امریکی ڈالر کی قدر میں روزانہ کی کمی خوش آئند ہے : عاطف اکرام شیخ 

  امریکی ڈالر کی قدر میں روزانہ کی کمی خوش آئند ہے : عاطف اکرام شیخ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کراچی(اسٹاف رپورٹر)ایف پی سی سی آئی کے صدارتی امیدوار عاطف اکرام شیخ نے کہا ہے کہ امریکی ڈالر کی قدر میں روزانہ کی کمی خوش آئند ہے جس سے عوام اور کاروباری برادری کا اعتماد بڑھ رہا ہے۔ ڈالر کی قدر میں کمی سے زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہو رہے ہیں اور اسکا اثر مجموعی صورتحال پر پڑ رہا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ملک طویل عرصہ کے بعد زرمبادلہ کے بحران سے نکل رہا ہے اور معاملات جلد بہتر ہو جائیں گے۔ عاطف اکرام شیخ جوپی وی ایم اے کے چئیرمین اور اسلام آباد چیمبر کے صدر بھی رہے ہیں نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ ملک عرصہ دراز تک زرمبادلہ کے بحران میں پھنسا رہا ہے جس سے عوام ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار پریشان رہے ہیں مگر اب صورتحال بدل رہی ہے اس لئے توانائی کی قیمتیں کم کی جائیں۔ انھوں نے کہا کہ کافی عرصہ تک درامدکنندگان پریشان رہے ہیں اور انھیں ڈیمرج اور ڈیٹینشن چارجز کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ہماری کل آمدن ساٹھ ارب ڈالر جبکہ اخراجات اسی ارب ڈالر سے زیادہ رہے ہیں اور اسی وجہ سے ملک کو قرضوں کے زریعے چلایا جاتا رہا ہے۔ خودکفالت کے حصول کے لیے برامدات ترسیلات اور دیگر آمدن بڑھانا ہوگی اور درآمدات کو کم کرنا ہوگاجبکہ معاشی پالیسیوں کو عوامی فلاح کے لیے نئے سرے سے ترتیب دینا ہو گا۔ عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ ہماری پیداواری صلاحیت اور برآمدات تشویشناک حد تک کم ہے۔ آبادی اور قرضے بڑھ رہے ہیں مگر معیشت اس رفتار سے ترقی نہین کر رہی ہے ۔پاکستان کے معاشی نظام کا تمام تر دارومدار درآمدات پر ہے اس لیے جب بھی شرح نمو چار فیصد سے زیادہ ہو تو امپورٹ بل ناقابل برداشت ہو جاتا ہے جس کے نتیجہ میں ادائیگیاں مشکل ہو جاتی ہیںاس لئے اقتصادی ماڈل میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہونگی، پٹرولیم کے امپورٹ بل میں کمی لانے کے لیے سولر اور ونڈ انرجی پر فوری طور پر منتقل ہونا ہوگا۔ 17 ارب ڈالرہر سال بیرون ملک کسانوں میں بانٹنے کی بجائے اپنے ملک کی ذراعت کو بہتر کرنا ہوگا تاکہ ملک زراعت میں خود کفیل ہو اور زرعی امپورٹ بل کا خاتمہ ہو سکے۔بعض پالیسیاں بدلنا ہوں گی تاکہ سرمایہ کارغیر پیداواری شعبوں کے بجائے پیداواری شعبوں میں دلچسپی لیں جس سے پیداوار اور برآمدات میں اضافہ ہو اور عوام کو روزگار ملے۔ پالیسی سازوں کوپیداواری شعبہ کی پیداواری لاگت کو عالمی منڈی میں مقابلے کے قابل بنانا ہوگا جس کے بغیر ترقی ناممکن ہے۔