پنجاب پولیس گروپ بندی کا شکار

سابق سی سی پی لاہور مرحوم عمر شیخ اور ایک سابق آئی جی پولیس کے درمیان تنازعہ کے پیش نظر اس وقت پنجاب پولیس گروپ بندی کا شکار ہو گئی تھی اور پولیس افسران نے اجلاس میں شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ مرحوم عمر شیخ کے خلاف155 جی کے تحت قانونی اور انضباطی کاروائی کرتے ہوئے عہدے سے ہٹایا جائے کیونکہ انہوں نے ماتحتوں کو ائی جی پولیس کا حکم نہ ماننے کا حکم دیا تھا اور کہا گیا اسی طرح لاہور میں ان کا بھی کوئی ماتحت حکم نہ مانے اور نہ ہی انہیں آئی جی آفس میں ہونے والے اجلاسوں میں شریک ہونے دیا جائے اس اجلاس میں بھی جب عمر شیخ نے شرکت کرنے کی کوشش کی تو وہاں پر موجود افسران نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ فوری طور پر کمیٹی روم سے چلے جائیں مرحوم عمرشیخ کو مجبورا وہاں سے جانا پڑا۔ایک اور سابق آئی جی پولیس کی جب تعیناتی عمل میں لائی گئی تو پنجاب میں تعینات سینیئر افسران طارق مسعود یاسین سمیت تین افسران نے ان کے ماتحت کام کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا مرحوم عمر شیخ تنازعہ کے دوران اس وقت کی ائی جی پولیس کو گھر جانا پڑا جبکہ ایک دیگر سابق آئی جی پولیس کی مرضی کی مشاورت کے بغیر ایک خاتون آفیسر کی لاہور میں تعیناتی کردی گئی۔ اس وقت سے آج تک پنجاب پولیس تناذعات کا شکار چلی آرہی ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آئی جی پولیس کو با اختیار نہیں بنایا گیاجس سے یہ ادارہ کمزور اور عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں ناکام رہا اس میں کو ئی شک نہیں کہ موجودہ آئی جی پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے اس ادارے میں پائی جانے والی بہت سی خرابیوں کا خاتمہ کر کے اس کی سر بلندی کے لیے بہت کام کیا ہے۔لیکن پنجاب پولیس کے سارے افسران ان سے بھی خوش نہیں ہیں اور انہیں تبدیل کروانے کے لیے سازشیں کی جا رہی ہیں دیکھنے میں آیا ہے کہ ڈی پی او شیخوپورہ آئی جی پولیس کی نسبت ایک مقامی اور سابق ایم این اے کوزیادہ اہمیت دیتے ہیں مقامی افسران کا الزام ہے کہ وہ کمانڈر کی نارا ضگی تو لے سکتے ہیں مگر سیاسی شخصیت کو ناراض نہیں کرسکتے۔ اسی طرح راولپنڈی، سیالکوٹ ،بہاولپور اور وہاڑی اضلاع کے پولیس سربراہان پر بھی یہ الزام ہے کہ کمانڈرانہیں تبدیل کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ سابق سی پی او فیصل آباد عثمان اکرم گوندل کے تبدیل ہونے، جبکہ ڈی آئی جی ڈاکٹر معین مسعود اور عبدالغفار قیصرانی کی پنجاب سے بلوچستان روانگی پر ادارے میں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ یہ تبادلے کمزور کمانڈنگ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ دوسری جانب موجودہ آئی جی پولیس پنجاب پر الزام ہے کہ وہ جرائم کی شرح کو کنٹررول کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں انہوں نے صوبہ بھر کی پولیس کو سوشل میڈیا پر لگا دیا ہے۔ جبکہ آئی جی پولیس کا موقف ہے کہ انہوں نے افسران کو سوشل میڈیا کے ساتھ جرائم کی شرح کو بھی کنٹرول کرنے کی ہدایت دے رکھی ہے۔1992ئ_ میں راولپنڈی میں پولیس کا عالمی سطح کا ایک سیمینار ہوا تھا جس میں شرکت کیلئے بیرون ملک سے بے شمار پولیس افسران پاکستان آئے۔
