مجھے ایک سیانے کی بات یاد آ گئی،خاموشی خالی نہیں ہوتی اس میں لاتعداد باتوں کا جواب ہوتا ہے، خاموشی کا ادب کرو، یہ آوازوں کی مرشد ہے

مجھے ایک سیانے کی بات یاد آ گئی،خاموشی خالی نہیں ہوتی اس میں لاتعداد باتوں کا ...
مجھے ایک سیانے کی بات یاد آ گئی،خاموشی خالی نہیں ہوتی اس میں لاتعداد باتوں کا جواب ہوتا ہے، خاموشی کا ادب کرو، یہ آوازوں کی مرشد ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف:شہزاد احمد حمید
 قسط:159
 ”ان روایات کی وجہ سے یہ جگہ ستین جو آستان(7 سہیلیوں کا مزار)کے نام سے مشہور ہوئی۔ لوگوں کی اکثریت ستین جو آستان سے منسوب سات بیبیوں کو آج بھی عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔مسلمان یہاں بیٹیوں کے بہتر مستقبل کی دعا مانگنے آتے ہیں  جبکہ ہندو عقیدہ کے مطابق اس جگہ کا نام ’ستی‘کی رسم سے منسوب ہے جس کے مطابق ہندو عورت خاوند کی وفات پر خود کو زندہ آگ کے سپرد کر دیتی تھی۔ اس کے برعکس تاریخ نویسوں اور محققین کا خیال ہے کہ 7 بیبیوں کی کہانی من گھڑت اور صرف روایات کی بنیاد پر ہی قائم ہے جو نسل در نسل ہم تک پہنچی ہے۔ تاریخ اس روایت کے حوالے سے کوئی مستند ثبوت یا شواہد پیش نہیں کرتی ہے۔تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ اسے لکھتا کوئی اور ہے۔
ستین جو آستان کے نام سے شہرت پانے والی یہ جگہ درحقیقت ”قاسم خوانی“ہے جسے خان زمان گورنر سندھ ابو قاسم المعروف نمکین خاں نے اپنی آخری آرام گاہ کے طور پر چنااور اس کا نام”صفحہ صفا“رکھا تھا۔ خان زمان چاندنی راتوں میں اس مقام پر اپنی رنگ و سرور کی محفلیں بھی سجایا کرتے تھے۔“ 
”میرے دوست!تاریخی حوالہ سے بات کی جائے تو مسلمان ہوں یا غیر مسلم سندھو کو سبھی انتہائی اہمیت سے دیکھتے ہیں۔ستین جوآستان کی تعمیر کے لئے بھارت کے مختلف علاقوں سے قیمتی پتھر منگوائے گئے۔آستان پر موجود قبروں (یہ تقریباً 100 ہیں) پر شاندار کاشی کاری کی گئی ہے۔ ایسی کاشی کاری مکلی، ٹھٹھہ،چوکنڈی،جام لوہار (تونگ) ضلع تھر پارکر، سندھ و بلوچستان کے سرحدی علاقوں کی قدیم عمارات پر بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ستین جو آستان پر ماہر کاریگروں نے نقش و نگاری کرنے کے علاوہ عربی و فارسی زبان میں قبروں پر عمدہ کندہ کاری کرکے اپنی مہارت اور فن کی چھاپ رہتی دینا تک چھوڑ دی ہے۔“
”کیا تم جانتے ہو“؟ سندھو نے مجھ سے پوچھا اور حسب عادت میرا جواب سننے بغیر خود ہی کہنے لگا؛”اس دور میں میرارخ اروڑ کی جانب تھا۔ ابوالقاسم نے اپنے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کیا تھا جوسطح زمین سے تقریباً چالیس(40)فٹ بلند تھی۔400 سال قبل جب یہاں تعمیر کا آغاز ہوا تو بکھر (سکھر) کا عروج تھا۔ یہ ”گیٹ وے ٹو سندھ“ کہلاتا تھا۔ کابل، چین جانے والے تجارتی قافلے یہاں سے گزرتے قیام کرتے تھے۔ پرانا راستہ وہی ہے جس سے آج ”انڈس ہائی وے“گزرتی ہے۔ خان زمانہ کی محفل رقص و سرور کے مواقع پر سیکیورٹی کے خاص انتظامات کئے جاتے تھے اور محافظوں کیلئے سیڑھیوں کے قریب ہی گارڈ پوسٹ تھیں جو آج بھی زمانے کے تغیر سے محفوظ اُس دور کی یاد دلاتی ہیں مگر اب یہاں نہ کوئی چوکیدار ہے نہ کوئی محافظ، نہ انسانوں کی بھیڑ اور نہ ہی کسی مغینہ کی آواز گونجتی ہے۔یہاں اب خاموشی کا راج ہے۔ مجھے ایک سیانے کی بات یاد آ گئی؛
”خاموشی خالی نہیں ہوتی اس میں لاتعداد باتوں کا جواب ہوتا ہے۔ خاموشی کا ادب کرو۔ یہ آوازوں کی مرشد ہے۔“
 کچھ ایسی ہی کیفیت یہاں کی خاموشی میں ہے۔ موئن جوداڑوکی تباہی کے کچھ عرصہ بعد راجہ داہرکے دور میں اروڑ آباد ہوا اس کے کچھ عرصہ بعد ماضی کا بکھر موجودہ سکھر آباد ہوا۔ مغلیہ دور میں گو رنر ابو لقاسم نے اس جگہ(ستین جوآستان)کو اپنا ٹھکانا بنایا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دیکھ بھال بہترنہ ہونے کی وجہ سے ستین جوآستان کو بھی گردش زمانہ نے خوب نقصان پہنچایا ہے۔تعمیر کردہ بارہ میناروں میں سے چند ایک کے سوا باقی مینار خستہ حال ہو چکے ہیں۔ستین جو آستان کے نیچے لائم اسٹون تیزی سے خراب ہو رہا ہے اور ایک لیزر کی طرح ہوا اورنمی نے پہاڑی کا بہت سا حصہ کاٹ دیا ہے۔دور سے دیکھا جائے تو یہ پیالے کی مانند نظر آتے ہیں۔ مجھے میرا تخیل گورنر ابوالقاسم کے دور میں لے گیا ہے؛”سنگیت اور ناچ کی محفل سجی ہے۔سندل اور چمبلی کی خوشبو نے ماحول کو معطر اور دماغ کو مخمور کر رکھا ہے۔ خوبصورت رقاصاؤں کے لچکتے، بل کھاتے جسم، موسیقی کی ڈوبتی ابھرتی تانیں، رسیلے گلوں سے نکلتے گیت اور مبارک بادی شور و غل۔ سات سنگھا رکئے یہ رقصائیں سر تا پا قیامت ڈھا رہی ہیں۔وہ ناز و ادااور ساز و سنگیت سے دیکھنے والوں کو اپنے جال میں پھنسانے لگی ہیں۔پارے کی طرح ان کے تھرکتے مرمریں جسم اور کوئل جیسی آواز۔ اس سے پہلے کہ یہ خوبرو دوشیزہ اپنے حربوں سے مجھے اپنے جال میں لیتی باہر سے آتے شور میں میرا تخیل ٹوٹ گیا ہے۔ نہ چوکیداررہے، نہ ہی رنگین محفلیں۔البتہ یہاں کی رونق ان بیبیوں (ست سہلیوں) کی روایات کی وجہ سے آج بھی قائم ہے۔“  (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -