پی ٹی آئی کا احتجاج موخر، سب نے سکھ کا سانس لیا  لاہور کی اپنی سرگرمیاں جاری ہیں!

Oct 16, 2024

چوہدری خادم حسین

سیاسی سرگرمیاں اسلام آباد منتقل ہو جانے کے بعد لاہور پرامن ہے اور یہاں صوبائی حکومت کے لئے راوی چین ہی چین لکھتا ہے تاہم مہنگائی اور بجلی کے بلوں کے حوالے سے عوامی سطح پر بے چینی پائی جاتی ہے حال میں جو خدشہ تھا کہ پی ٹی آئی کے چیلنج کی وجہ سے یہاں بھی مظاہرے ممکن ہیں اور صورت حال پھر سے پریشانی والی ہوسکتی ہے کہ راستے بند کئے جائیں اور پی ٹی آئی کے کارکن کہیں کہیں مظاہرہ کریں اور پولیس ان کو پکڑے۔ 15اکتوبر سے پہلے ہی متعددگرفتاریاں عمل میں لائی گئیں اور پولیس پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی تلاش میں رہی تاہم خبروں سے جب پتہ چلا کہ پی ٹی آئی نے احتجاج موخر کر دیا ہے تو شہریوں نے بھی سکھ کا سانس لیا۔ بہرحال اس سلسلے میں کسی کی فتح و شکست کا تاثر دینا درست نہیں ہوگا۔ بے شک پی ٹی آئی موثر احتجاج کرنے کی اہلیت تو کھو چکی ہے تاہم جس قدر کارکن زچ کر سکتے ہیں، اگر اس حد تک بھی ہوتا تو بڑی بدمزگی ہوتی کہ حکومت نے شنگھائی تعاون کانفرنس کے لئے بڑی محنت کی اور اس پر انحصار بھی کیا۔ اس سلسلے میں اضافی بات یہ ہے کہ چین کے وزیراعظم گیارہ سال بعد پاکستان آئے، انہوں نے اپنے چار روزہ دورے کوشنگھائی تعاون کانفرنس سے بھی منسلک کر لیا، ایک روز قبل آئے تو ان کا پرتپاک خیر مقدم بھی کیا گیا اور ان کی دوطرفہ تعلقات والی سرگرمیاں بھی ہوئیں، ملاقاتیں، مذاکرات اور نئے معاہدوں کے ساتھ سابقہ معاہدوں کی تجدید بھی ہوئی۔

وفاق میں تو مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے کی معاون ہیں اگرچہ پیپلزپارٹی نے وفاق کے اقتدار میں شرکت نہیں کی لیکن صدر، چیئرمین سینٹ اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر والے آئینی عہدے ضرور سنبھالے جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے گورنر بھی پیپلزپارٹی کے ہیں۔ وفاق میں تعاون چل رہا ہے تاہم پنجاب میں گورنر پنجاب اور پنجاب حکومت کے درمیان بھرپور تعاون نظر نہیں آتا۔ گورنر موقع بہ موقع یہ یاد دلاتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کا مسلم لیگ (ن) سے اتحاد مجبوری ہے اور کارکنوں کے جذبات کے خلاف ہوا ہے، اس سلسلے میں گورنر نے وائس چانسلرز کی تقرریوں پر اعتراض بھی کیا۔ دوسری طرف سے بھی تحمل کا مظاہرہ نہ ہوا اور صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری  نے اپنا ”فرض“ نبھایا اورگورنر پر تنقیدکی ایک سے زیادہ بار ایسا ہوا اور انہوں نے اپنی گفتگو پر قابو نہ رکھتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ گورنر موصوف نے پی ٹی آئی والے کام شروع کر دیئے ہیں۔ دونوں جماعتوں کے لئے یہ صورت حال خطرناک بھی ثابت ہو سکتی ہے اس لئے فریقین سے محتاط تر رویے کی توقع کی جاتی ہے،دوسری صورت میں جماعتی قائدین کو مداخلت کرنا چاہیے کہ پہلے ہی صوبائی اسمبلی کی سطح پر مبینہ اختلافات ہیں اور وفاقی سطح کی قیادت کو مداخلت کرنا پڑی تھی۔

