صوبہ پنجاب کے ڈویژن سرگودھا کے ضلع میانوالی کا علاقہ وادی نمل جو میانوالی شہر سے تقریباً 32 کلومیٹر کی مسافت پر کوہ نمک کے دامن میں واقع ہے، خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں کے لوگ بھی سچے اور کھرے ہیں۔ بناوٹ پر یقین نہیں رکھتے۔ وادی نمل کی یونین کونسل نمل نمبر 26 میں مختلف گاؤں آباد ہیں۔ زیادہ تر لوگ اعوان برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔
وادی نمل کا علاقہ ایک بارانی علاقہ ہے اور پانی کی قلت کا شکار ہے۔ اگر ہم ماضی کے دریچوں میں جھانکیں تو پتہ چلتا ہے کہ پہلے پہل لوگ کوہ نمک کے ساتھ ساتھ آباد تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ آبادی میں اضافہ ہوا تو کوہ نمک کے مشرقی و جنوبی میدانی علاقے میں آباد ہونا شروع ہوگئے۔ پانی کے حصول کے لیے کنوئیں کھودے گئے لیکن پانی کڑوا تھا اور کنوؤں کی گہرائی بھی نسبتاً زیادہ تھی۔ بارانی علاقہ ہونے کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار کا انحصار بارشوں پر تھا۔ جس کی وجہ سے زمین کے دام انتہائی کم تھے۔ نظام قدرت ایک مخصوص جچے تلے انداز میں چلتا ہے جو ہماری سوچ و سمجھ سے بالاتر ہے۔
گزرتے سمے میں ایک ہستی کا جنم ہوا جس نے علاقے کے لوگوں کی سہولت کے لیے پانی کو جمع کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کھدائی شروع کر دی۔ جھیل کے جیسے وسیع گڑھوں میں بارش کا پانی جمع ہوتا جس کو لوگ اپنے استعمال میں لاتے تھے۔ ان گڑھوں میں سے جو آج تک قابل استعمال ہیں وہ نمل جھیل کا علاقہ ہے اور دوسرا رکھی گاؤں کے ساتھ گڑھا موجود ہے جس میں صاف پانی موجود ہے۔ اس کے علاوہ باقی گڑھوں کا وجود ڈھرنکہ، ڈھبہ کرسیال اور بن حافظ جی کے مقام پر ہے لیکن وہ اب کسی استعمال میں نہیں ہیں۔ خلق خدا کی آسانی کے لیے مذکورہ کام کرنے والی ہستی کا نام حافظ محمد عظیم ہے جن کا مزار نمل جھیل کے مغربی طرف موجود ہے اور اس کی زیارت کی خاطر صدر پاکستان جنرل ایوب خان ہمراہی سابقہ گورنر نواب ملک محمد امیر خان بھی آئے تھے۔
بارشوں کے موسم میں مشرقی و جنوبی اطراف میں کوہ نمک پر پڑنے والی بارش اکٹھی ہو کر نالوں کی صورت اختیار کرتی تھی۔ یہ بارشوں کے نالے مختلف علاقوں سے ہوتے ہوئے نمل جھیل میں گرتے اور اس کے بعد بے ترتیب انداز میں بکھر جاتے تھے۔ دور برطانیہ میں وادی نمل کے علاقوں کو پانی کی سہولت دینے کے لیے اور موسی خیل کے زرعی علاقوں کی آبپاشی کے لیے نمل ڈیم کی تعمیر عمل میں لائی گئی جو 1913 میں مکمل ہوئی۔ نمل ڈیم کا وجود زیر زمین پانی کی سطح کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوا۔
نمل جھیل کی مشرقی طرف ایک ڈاک بنگلہ بھی بنایا گیا جو افسران بالا کے لیے ریسٹ ہاؤس بھی تھا اور ڈاک کی وصول و منتقلی کے لیے ڈاک بنگلہ بھی تھا۔ اگر ڈاک بنگلہ میں انتظام و انصرام کے لیے موجود باقیات کا بغور جائزہ لیا جائے تو ان میں ارباب اختیار لوگوں کی افسر شاہی اور چھوٹے ملازمین و عوام کے غلامانہ طرز عمل کا واضح عکس نظر آتا ہے، جو حقیقت میں اب تک رائج ہے۔ نمل ڈیم کے گیٹ کھولنے اور بند کرنے کے لیے اور ڈاک بنگلہ کی حفاظت و صفائی کے لیے اب تک سرکاری ملازمین موجود ہیں۔ لیکن نمل ڈیم کے گیٹ کھولنے اور بند کرنے کے لیے واضح ہدایات شاید موجود نہیں ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ نمل ڈیم میں مٹی جمع ہونے سے پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہو گئی ہے اور ایک آدھ گیٹ کے علاوہ باقی گیٹس کو حرکت میں لانا ممکن نہیں رہا۔ پانی کی کمی کے باعث نمل جھیل جب جھیل خشک ہوتی ہے تو مچھلیوں، آبی جاندار اور پرندوں کے مساکن تباہ ہو جاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ نمل جھیل میں ایک مخصوص سطح تک پانی ہر صورت برقرار رکھا جائے۔ نمل جھیل کے اطراف میں چراگاہیں موجود ہیں جہاں گردونواح کے لوگ اپنے مویشی چراتے ہیں۔
میواکی فاریسٹ کا پراجیکٹ بھی شروع کیا گیا تھا اور نمل جھیل کے اطراف کے رقبہ کو محکمہ جنگلات نے ٹھیکے پر دیا۔ اس پر خاطر خواہ کام بھی نہ ہوا اور قدرتی چراگاہیں بھی ختم ہونا شروع ہو گئیں۔وادی نمل کا علاقہ خوبصورتی کا شاہکار ہونے کے ساتھ ساتھ عدم توجہ کا بھی شکار ہے۔ نمل یونیورسٹی بننے کے بعد اس علاقہ کی شہرت میں اضافہ تو ہوا لیکن ابھی تک ضروری اقدامات نہیں کیے گئے جن کا حقدار یہ علاقہ ہے۔ بارشی پانی کے نالا جات جو مختلف گزرگاہوں سے گزرتے ہوئے نمل جھیل تک پہنچتے ہیں، ان راستوں پر لوگوں نے اپنا حق سمجھتے ہوئے حکمرانی شروع کر دی ہے اور علاقہ کی قدرتی خوبصورتی کو داغدار کیا ہے۔ ہر سال حکومت وقت نمل جھیل میں مچھلیوں کی پیداوار سے اچھا ریونیو حاصل کرتی ہے ۔ اس ریونیو میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہے اگر نمل جھیل میں پانی کی سطح کو برقرار رکھا جائے۔ جس سے نہ صرف مچھلیوں کی پیداوار میں اضافہ ہو گا بلکہ پہلے کی طرح پرندوں اور چرندوں کے مساکن بھی دوبارہ وجود میں آئیں گے۔
گرین ایمرجنسی کے تحت شجر کاری میں اضافہ کے ساتھ بے تحاشہ درختوں کی کٹائی کو بھی روکنا ہو گا۔ نمل جھیل کے علاقہ کی طرح پورا وادی نمل دلکشی سے بھرا ہوا ہے۔ اس پر اگر حکومت وقت توجہ دے تو یہ بہترین ٹوارزم سائیٹ بن سکتی ہے اور اچھا ریونیو حاصل کیا جا سکتا ہے۔اتنا بڑا علاقہ ہونے کے باوجود ایک سرکاری ہسپتال تک نہ ہے۔ تفریح کے لیے پارک اور کھیلنے کے لیے گراؤنڈز نہیں بنائے گئے۔ حالانکہ سرکاری زمینیں موجود ہیں۔ نمل ڈیم کی موجودگی اور مناسب دیکھ بھال ازحد ضروری ہے۔ آبپاشی کے لیے نمل جھیل کا پانی استعمال کیا جائے لیکن اس کے لیے قواعد و ضوابط بنائے جائیں۔
چند ماہ پہلے نمل جھیل خشک ہو گئی جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح نیچے چلی گئی اور علاقہ کے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ حالیہ بارشوں کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح بہتر ہوئی اور بارشی نالوں کی وجہ سے نمل جھیل میں کچھ پانی جمع ہوا۔ موجودہ حکومت کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ارباب اختیار کو مناسب اقدامات اٹھانے چاہئے تاکہ وادی نمل کے باسی پانی کی بوند بوند کو نہ ترسیں اور علاقہ کی قدرتی خوبصورتی بھی برقرار رہے۔
۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