ان افسران میں جاپان کا پولیس چیف بھی شامل تھا سیمینار کے بعد ڈنر تھا۔ ڈنر میں راولپنڈی کے ڈی آئی جی اور جاپان کے چیف ایک میز پر بیٹھ گئے۔ دونوں نے گفتگو شروع کردی، گفتگو کے دوران ڈی آئی جی نے جاپانی چیف سے پوچھا آپ لوگوں پرکبھی سیاسی دباو ¿ نہیں آتا؟جاپانی چیف نے تھوڑی دیر سوچا اور اس کے بعد جواب دیا صرف 1963ئ_ میں ایک بار آیا تھا، ڈی آئی جی صاحب ہمہ تن گوش ہوگئے۔ چیف نے بتایا کہ 1963 میں برطانیہ کے وزیر خارجہ جاپان کے دورے پر آئے تھے وہ ایک دن کیلئے اوسا شہر چلے گئے۔ دوسرے دن ان کی جاپانی وزیراعظم کے ساتھ ملاقات تھی۔ انہو ں نے اوسا سے سیدھا پرائم منسٹر ہاو ¿س آنا تھا راستے میں ٹریفک جام ہوگئی، ان کے ساتھ موجود پروٹوکول افسران نے ہمارے پولیس چیف سے رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ پولیس کسی خصوصی بندوبست کے ذریعے انہیں ٹوکیو پہنچا دے۔ پروٹوکول افسروں کا کہنا تھاکہ برطانوی وزیرخارجہ کی وزیراعظم سے ملاقات بہت ضروری ہے۔ اگر وہ انہیں وقت پر نہیں ملتے تو یہ ملاقات ملتوی ہو جائے گی کیونکہ ایک گھنٹے کے بعد وزیراعظم چین کے دورے پر روانہ ہو جائیں گے۔ پولیس چیف نے ان کی بات سن کر معذرت کرلی اس کے بعد وزیراعظم نے بذات خود پولیس چیف سے درخواست کی، لیکن پولیس چیف کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس وی آئی پی کو ٹریفک سے نکالنے کا کوئی بندوست نہیں ہے یہ ملاقات منسوخ ہوگئی۔ اس ملاقات کے منسوخ ہونے کی وجہ سے جاپان اوربرطانیہ کے تعلقات میں شدید کشیدگی پیدا ہوگئی۔ جاپان کے پولیس چیف خاموش ہوگئے۔ہمارے ڈی آئی جی نے شدت جذبات سے پہلو بدلہ اوران سے پوچھا کہ اس کے بعد کیا ہوا؟ پولیس چیف مسکرائے اور کہا اس کے بعد کیا ہونا تھا یہ خبر اخبارات میں شائع ہوگئی۔ لوگوں نے وزیراعظم کے رویئے پرشدید احتجاج کیا، وزیراعظم کو قوم اور پولیس دونوں سے معافی مانگا پڑی۔ ہمارے ڈی آئی جی کیلئے یہ انوکھی بات تھی چنانچہ انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ اگر پولیس کے انکار سے وزیراعظم برا مان جائے اور دونوں کے درمیان لڑائی شروع ہو جاتی تو اس کا نتیجہ کیا نکلتا؟ پولیس چیف نے تھوڑی دیر سوچا پھر اس کے بعد مسکرا کر بولا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارا وزیراعظم کبھی پولیس چیف کے ساتھ لڑائی نہ کرتا لیکن بالفرض اگر دونوں میں جنگ چڑھ جاتی تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ وزیراعظم کو استعفی دینا پڑ جاتا۔ ہمارے ڈی آئی جی صاحب کا رنگ پیلا پڑ گیا اور انہوںنے حیرت سے پوچھا کہ کیاجاپان میں پولیس چیف اتنا مضبوط ہوتا ہے؟ جاپانی پولیس چیف نے ہنس کر جواب دیا کہ نہیں ہمارے ملک کا قانون انصاف اور سلامتی کا نظام بہت مضبوط ہے۔ ہم نے عوام کی حفاظت کیلئے پولیس لگا رکھی ہے وی آئی پی کو پروٹوکول دینے کیلئے نہیں۔ لہٰذا جاپان کا ہر شخص جانتا ہے کہ اگر وزیراعظم اور پولیس چیف میں لڑائی ہوگی تو اس میں وزیراعظم کا ہی قصور ہوگا۔ لہٰذا استعفی اسے ہی دینا پڑے گا کیونکہ یہ ملک عوام کا ہے۔لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے جہاں اداروں میں سفارش کے بل بوتے پر تعیناتیاں عمل میں لائی جائیں سنیارٹی کا بھی خیال نہ رکھا جائے جس ایم پی اے یا ایم این کے کہنے پر افسران تعینات کیے جائیں گے وہ اسی کی بات مانیں گے نہ کہ کمانڈر کی۔