حکومت، اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ
بظاہر سیاسی تناؤ بڑھ چکا ۔ حکومت سمجھتی ہے کہ اسے کام نہیں کرنے دیا جا رہااور اگر یکسوئی نصیب ہو جائے تو ترقی کے اگلے پچھلے ریکارڈ ٹوٹ سکتے ہیں۔بطور دلیل آصف علی زرداری دور کی مثال پیش کی جاتی ہے کہ ان دنوں پاکستان دیوالیہ پن کا مسافر بن سکتا تھا۔ مایوس سرمایہ دار، بڑھتا توانائی بحران، صنعتوں کی بنگلہ دیش منتقلی، المیاتی نغموں میں لپٹی کراچی کی فضائیں، بارودی دھوئیں کا نقاب اوڑھے خیبر پختونخوا کے پہاڑ، ہواؤں میں لہراتے آزاد بلوچستان کے جھنڈے اور سب سے بڑھ کر عام پاکستانی کا گرتا ہوا مورال۔ایسے وقت میں حکمرانی کاتخت کانٹوں کی سیج کے مترادف تھا۔ الیکشن ہوئے، حکومت تشکیل پائی۔ نرم، سخت فیصلے ہوئے اور آج بقول حکومت مثبت نتائج بھی سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں۔ حکمران سمجھتے ہیں کہ گذرے وقتوں میں انہوں نے بہت کچھ حاصل کیا۔ زرمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچے، ہلکی بھاری انڈسٹری کو چوبیس گھنٹے بجلی کی فراہمی ممکن ہوسکی، پُر امن کراچی، پُرسکون خیبرپختونخوا، قومی دھارے میں شرکت پر مائل بلوچ علیحدگی پسند اور سی پیک جیسے منصوبے کے ذریعے خوشحال پاکستان کی شروعات ہوئیں ۔
دعوے اپنی جگہ، لیکن یہ بھی حقیقت ٹھہری کہ اصلاحات اور سول سٹرکچر کی اپ گریڈیشن میں کوتاہی دکھائی گئی۔ بیوروکریسی حکومت پر بھاری ٹھہری اور وسیع البنیاد انقلابی اصلاحات کو’’قومی مزاج‘‘ کے خلاف قرار دیتے ہوئے ٹھینگا دکھا دیا۔ شہباز شریف پولیس کلچر کو بدلنا چاہتے تھے، ناکام ہوکر کئی مرتبہ بیان داغا: ’’پنجاب میں آج بھی تھانے بک رہے ہیں‘‘۔وزیراعظم میاں محمد نوازشریف بھی بڑی انقلابی تبدیلیوں کے خواہشمند تھے۔ انہیں کم گو پرویز رشید کی صورت میں ایسے ساتھیوں کا تعاون بھی حاصل تھا، جنہوں نے زندگیاں نہ صرف اصلاحات کے خواب دیکھتے ہوئے گذاریں ،بلکہ انہیں باقاعدہ تحریر کی صورت بھی ڈھالا، تاہم مکمل اختیار ملنے کے باوجود اصلاحات پر توجہ نہ دینا بدستور سوالیہ نشان ہے حکومت نے ہر محکمے کو اپ گریڈیشن کے لئے وسیع پیمانے پر فنڈز فراہم کئے، لیکن نتائج مایوس کن رہے۔ تعلیم کے میدان میں ملک مزید نیچے گیا۔ صحت میں رقم خرچ نہ کرنے کی وجہ سے بڑے شہروں کے ہسپتالوں پر تحصیل سطح کی ڈسپنسریوں کا گمان ہونے لگا۔ میڈیا تقسیم ہوا، اوسط درجے کی ذہانت والوں نے میڈیامینجمنٹ کے نام پر حکومت کو جمورا تھماتے ہوئے سرکاری ٹی وی میں اعلیٰ عہدے بٹورے۔ الفاظ کے چناؤ سے محروم ، چہرے کے تاثرات کو چھپانے میں ناکام افراد نے حکومتی ترجمانوں کی سی حیثیت اختیار کی۔ کئی کامیابیوں کے باوجود اپوزیشن کا پروپیگنڈہ اثر پذیر ہوا اور عام آدمی نے خود کو حکومت سے ایک فاصلے پر محسوس کیا۔
