مسلمان اپنا شاندار ماضی رکھتے ہیں کہ جس پر کوئی بھی رشک کر اٹھے ہماری تاریخ ہمارے کردار کی چاندنی سے جگمگا رہی ہے اس دودھیا چاندنی کی پاکیزگی ہمیشہ سلامت رہی ہمارا ماضی ایسا آئینہ ہے جس میں ہم اپنے اسلاف کے کمالات دیکھتے ہیں کہ وہ علوم و فنون میں کیسے بے کراں وسعتوں تک پہنچے کتنے انمٹ نقوش چھوڑے،مغرب کی یونیورسٹیز میں اٹھارہویں صدی کے وسط تک مسلمان ماہرین کی کتابوں کے حوالے دئیے جاتے ان کے مندرجات بطور سند پیش کئے جاتے رہے ہیں مسلمان اپنے پاس علم کی لازوال دولت رکھتے تھے جس کے خزانے لٹا کر بھی یہ دولت کم نہ ہوتی بلکہ اتنی ہی بڑھتی مسلمانوں کو خدا نے جو اوصاف حمیدہ عطا کئے مسلمان انہی خوبیوں پر لوگوں کے دلوں پر راج کرتے رہے مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ ان کے دربار یا عدالتوں میں انصاف کا پرچم بلند کیا جاتا خواہ کسی مسلمان کے خلاف ہی فیصلہ دینا پڑتا صدیوں مسلمان اپنے نام اور کام کے اعتبار سے جانے پہچانے جاتے چاہے اور سراہے جاتے انہوں نے اپنے جذبہ ایمانی سے حالات کے دھاروں کا رخ بدل دیا بڑے بڑے پہاڑ ان کی ہیبت سے کانپ اٹھے باطل قوتیں خس و خاشاک کی طرح اڑگئیں جب تک ہم نے اپنے بازوؤں پر بھروسہ رکھا ہم فتح یاب رہے جب ہم نے اغیار کے سہارے تراشنے شروع کئے تو ہمیں ضعف نے آلیا ہم خود اعتمادی کی بجائے دوسروں پر بھروسہ کرکے مفلسی کی راہوں پر چل نکلے نتیجتاً غیر ہم پر اس قدر بھاری پڑے کہ ہم مارے ناتوانی کے پڑے رہے شاعر علامہ اقبال نے مغربی تہذیب کا بغور جائزہ لے کر مسلمانوں کو مغرب کی ہلاکت انگیزیوں سے آگاہ کیا اور اپنی تہذیب اپنے تمدن سے وابستہ رہنے کا درس دیا جرمن فلسفی نطشے (1844-1900ء) کے برعکس علامہ اقبال? خوبصورت شان و شوکت ایمان کی طاقت اور اخلاقی حسن کے معترف تھے۔ وہ کسی بھی ضعیفی کو احسن تصور نہیں کرتے اقبال اسے خودی کی راہ میں حائل کوہ گراں سے تعبیر کرتے۔جناب اقبال تازہ افکار کی تحسین اور پراگندہ خیالات اور ناتواں سوچوں کو ناکامیوں کا پیش خیمہ قرار دیتے علامہ اقبال کی شعری فکر ہمیں گمانیوں کے مہیب اندھیروں سے نکال کر روشن راستوں تک لے جاتی ہے علامہ اقبال کی نگاہ میں کمزوری ایک جرم ہے اور جرم بھی ایسا کہ جو مرگ مفاجات کی صورت میں ایک پیہم سزا بن جاتا ہے لہذا اخلاقی گراوٹ سے گریز کرتے ہوئے جذبوں میں جلال اور جمال کے حسن کے رنگوں کو شامل کرکے ہی کامیابی کے موتیوں کو حاصل کیا جاتا ہے جناب اقبال ملت اسلامیہ کے نبض شناس تھے تبھی تو اپنے شعری سفر میں جگہ جگہ امت واحدہ کی رہنمائی کرتے ہیں ان پر انکا تابندہ ماضی آشکار کرتے ہیں اقبال نے امت مسلمہ کے ضعف خودی۔خوف۔اور لاچارگی کو جس مفلسی کا شاخسانہ قرار دیا وہ مفلسی مسلمانوں کی اقتصادی اور سیاسی تباہی سے آئی۔
سلطان صلاح الدین ایوبی اپنی بہادری فیاضی اور حسن سلوک سے لوگوں میں مقبول تھے یاد رکھئیے مسلمانوں کی مقبولیت ان کی بہادری فیاضی کردار منصفانہ روئیے عدل وانصاف اور حسن اخلاق سے تھی تبھی تو انہیں تکریم سے نوازا جاتا اور انہیں عزتوں کی رفعتوں پر فائز کیا گیا انہوں نے 1187ء_ میں یورپ کی متحدہ افواج کو عبرتناک شکست دے کر بیت المقدس ان سے آزاد کروا لیا تھا تاریخ عالم دیکھئے مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لیے طاغوتی طاقتوں نے ان ہتھیاروں سے کام لیا جو ہتھیار مسلمانوں کا زیور تھے علم مسلمانوں کے پاس سب سے بڑی دولت تھی جب بغداد پر چڑھائی کی گئی تو چنگیزی افواج نے خون کی ندیاں بہادیں اور بغداد کے کتب خانے تک جلا دئیے جس میں بیت الحکمت بھی شامل ہے کتب خانوں کو مکمل جلا کر راکھ کردیا گیا تاکہ مسلمانوں کو انکے علم کی دولت سے محروم کیا جا سکے جب مسلمانوں سے علم کی دولت چھین لی گئی تو مسلمان علمی ضعف کا شکار ہوگئے آپ دیکھئے اسرائیل ایک چھوٹا سا ملک ہے لیکن اسکی عسکری سیاسی اور اقتصادی قوت انکا تعلیمی میلان انکے استحکام کا باعث بنا مسلمان حکمران عالیشان محلات میں محو استراحت رہے اور امت پر کافر غالب آگئے ہمارے اندر کوئی ایک کمزوری کب تھی کہ جسکا مداوا کیا جا سکتا ہم اعصابی ذہنی نظریاتی کمزوریوں کا شکار ہوتے گئے جس سبب ہماری چمک ماند پڑ گئی ہماری سوچیں کمزور ہوئیں ہم مجبور اور معذور ہو کر رہ گئے۔
علم کا حصول۔ کھوج۔نت نئی تحقیقات کا تو ہمیں حکم تھا یہ تو ہمارا شعار تھا جسے کافروں نے اپنایا اور وہ اوج کمال تک جا پہنچے جیسے آج اسرائیل سائنس ٹیکنالوجی کی ترقی کے زور پر کمزور مسلمانوں کا قتل عام کررہا ہے یہی نہیں بلکہ اسرائیلی مظالم کا دائرہ روز بروز وسیع ہوتا جاتا ہے وہ دنیا کے کسی بھی ملک میں اپنے اہداف کا ٹارگٹ کرتا ہے جیسے ایران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی شہادت ہو لبنان میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ ہو یا امریکہ کی طرف سے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت ہو دنیا کے طاقتور ممالک آج مل کر مسلمانوں کی نسل کشی کر رہے ہیں آج دنیا میں مسلمان کہیں بھی محفوظ نہیں جس کی وجہ صرف مسلمانوں کی علمی مفلسی ہے ہر طرح کے وسائل سے مالامال مسلم ممالک علم و ہنر میں فضیلت رکھتے تو حالات یکسر مختلف ہوتے مقبوضہ کشمیر سے فلسطین تک ہر جگہ مسلمان زیر عتاب ہیں مسلمانوں کو اس طرح بے دردی سے قتل کیا جارہا ہے کہ حیوان بھی شرما کر رہ جائیں غزہ میں فلسطینیوں کے قتل کے کیا کیا مناظر چشم فلک نے نہیں دیکھے اسرائیل دنیا کی کسی عدالت سلامتی کونسل کسی قرارداد احتجاج یا مذمت کو خاطر میں لائے بغیر مسلمانوں کی نسل کشی کررہا ہے یہ سب مسلمانوں کی ناقص حکمت عملی سیاسی ابتری اور علمی ضعف کا خرابہ ہے۔
آج پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس نے نئی راہیں کھول دی ہیں نئے عہد و پیماں ہوئے ہیں ماضی قریب میں پاکستان میں فلسطینیوں سے اظہار یک جہتی کرتے پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے امت مسلمہ کو بیدار کرنا چاہا ہے عالم اسلام پاکستان کے سچے جذبوں سے دنیا میں کھوئے ہوئے وقار کو تلاش کرکے دنیا کے سامنے پورے قد سے کھڑا ہو سکتا ہے۔
اب پنجابی کے دلدادہ شاعر بشیر کمال صاحب کی لکھی
نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
دل کی دھڑکن جو مسلسل ہی قرینے سے ہے
رابطہ اس کا شب و روز مدینے سے ہے
جن کی خْوشبو سے معطر ہیں فضائیں ہر دم
اْن کی نسبت میرے آقا کے پسینے ہے
بے سہارو چلو جی بھر کے منائیں خوشیاں
اپنی تو عید ولادت کے مہینے سے ہے
ساری دنیا کا مجھے ایسے محبت کرنا
نعت کا فیض ہے اور فیض مدینے سے ہے
ہم کو فردوس بریں سے ہے بھلا ایسی کہاں
جو محبت در سرکار کے زینے سے ہے
نعت گو ہوں تو بھلا اس میں میرا کیا ہے کمال
یہ عطا آپ کی رحمت کے خزینے سے ہے