دریں اثناء لاہور میں مختلف کالجوں کے طلباء و طالبات احتجاج پر ہیں، ان لوگوں نے پہلے بھی احتجاج کیا، ان کا الزام یہ ہے کہ ایک نجی کالج میں ایک طالبہ کی بے حرمتی کی گئی پہلے احتجاج پر ہی حکومت پنجاب نے کارروائی کی، کالج بند کر دیا گیا اور اعلیٰ سطحی کی تفتیش کا حکم دیا اس کے بعد دو روز قبل ڈی آئی آپریشنز نے اس واقع کو غلط قرار دیا اور اپیل کی کہ احتجاج نہ کیا جائے کہ نہ تو کوئی متاثرہ لڑکی سامنے آئی اور نہ ہی سی سی ٹی وی فوٹیج سے کچھ ثابت ہوا ان کا موقف ہے کہ جب متاثرہ فریق اور مدعی ہی کاوجود نہ ہو تو کارروائی کیسے اور کس کے خلاف کی جائے، اے ایس پی ڈیفنس نے دو افراد (دونوں بھائی) کو ٹی وی کے سامنے پیش کیا، ان میں ایک مبینہ لڑکی کے والد اور دوسرے چچا ہیں، ہر دو نے الزام لگایا کہ ان کی فیملی اور بچی کو بدنام کیا جا رہا ہے وہ تو سیڑھیوں سے گر کر زخمی ہوئی اور سات روز تک ہسپتال میں رہی۔ بہرحال طلباء اور طالبات کے احتجاج میں مزید کالجوں کے طلباء اور طالبات بھی شامل ہو گئی ہیں، ان سب نے منگل کو فیصل چوک میں جمع ہو کر احتجاج کیا اور مبینہ زیادتی کے خلاف کارروائی تک سلسلہ جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ اس احتجاجی مظاہرے کی وجہ سے شاہراہ قائداعظم پرٹریفک بری طرح متاثر ہوئی جبکہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس بھی ہے، انتظامیہ اور پولیس حکام مذاکرات کی کوشش کررہے ہیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب مسلسل مصروف عمل ہیں اور عوامی بہبود کے منصوبوں پر کام کرتی چلی جا رہی ہیں، تاہم پہلے بھی بتایا اب پھر عرض کیا جاتا ہے کہ نچلی سطح کے عملے پر کوئی اثر نہیں ہوا، حتیٰ کہ وزیراعلیٰ نے ریڑھی والوں کی عارضی تجاوزات کا موثر حل تجویز کرکے حکم دیا تھا کہ خوبصورت ماڈل کی ریڑھیاں تیار کرکے شہر کے مختلف حصوں میں ایسے ریڑھی بازار لگائے جائیں جن سے ٹریفک بھی متاثر نہ ہو، تجاوزات بھی ختم ہوں اور ان ریڑھی والوں کو روزگار بھی ملے۔ اس سلسلے میں ایل او ایس کے ڈپو حال 1122کی دیوار کے ساتھ جدید ریڑھیاں لگا کر مظاہرہ بھی کیا گیا، جو صرف فوٹو سیشن تک محدود رہا ابھی تک یہ سلسلہ شروع نہیں ہوا اور ریڑھی بانوں کو تنگ کرکے رشوت لی جا رہی ہے۔

اس کے علاوہ سابقہ منظور شدہ منصوبوں کے لئے رقوم مختص نہیں کی گئیں، علامہ اقبال ٹاؤن کریم بلاک چوک کا منظور شدہ منصوبہ شامل ہے جہاں ٹریفک کا سنگین مسئلہ ہے، اسی طرح تاحال پی ایچ اے والے بارشوں سے پارکوں کی ٹوٹی دیواروں کی مرمت کا کام بھی شروع نہیں کر پائے۔

مزیدخبریں