الیکشن سے پہلے نئے صوبے

الیکشن سے پہلے نئے صوبے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے، الیکشن سے پہلے نئے صوبے بنا دیں گے، نگران حکومت کے بارے میں فی الحال نہیںسوچا، وقت آ ئے گا تو یہ معاملہ بھی اتفاق رائے سے حل کر لیں گے۔ انہوں نے گورنرہاﺅس میں پیپلزپارٹی کے رہنماﺅں کے ساتھ خصوصی ملاقات میں یہ بھی کہا کہ وہ بہت جلد پنجاب سے جلسے شروع کر رہے ہیں، پہلا جلسہ منڈی بہاﺅ الدین میں ہو گا، آئندہ الیکشن میں وفاق اور پنجاب میں اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں گے۔
صدر زرداری نے اگرچہ الیکشن سے پہلے نئے صوبے بنانے کی بات کی ہے، لیکن یہ اندازہ نہیںکہ وہ جنوبی پنجاب کے علاوہ اور کون کون سے صوبے بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں، جنوبی پنجاب صوبے پر غور کے لئے تو اُن کے ریفرنس پر سپیکر قومی اسمبلی نے ایک پارلیمانی کمیشن بنا دیا ہے، جو اب تک اگرچہ نامکمل ہے، لیکن اسی حالت میں اپنے تین اجلاس بھی منعقد کر چکا ہے۔ اِس کمیشن کا مسلم لیگ(ن) نے بائیکاٹ کر رکھا ہے اور اس کے جو تین ارکان کمیشن میں نامزد کئے گئے تھے وہ اجلاس میں شریک نہیں ہو رہے۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی کے سپیکر نے جو دو ارکان نامزد کرنے تھے وہ بھی انہوں نے نامزد نہیں کئے، ایسے میں پارلیمانی کمیشن کی نمائندہ حیثیت پر بھی اعتراضات ہو رہے ہیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جس صوبے یعنی پنجاب کی تقسیم مطلوب ہے اِس میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے ارکان کی تعداد بہت کم ہے اور دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کو اِس میں زیادہ نمائندگی حاصل ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ صدر آصف علی زرداری الیکشن سے پہلے صرف پنجاب کو تقسیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا دوسرے صوبوں میں بھی جہاں جہاں نئے صوبوںکی آواز اُٹھ رہی ہے، نئے صوبے بنانے کے لئے عملی اقدامات کر رہے ہیں؟ نظر بظاہر تو اِس وقت ساری توجہ پنجاب کی تقسیم پر ہے اور پارلیمانی کمیشن بھی اسی مسئلے کے لئے بنایا گیاہے۔ اِس کے علاوہ اگر کسی صوبے میں سے نیا صوبہ بنانا مقصود ہے تو اِس کے لئے برسرزمین کوئی سرگرمی کسی سطح پر دکھائی نہیں دیتی۔ اندر خانے اگر خاموشی سے اِس سلسلے میںکوئی کام ہو رہا ہے تو وہ کسی کے علم میں نہیں۔
جہاں تک پنجاب میں نئے صوبے بنانے کا معاملہ ہے اِس سلسلے میں ایک قرارداد قومی اسمبلی نے اور دوسری قرارداد پنجاب اسمبلی نے منظور کی تھی، پنجاب اسمبلی کی قرارداد میں کہا گیا تھا کہ انتظامی بنیادوں پر پنجاب کو تقسیم کر کے ایک نیا صوبہ بنا دیا جائے اور سابق ریاست بہاولپور کو صوبائی درجہ دے دیا جائے۔ یہ دونوں قراردادیں ایسی نہیں کہ اِن پر عملدرآمد کرنا کوئی آئینی ضرورت ہو، آئین کے تحت اصل ضرورت تو یہ ہے کہ جس صوبے کو بھی تقسیم کرنے کی تحریک ہو اس کی اسمبلی دوتہائی اکثریت سے ایک بل منظور کرے، تب کہیں جا کر معاملات آگے بڑھ سکتے ہیں، لیکن معروضی صورت یہ ہے کہ اِس وقت پنجاب اسمبلی میں دوتہائی اکثریت کسی جماعت کو حاصل نہیں، اِس لئے کوئی بل بظاہر دو تہائی اکثریت سے منظور ہوتا نظر نہیں آتا، حلیف جماعتیںپیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ق) مل کر بھی دوتہائی اکثریت نہیں بناتیں ایسی صورت میں اِس مسئلے کا حل کیونکر نکلے گا، اِس کا علم جناب ِ صدر کو ہی ہو گا جو ایک سے زیادہ بار کہہ چکے ہیں کہ نئے صوبے الیکشن سے پہلے پہلے بن جائیں گے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ اگلے انتخابات چار سے زیادہ صوبوں میں لڑے جائیں گے، نئے صوبے بنیں گے تو نئی حکومتیں بھی بنیں گی۔ الیکشن سے پہلے نئے صوبوں کی حکومت کس طرح تشکیل پائے گی، جب تک نئے صوبوں کی کوئی اسمبلی نہیں ہو گی تو حکومت انتظامی آرڈر کے تحت بنانا پڑے گی جس میں گورنر اور وزیراعلیٰ دونوں نامزد ہوں گے ۔نئے صوبوں میں اسمبلی نہیں ہو گی تو نگران حکومتیں کس طرح بنیں گی جن کی تشکیل کے لئے قائد حزب اختلاف سے مشورہ ضروری ہے جب اسمبلی ہی نہیں تو قائد حزب اختلاف کہاں سے آئیں گے۔