گذرے سالوں میں اپوزیشن کہاں تھی؟ پیپلز پارٹی سوئی رہی۔ کبھی کبھار عالم لاہوت سے باہر جھانکتے ہوئے ہنکارہ بھرا اور سمندر کو لوٹتی لہروں کی مانند دوبارہ وسیع پانیوں میں گم ہوگئی۔ جماعت اسلامی اپنے امیر کے مصالحتی اور سفری مزاج کی بدولت پاکستان بھر کے مطالعہ جاتی، فکری اور تربیتی دوروں پر نکل کھڑی ہوئی۔ مسلم لیگ ( ق)نے زوال کی چادر اوڑھی ۔ آ جا کے میدان میں کچے آم کی مانند جھولتی پاکستان تحریک انصاف ہی بچی۔دوسری طرف تحریک انصاف صحیح معنوں میں پروان بھی انہی چند برسوں میں چڑھی۔ بے تحاشہ بلنڈرز اور نان پولیٹیکل اپروچ کے باوجود پی ٹی آئی حکمران جماعت کے لئے ڈراؤنا خواب ثابت ہوئی۔ تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں وسیع البنیاد ادارہ جاتی تبدیلیوں کی داغ بیل ڈالی ۔ عوام کو ’’تبدیلی بذریعہ مارشل لاء کی بجائے بہتر سیاستدانوں کے چناؤ‘‘ کی طرف مائل کیا۔ تحریک کی زنبیل میں سب سے بڑا اثاثہ پُرجوش نوجوان ہیں۔ یہ طبقہ عمران خان کو دیوانگی کی حد تک پسند کرتا ہے۔ عمران خان جو کہتے ہیں شائد وہ نہ کر پائیں، تاہم یہ نوجوان جنونیوں کی حد تک ان کی باتوں پر سر دھنکتے ہیں۔ تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں اپنے امیج کو بہتر کیا، جبکہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو دیوار کے ساتھ لگاتے ہوئے متبادل دھڑے کی سی حیثیت اختیار کی۔موجودہ حالات میں کوئی معجزہ ہی ہوگا ،اگر پیپلز پارٹی دوبارہ سے پنجاب میں جڑ پکڑ سکے۔ شائد پیپلز پارٹی کے بزرجمہر اس حقیقت کو تسلیم کر چکے ہیں اور اگلی بار بھی سندھ کی حد تک ہی حکمرانی پر مطمئن نظر آرہے ہیں۔ بلاول بھٹو کی خواہش تھی کہ وہ پنجاب کے دھول میں اٹے دیہاتوں اور قصبوں میں بستے لوگوں تک رسائی حاصل کریں، لیکن آصف علی زرداری کی طرف سے نصیحت آئی کہ فی الوقت اس ایڈونچر کر بھول جاؤ۔ بلاول بھٹو پوچھتے ہیں کیا لوگوں کو پتا نہیں بی بی صاحبہ شہید ہو چکی ہیں؟ وہ ہمیں ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ جواب ملتا ہے پنجاب کی حد تک عمران ازم نے بھٹو ازم کو دھندلا دیا ہے۔ آصف علی زرداری عمران کو پرے دھکیلنے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں اتحادی حکومت کی چال بھی چلیں گے۔
عمران ازم کی ایک دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ اگر ایک طرف پُرہجوم جلسے ہو رہے ہیں تو دوسری طرف تنظیم سازی کا زوال بھی اسے تیزی سے ڈیڈ اینڈ کی طرف لے جا رہا ہے۔ عمران خان کو معلوم ہے کہ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔ وہ یہ مقابلہ جیتنے کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ انہیں علم ہے کہ اگلے انتخابات میں کوئی بھی جماعت فیصلہ کن اکثریت نہیں لے پائے گی، اور مخلوط حکومت کے معاملے پر مسلم لیگ (ن) سے بڑھ کر اتحادیوں کو کوئی خوش نہیں رکھ سکتا۔ عمران خان ایسا ہونے نہیں دیں گے۔ آثار اور مزاج بتا رہا ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر یہ برداشت نہیں کر پائیں گے اگر ’’وہ‘‘ نہیں تو کوئی ’’دوسرا‘‘ بھی حکمرانی کے تخت پر فائز ہو پائے۔ اس بار عمران خان کے مزاج میں ایسی خوفناک تلخی نمودار ہو چکی ہے ، اگر کامیابی نہ ملی تو وہ نظام کو بچانے کی فکر پالیں گے اور نہ ہی جمہوریت کے تسلسل کے خواہشمند ہوں گے۔اس مرحلے پر عمران خان کی سوچ کو پڑھتے ہوئے دیگر جماعتوں کے لئے بے حد ضروری ہے کہ انہیں انگیج کریں، بصورت دیگر وہ جس طرح مارچوں کی سیریز شروع کر چکے ہیں، وہاں کوئی حادثہ بھی رونما ہوسکتا ہے ۔
اسٹیبلشمنٹ کیا سوچ رہی ہے؟ کیا سول، ملٹری تعلقات واقعی کشیدہ ہیں؟کیا اسٹیبلشمنٹ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی پشت پناہی کر رہی ہے؟ کیا سیاسی جماعتوں میں نمودار ہوتے تغیرکے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کارفرما ہے۔ کیا پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم کی ٹاپ لیڈر شپ کو عملا سائیڈ پر کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن)کے ساتھ بھی ایسا ہونے جا رہا ہے؟ درحقیقت اسٹیبلشمنٹ کے تمام دھڑے اپنے اپنے ٹاسک مکمل کر رہے ہیں۔ انہیں عملی اقتدار سنبھالنے میں کوئی خاص رغبت محسوس نہیں ہورہی۔ امریکہ، بھارت، افغانستان اور ایران کے رویے کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ خود پر اضافی ذمہ داریاں ڈالنے سے اجتناب برت رہے ہیں۔ انہیں عظیم پاکستان کے لئے دو عوامل زیادہ اہم نظر آرہے ہیں۔ سی پیک کی صورت دنیا کی طویل ترین اقتصادی راہداری کو کامیابی سے ایکٹو کرنا اور دہشت گردی کے قلع قمع کے لئے کرپشن کا خاتمہ۔وہ سمجھتے ہیں سی پیک کے ثمرات ایک عام شہری تک پہنچانے کے لئے پاکستان بھر میں آپریشنز کرنے پڑیں گے۔ اگلا نمبر پنجاب کا ہوگا۔ شہروں میں پہلوانوں کے ڈیروں پر بیٹھے مسلح افراد ہوں یا گاؤں کے راستوں کو دشمن داریوں کے نام پر نو گو ایریاز بنانے والے، سبھی کے خلاف آپریشن ہوگا۔ اس آپریشن کو حکمران جماعت اپنا سیاسی قد کاٹھ گھٹانے سے تعبیر کر رہی ہے، لیکن بالآخر ایسا ہوگا ۔ اب پاکستان اور قبائلی طرز کی معاشرتی اپروچ اکٹھی نہیں چل سکتی۔ یہ قبائلی سوچ طورخم سے لے کر کراچی تک پھیلی ہوئی ہے۔ اسے ختم کرنے اور کریک ڈاؤن کی خاطر اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سیاستدانوں کو مسلسل پیغامات بھیجے جا رہے ہیں۔ اب یہ سیاستدانوں پر منحصر ہے۔ وہ پاکستان کو پرانی ڈگر پر ہی چلانے کے خواہشمند ہیں یا بذریعہ اصلاحات دولت ، طاقت کے اکٹھ سے جنم لیتے ظلم کو روکنے کے لئے معاشرے کو وسیع البنیاد اصلاحات سے نوازتے ہیں۔ اصلاحات شدہ معاشرہ عام پاکستانی کو تحفظ ، روزگار دے گا، جبکہ اختیارات پر قابض رہنے کی سوچ مزید عوامی دباؤ کا باعث بنے گی۔ اصلاحات کیا ہیں؟۔ حکمران طبقے اور بیوروکریسی کے اختیارات اور جوابدہی کا نئے سرے سے تعین۔