کالعدم قرار دے کر 7 اکتوبر 1958ء کو جنرل محمد ایوب خاں کی مدد سے مارشل لاء نافذ کردیا، جس کا نفاذ خود ان پر اس طرح ہوا کہ 27 اکتوبر کو انہیں بھی بوریا بستر سمیٹ کر فرار ہونا پڑا اور ملک پر اسٹبلشمنٹ کی براہ راست حکمرانی کا آغاز ہوگیا، جس کے لیے عدلیہ کے افسوسناک کردار کا پہلا باب جسٹس منیر پہلے ہی تحریر کرچکے تھے۔ عجب اتفاق ہے کہ ملک میں جمہوریت کو تاخت و تاراج کرنے کے چیدہ چیدہ واقعات اکتوبر میں ہی پیش آئے، جن میں 12 اکتوبر 1999ء کو وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کا واقعہ بھی شامل ہے۔اس پس منظرمیں اکتوبر کوپاکستان میں جمہوریت کے لئے نحوست کا مہینہ بھی کہا جا سکتا ہے۔اس لحاظ سے یہ خوش آئند بات ہے کہ رد نحوست کی تحریک کا آغاز بھی اکتوبر میں ہی ہورہا ہے، جس کی کامیابی سے امید کی جاسکتی ہے کہ جمہوری ماحول کے لئے مزید کامیابیاں جنم لیں گی۔