تنازعہ کشمیر،بنیادی مسئلہ ہے!
پاکستان کے دفترخارجہ نے حریت کانفرنس (گیلانی) کے سربراہ محترم علی گیلانی کے ایک بیان کے جواب میں واضح کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔پاکستان آج بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس مسئلے کو حل کرنا چاہتا ہے اور پاک بھارت مذاکرات میں یہ تنازعہ بھی شامل ہے۔سیدعلی گیلانی نے شکوہ کیا تھا کہ حالیہ پاک بھارت وزراءخارجہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں مسئلہ کشمیر پر بات نہیں کی گئی اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان نے یہ مسئلہ بھلا دیاہے۔اس سے قبل پاکستان میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانافضل الرحمن نے بھی ایسا ہی بیان دیا تھا۔
دفتر خارجہ نے حکومت پاکستان کے موقف کی حمایت کی ہے اور اصرار کیا ہے کہ پاک بھارت مذاکرات میں تنازعہ کشمیر شامل ہے۔دوسرے امور کے علاوہ اس پر بھی بات چیت ہوتی ہے۔کشمیر کوشہ رگ پاکستان کہاجاتا ہے اور اب ثابت بھی ہورہا ہے کہ بھارت کشمیر کی وادیوں سے نکلنے والے دریاﺅں پر ڈیم بنا بنا کر پاکستان کو پانی کی کمی سے دوچار کرنے کے پروگرام پر عمل پیرا ہے۔کشن گنگا پراجیکٹ کے حوالے سے تو عالمی عدالت میں شنوائی ہوچکی اورفیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔یہ صورت حال پاکستانیوں کے لئے قابل قبول نہیں اور اس حوالے سے حکومت تنقید کا شکار رہتی ہے۔بھارت کا موقف ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں مردہ ہوچکیں، اب تو شملہ معاہدہ کے تحت تنازعات دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے ہی طے ہوں گے۔اس کے باوجود تنازعہ کشمیر موجود ہے جو خود کشمیری جماعتوں کی جمہوری جدوجہد کے حوالے سے بھی زندہ ہے اور یہ جامع مذاکرات کا بھی حصہ ہے اس لئے یہ کہنا کہ مذاکرات میں کشمیر کونظر انداز کردیا گیا،مناسب نہیں۔البتہ یہ بات ضرور ہے کہ تجارت اور آمدورفت کی سہولتوں جیسے معاملات کو ترجیح دی جارہی ہے۔
مسئلہ کشمیر بنیادی تنازعہ ہے، اس لئے حکومت پاکستان کو محتاط رویہ اختیار کرنا ہوگا اور عوام کو اعتمادمیں لینا ضروری ہے۔جامع مذاکرات میں مہارت کی بھی ضرورت ہے کہ سرکریک اور سیاچن جیسے تنازعات بھی طے ہونا ہیں، تعلقات معمول پر لانا اور اچھے ہمسایوں کی طرح رہنا نیک جذبہ ہے، تاہم اس کے لئے ذمہ داری دونوں فریقوں پر عائد ہوتی ہے۔حکومت پاکستان کو نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ کشمیریوں کے جذبات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ ٭