سفرِ ناتمام (2)
لاہور آیا تو نئے سرے سے حیات نو کا آغاز کیا۔ جو ریت روایت اپنے والد صاحب سے سیکھی وہی تو زاد ِراہ تھا‘ ورثہ تھا میرا۔ یہی اثاثے میرے کام آئے۔ شاعر بے بدل منیر نیازی کہا کرتے تھے لاہور کسی ایرے غیرے کو نہیں مانتا لیکن اگر کوئی اس کا دل جیت لے تو پھر یہ شہر اسے اپنے من میں بسا لیتا ہے اور کسی محبوب کی طرح چاہتا ہے۔
وہ بہت مشکل وقت تھا جب میں لاہور آیا۔ یہاں ڈاکٹر یوسف نے میرے کندھے کے ساتھ کندھا ملایا۔ بہت ساتھ نبھایا اور پھر میرے جیسا انسان کہ جس کے جینز میں ہی ظالموں کو للکارنا ہو‘ اسکی للکار میں چھوٹے بڑے شہر کی تفریق کہاں ہوتی ہے۔ وہ تو اپنے ہدف پہ وار کرتا ہے۔ وہ اپنے ٹارگٹ سے پسپائی اختیار نہیں کرتا۔ بلاخوف و خطر اس کی پیش قدمی جاری رہتی ہے۔
میں نے بے سروسامانی کے باوجود یہاں کے مگرمچھوں کو چھیڑا۔ لڑائی جھگڑے مول لئے۔ پولیس کے پرچے بھی راہ سے ہٹا نہ سکے۔ نہ عدالتوں کے پھیرے ڈگمگا سکے۔ میں نے جن بالا دستوں سے ماتھا لگایا‘ جن سے لڑا وہ کوئی اچھے یا نیک نام نہیں تھے۔ دل کے میلے تھے‘ ان کے رابطے بڑے تھے‘ ضابطے کڑے تھے۔ گٹھ جوڑ کے نظام میں سبھی کچھ ان کے تابع تھا۔ سسٹم ان کا رکھیل تھا۔ نوکر شاہی ان کی وفادار تھی۔ تگڑے بدمعاش ان کے دست و بازو تھے۔ میں پھر بھی نہیں گھبرایا کیونکہ میری طاقت میری سچائی تھی۔ میں حوصلہ مند رہا کہ میں نے ظالموں سے ٹکر لی ہے۔ مظلوموں کی دعائیں میرے ساتھ ہیں۔ غریبوں کی حمایت میری جھولی میں ہے۔ مجھے یقین تھا رب تعالیٰ مجھے ہارنے نہیں دے گا۔ پھر ہوا یوں‘ اُس سوہنے پروردگار نے میرا مان رکھا۔ باوجود اس کے میں نہتا اور بظاہر کمزور تھا۔ اکیلا ہونے کے باوجود مجھے سرنگوں نہیں ہونے دیا۔ مجھے عزت سے نوازا۔
اب یہ وقت ہے‘ لاہور مجھے جانتا ہے اور میں لاہور کو پہچانتا ہوں۔ اس کی نبض پر انگلیاں ہیں میری۔ اس زندہ دل شہر سے مجھے بڑی محبت ہے۔ اس سے بڑھ کر محبت کیا ہو سکتی ہے۔ میں نے اپنی متاع حیات‘ اپنی جنت‘ اپنی ماں کو اس شہر کی مٹی کے حوالے کیا۔ میری سب سے قیمتی شے‘ میری ماں اسی شہر کی مٹی میں آسودہئ خاک ہے۔ اس شہر نے مجھے جتنا آزمایا اس سے بڑھ کر نوازا بھی۔
