عمران فاروق قتل کیس سکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کیلئے چیلنج،فائل بند نہیں کرنا چاہتی
متحدہ قومی موومنٹ کے مقتول راہنما ڈاکٹر عمر فاروق کے قتل کو ایک سال بیت گیا، اب تک ان کے قاتل گرفتار نہیں کئے جاسکے۔ برطانوی پولیس بھی بے بسی کا اظہار کررہی ہے اور اب سکاٹ لینڈ یارڈ کی طرف سے بیس ہزار پاﺅنڈ کے انعام کا اعلان کیا گیا ہے پولیس چاہتی ہے کہ اس قتل کے حوالے سے اسے ٹھوس معلومات دی جائیں تاکہ ملزم یا ملزموں تک پہنچا جا سکے سکاٹ لینڈ تفتیش کے حوالے سے دنیا بھر میں شہرت کا حامل ادارہ ہے حتیٰ کہ اس کے بارے میں تو قکشن راٹسٹر کا اولوں میں تعریفی کارنامے لکھتے رہے ہیں، لیکن اس معاملے میں کئی پہلوﺅں سے تفتیش کے باوجود وہ ملزم موں تک نہیں پہنچ سکی۔ اب پولیس ذرائع نے جو انکشاف کیا وہ چوکادینے والا ہے۔ اس کے مطابق دراصل ڈاکٹر عمران فاروق پھر سے سیاست میں سرگرم عمل ہونا چاہتے تھے اور اس سلسلے میں اپنی نئی سیاسی جماعت بھی بنا نا چاہتے تھے اس سلسلے میں ڈاکٹر عمران فاروق نے سوشل میڈیا پر اپنا پیروقائل بناکر رابطے اور لوگوں کی آرا لینا شروع کردی تھیں۔ ان کے قاتل یہ نہیں چاہتے تھے ۔ دوسرے معنوں میں ذرائع کے حوالے سے یہ آشکار کیا گیا ہےکہ مقتول 2جو عملی سیاست سے الگ وقت گزار رہے تھے وہ واپس سیاسی میدان میں داخل ہورہے تھے اور اس مرتبہ ان کا راستہ متحدہ قومی موومنٹ سے الگ تھا۔ اس سے پہلے بھی ایک مرتبہ وہ اپنی تنظیم سے علیحدگی اختیار کر کے روپوش رہے تھے بعد ازاں مفاہمت کے نتیجے میں لندن سیکرٹیریٹ کا نظام چلاتے رہے۔ڈاکٹر عمران فاروق ایم کیو ایم کے انتہائی اہم ترین لوگوں میں سے تھے اور ان کو ایم کیو ایم کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے ان کی روپوشی کے بارے میں بھی یہ داستان سنائی گئی کہ وہ اس دوران پاکستان میں رہے اورتب تک باہر نہیں گئے ، جب تک تمام مطلوبہ حضرات کو مفاہمت سے باہر نہیں نکالا، برحال ان کی حدت سے متحدہ کو بھی صدمہ ہوا اور بہت سوگ منایا گیا تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ان کی بیوہ سکاٹ لینڈ یارڈ کی طرف سے حفاظتی حصار میں ہے۔ ان کے قاتل یا قاتلوں کا پتہ نہیں چل سکا۔سکاٹ لینڈ یارڈ ورہا یہ فائل بند کرنے پر تیار نہیں کہ ان کے لئے چیلنج بھی ہے۔ چند ماہ قبل اس قتل کے حوالے سے بعض خبریں شائع ہوئیں جن کے مطابق کراچی سے کسی شخص کو گرفتار کیا گیا اور اس کے بعد سری لنکا سے آنے والے دونوجوان حراست میں لئے گئے جو لندن سے سری لنکا آئے اور کچھ عرصہ وہاں ٹھیرے تھے۔ انکی گرفتاری اور بیانات کے بارے میں کئی افواہیں گردش کرتی رہیں، پھر عبدالرحمن ملک نے یہ کہا کوئی گرفتاری نہیں ہوئی اور نہ ہی سکاٹ لینڈ یارڈ نے کوئی ملزم مانگے ہیں۔ یوں بات کوختم کر دیا گیا۔ اب سکاٹ لینڈ یارڈ ایک کہانی کے ساتھ سامنے آرہی ہے تو متحدہ قومی موومنٹ کا ہی فرض بنتا ہے کہ وہ سکاٹ لینڈ یارڈ سے تعاون کرے اور اپنے ایسے اہم لیڈر کے قاتل یا قاتلوں کوگرفتار کر رہے ہیں اس سے بہتر توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ برحال جو بھی ہے وہ سامنے ہے اور سکاٹ لینڈ یارڈ والے پیچھے ہٹنے والے نہیں، اس قتل کا سراغ ملنا چاہیے اور خون کو خود بھی بولنا ، قاتل سامنے آئے تو تہلکہ بھی مچے گا۔