اِس وقت پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت ہے اِس نے تو پارلیمانی کمیشن کا بائیکاٹ کر رکھا ہے اور یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ بائیکاٹ فوری طور پر ختم کرنے کے موڈ میں ہے بھی یا نہیں، یا حکومتی سطح پرکوئی ایسی تحریک بھی ہے، جس کے نتیجے میںبائیکاٹ ختم کرنے میں مدد مل سکے۔ اگر مسلم لیگ(ن) سے بالا بالا ہی نیا صوبہ بنانے کی کوشش کی جائے گی تو اِس سے خرابیاں پیدا ہونے کا احتمال ہو گا اور یہ سمجھا جائے گا کہ وفاق اپنی انتخابی ضروریات کے لئے اپنا فیصلہ پنجاب پر ٹھونسنا چاہتا ہے۔ پیپلزپارٹی یہ کریڈٹ لیتے نہیں تھکتی کہ اس نے صوبوںکو بااختیار بنایا ہے اور صوبے مضبوط ہوں گے، تو وفاق بھی مضبوط ہو گا ، لیکن پنجاب کی حکومت اور اسمبلی کو نظر انداز کر کے اگر زبردستی جلد بازی میں نیا صوبہ بنایا گیا تو کیا اِس سے صوبوں کی خود مختاری پر حرف نہیں آئے گا اور کیا صوبوں کی مضبوطی کا مقصد حاصل ہوگا؟
 ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ نئے صوبوں کی تشکیل میں متعلقہ صوبے کے کردار کو سرے سے ختم کرنے کی کوششیں بھی خفیہ طور پر ہو رہی ہیں اورایسی تجویزیں بھی زیر غور ہیں جس کے تحت نئے صوبے بنانے کے لئے صوبوں کا کردار ختم کرنا مطلوب ہے اور اِس مقصد کے لئے آئینی ترمیم کرنے کی کوششیں کی جائیں گی۔ ہمارا نہیں خیال کہ حکومت اِس طریقے سے صوبوں کی رائے کو بلڈوز کرنے کی کوشش کرے گی، کیونکہ وہ اگر صوبوں کو مضبوط کرنے کی حکمت عملی پرقائم ہے تو ایسی کوشش صوبائی خود مختاری کے بالکل خلاف ہو گی۔ بظاہر ایسی کوششوں کی تجویز اور تحریک اِن حلقوں کی طرف سے ہو رہی ہے جن کا پنجاب سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جن لوگوں کی پنجاب میں نمائندگی ہی نہیںوہ اِس سلسلے میں پیپلزپارٹی سے بھی دوچار ہاتھ آگے کیوں جا رہے ہیں؟
نئے صوبوں کی آوازیں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بھی اُٹھ رہی ہیں، بلوچستان کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک نیا پشتون صوبہ بنانے کا مطالبہ بہت دیرینہ ہے اور اس نئے صوبے میں خیبر پختونخوا کے بھی کچھ علاقے شامل کرنے کی تجویز ہے، لیکن بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نئے صوبوں کے قیام کی شدت سے مخالفت کر رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر یہ پنڈورا بکس کھولا گیا تو پھر اِس معاملے کو سمیٹنا مشکل ہو گا، کیا جناب ِ صدر اپنی ہی پارٹی کے ایک رہنما اور صوبے کے وزیراعلیٰ کی آواز سننے کے لئے تیار ہیں؟ اسی طرح خیبر پختونخوا میں بھی ہزارہ صوبے کے ساتھ ساتھ فاٹا کے صوبے کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے جس کی اے این پی کی جانب سے مخالفت ہورہی ہے۔ اس ضمن میں سرکاری سطح پر تو کوئی کام نظر نہیں آتا تو کیا جناب ِ صدر کے اس بیان سے کہ نئے صوبے الیکشن سے پہلے بن جائیں گے، یہ سمجھا جائے کہ اِس سے اُن کی مراد صرف جنوبی پنجاب کے صوبے کی تشکیل ہے، جس کے لئے اُن کی جماعت کے رہنما سرگرمِ عمل ہیں۔
ضرورت اِس بات کی ہے کہ نئے صوبے یا صوبوں کے معاملے پر گہرے غورو خوض کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائے اور اسے وقتی سیاسی مصلحتوں کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے، نہ اس ضمن میں کسی جلد بازی کی ضرورت ہے، جلد بازی میں کئے گئے فیصلے ہمیشہ نقصان پہنچاتے ہیں، اِس لئے ہماری تجویز ہے کہ نئے صوبوں کے مسئلے پر پارلیمنٹ میں کھل کر بحث ہونی چاہئے اور نئے صوبے اگر بنانے پڑیں تو انتظامی بنیادوں پر تشکیل پانے چاہئیں۔ اگر حکومت محض پنجاب کی تقسیم اور جنوبی پنجاب کو ہی صوبہ بنانا چاہتی ہے تو ممکن ہے اِس سے کوئی وقتی فائدہ تو حاصل ہو جائے، لیکن مستقبل میں اِس سے پیچیدگیاں پیدا ہونے کا احتمال ہے، اِس لئے جلد بازی سے گریز ہی مناسب ہے۔

مزید :

اداریہ -