لیکن دوستو‘ سچی بات تو یہ ہے کہ جو عشق احمد نگر چٹھہ سے ہے لاہور شہر کے احسانوں اور محبتوں نے بھی اس کا رنگ پھیکا نہیں ہونے دیا۔ آج بھی دل کی دھڑکنیں وہیں پر ہیں اور وہ دل جو اپنے ساتھ یہاں لے آیا تھا اس میں پورا احمد نگر آباد تھا جو آج بھی زندہ ہے۔ وہ جیتا بھی رہے گا‘ دم نہیں دے گا۔ اپنے گاؤں کی گلیاں‘ چوک چوراہے آج بھی میرے اندر آباد ہیں۔ وہ شجر سایہ دار آج بھی تنومند ہیں جن کی ٹھنڈی چھاؤں کبھی نہیں بھولا۔ بھول بھی کیسے سکتا ہوں۔ بھلا احمد نگر بھی بھولنے والی کوئی چیز ہے؟ اپنی مٹی کی خوشبو سے بھی کبھی بے وفائی ہوتی ہے؟
پچھلے دنوں جب والد صاحب کے برخوردار حفیظ اللہ منہاس اور ان کے ساتھیوں نے وہاں ان کی برسی کا اہتمام کیا تو مجھے بھی آنے کا بلاوا بھیجا۔ جب سندیس ملا تو میں اپنے دوستوں اور اپنے برخورداروں سمیت وہاں جانے کے لئے لاہور سے چل پڑا۔سچی بات تو یہ ہے جب لاہور سے چلا تو بالکل جذباتی نہیں تھا لیکن جونہی احمد نگر کی حدود میں داخل ہوا توجیسے اشکوں نے بھگو دیا۔ یوں لگا کہ جیسے سڑک کنارے لگے درخت‘ پودے اور پھول مجھے خوش آمدید کہتے ہوئے پوچھ رہے ہوں کہ کیسے ہو جوان؟ کیا بات ہے‘ گاؤں کی محبت پھیکی پڑ گئی؟ بہت دنوں کے بعد پھیرا ڈالا۔
ہر دیس کی اپنی اپنی بولی
صحرا کی چپ بھی صدا ہے
میں اپنے گاؤں کے گھنے درختوں کی خاموشی کی زبان سن کر چپ بیٹھا تھا۔ میری آنکھوں کی نمی اپنے آپ سے محو کلام تھی۔ اس شہر کے اک اک ذرے میں آج بھی بیتے سمے کے ہر ایک پل کی خوشبو رچی تھی۔
وقت کے پلوں کے تلے سے جانے کتنا پانی گزر چکا تھا۔ کچے راستے ضرور تارکول کے پیکر میں ڈھلے تھے۔ کھیتوں کھلیانوں کی جگہ کنکریٹ کی ایک نئی دنیا آباد ہو چکی تھی لیکن چاہتوں کی مہک مدھم نہ ہو سکی بلکہ اور بھی جنوں خیز تھی اور میرا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا تھا۔
حفیظ اللہ منہاس اور ان کے ساتھیوں نے محدود وسائل کے باوجود نہایت شاندار اور پروقار تقریب منعقد کی۔ احمد نگر چٹھہ کے باسیوں نے محبتوں کے ترازو میں یوں تولا کہ ثابت کر دیا اس مٹی کے لوگ اپنے سر پر کوئی قرض رہنے نہیں دیتے۔تقریب سے فارغ ہوئے تو چودھری طارق ڈھلو اپنے ساتھ لے گیا۔ ادھر انکار‘ ادھر اصرار‘ نہ نہ کرتے بھی اس نے میری اور ساتھیوں کی خدمت میں کمی نہ چھوڑی‘ کوئی کسر نہیں رہنے دی۔ سیٹھ احسان وہیں سے ہمیں اغوا کر کے اپنے ڈیرے پر لے گیا۔ اس نے صرف یہی بات مانی کہ وہاں ماسوائے چائے کے‘ کچھ اور نہ ہوگا۔ لیکن دستر خوان پر بیٹھے تو یوں لگا‘ جیسے اِس ملوانے نے فرشتوں سے سازباز کر کے بہشت حسیں کے باورچی خانے میں سیندھ لگا دی ہے۔ کونسی ایسی نعمت تھی جو روبرو نہ تھی۔ سب سے قیمتی شے تو وہ سنگت تھی جو نصیب میں لکھی گئی۔ بچپن سے جوانی تک کے وہی ساتھی دوست احباب وہاں پہ تھے جو اچھے برے حالات میں کندھے سے کندھا ملا کر میرے ساتھ رہے۔ رفاقتوں کی سانجھ نبھاتے رہے۔ ہر قدم پہ ساتھ رہے۔ کبھی احساس نہیں ہونے دیا کہ میں اکیلا ہوں۔ یہی محسوس ہوتا رہا‘ ہجوم دوستاں ہم رکاب ہے۔ چاہوں تو وقت کی طنابیں کھینچ لوں۔ وہ قلعے سر کر لوں جو ناقابل تسخیر ہیں۔
وقت جیسے تھم سا گیا تھا۔ پرانی یادوں کی آغوش میں یوں کھوئے کہ سدھ بدھ نہ رہی۔ ان دوستوں کو یاد کرتے رہے جو آج ہمارے ساتھ نہیں تھے۔ دل کرتا تھا‘ اس محفل کا اختتام نہ ہو۔ چاہتوں کے رفاقتوں کے اس سفر کا انجام نہ ہو۔ صبح عاشقی میں شام نہ ہو۔باتوں کے سلسلے کا حساب نہ ہو۔ جدائی کا نصاب نہ ہو۔ یونہی بیٹھے رہیں‘ لمحوں کا شمار نہ ہو۔ یونہی بیٹھے دل کی باتیں کرتے رہیں۔ دکھ سکھ کی روئی دھنکتے رہیں۔ یادوں کے دشت میں بھٹکتے رہیں۔ واپسی پہ اختیار نہ ہو۔ جدائی پہ اعتبار نہ ہو۔ وقت باندھ کر ایک طرف کر دیں۔ لوٹ کر جانے کا ملال نہ ہو۔ بچھڑنے کا خیال نہ ہو۔ خدا کرے کسی سے پیار نہ ہو۔
لیکن وہ کیا کہ سبھی اختیار تو اوپر والے نے انسان کو نہیں دیے۔ ملاپ کے بعد جدائی مار دیتی ہے۔ بار دیتی ہے‘ دور ہونے کی سار دیتی ہے۔
وقت مشکل تھا‘ نہ چاہتے ہوئے بھی‘ لوٹ کر جانے کی اجازت لینی پڑی۔ دکھ بھری تھی وہ گھڑی۔ اک کوہ گراں تھا‘ اٹھانا پڑا۔ لوٹ کے آنا پڑا۔ یوں لگا کہ جیسے ایک بار پھر وہی ہجرت ہے‘ مسافرت ہے۔ دل گرفتہ تھا۔ شاید پھر کبھی لوٹ کے آ نہ سکوں۔ خود کو پا نہ سکوں۔ جن صعوبتوں سے گزرتا ہوں وہ زخم کبھی دکھا نہ سکوں۔
پھر ہوا یوں بھی‘ لوٹ کے آنا پڑا۔ ساتھیوں سے بچھڑنا پڑا۔ پھر وہی لمحہ جاں گسل سامنے۔ وقت رخصت بھی رونا پڑا۔ رفاقتیں کھونا پڑیں۔
لگا یوں کہ جیسے ایک بار پھر سے دھڑکنیں احمد نگر چٹھہ میں چھوڑنی پڑیں۔ لگامیں موڑنی پڑیں۔ دل کی خالی رحل لیے لاہور کی جانب چل پڑا‘ وقت کڑا‘ پھر وہی لاہور سامنے جو میرا محسن ہے لیکن پہلی محبت تو نہیں۔
ہم سے اپنے گاؤں کی مٹی کے گھر چھینے گئے
جس طرح شہری پرندوں سے شجر چھینے گئے
(ختم شد)