پھر ناکامی ہوئی
ذرا تصور کریں ، عید کی نماز کا اجتماع ہو، نمازی صف بندی کر رہے ہوں، اسی دوران کسی کی نگاہ ایسے اشخاص پر پڑے جو صف میں بیٹھے ہوئے ہوں ۔ ایک رضا کار کو شک گزرا کہ گرمی کے اس موسم میں کسی شخص کا اجرک اوڑھے ہوئے ہونا، کیا معنی رکھتا ہے۔ وہ رضا کار اس شخص کے پاس پہنچا۔ سوال جواب ہوا، تعارف کا کہا گیا، اس شخص نے اردو میں جواب دیا کہ وہ شکار پور کا رہنے والا ہے۔ شک گہرا ہوا، رضا کار نے اس کے جسم پر ہاتھ پھیرا تو محسوس ہوا کہ کچھ بندھا ہوا ہے۔ اسی اثناء میں وہ شخص اور اس کا ساتھی فرار ہونے کے لئے عید گاہ سے نکلے۔ بھاگتے ہوئے ایک شخص کے ہاتھ میں ایک بم بھی تھا۔ ایک پولیس اہل کار سے اس کی مڈبھیڑ ہوگئی، بم پھٹ گیا، وہ شخص بری طرح زخمی ہو کر گر پڑا، پولیس اہل کار بھی زخمی ہو گیا۔ جب یہ شخص بھاگ رہا تھا تو اس کے جسم پر بندھی ہوئی بارود سے بھری جیکٹ کی کلپ ٹوٹ گئی اور جیکٹ جسم سے اتر کر گر گیا تھا۔ بھاگتے ہوئے دوسرے شخص کو لوگوں نے پکڑ لیا تھا۔ مشتعل لوگوں نے پہلے تو اسے تشدد کا نشانہ بنایا، پھر کسی کے کہنے پر اس سے معلومات حاصل کیں۔ وہ معلومات حیران کن ہیں اور کئی سولات کو جنم دیتی ہیں۔ پولیس خصوصا خفیہ اداروں کی غیر ذمہ دارانہ کارکردگی اور غفلت کی نشان دہی سے کرتی ہیں۔
شکار پور اس لحاظ زیادہ ہی حساس علاقہ ہے کہ وہ دہشت گردوں کا مسلسل ہدف ہے۔ ڈ یڑھ سال قبل 31جنوری 2015ء کو بھی شکار پور کی ہی ایک امام بارگاہ میں ہونے والے بم دھماکہ کے نتیجے میں اکسٹھ افراد کی جان چلی گئی تھی اور اتنے ہی زخمی ہوئے تھے۔ پولیس نے اس وقت کہا تھا کہ یہ خود کش حملہ تھا۔ شکار پور کے علاوہ بالائی سندھ کے دیگر ادارے بھی دہشت گردوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ اس لحاظ سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دو دہشت گرد کیوں کر اتنی آسانی سے کسی مزاحمت کا سامنا کئے بغیر اما م بار گاہ میں ہونے والے نماز کے اجتماع میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ زندہ گرفتار ہونے والے دہشت گرد نے لوگوں کو جو کچھ بتایا، وہ یہ ہے کہ وہ کوئٹہ کا رہنے والا ہے، کوئٹہ شکار پور سے دو قدم کے فاصلے پر نہیں ہے۔ راستے بھر انہیں کہیں بھی کسی کی پوچھ گچھ کا سامنا کیوں نہیں کرنا پڑا؟۔۔۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اسے اور اس کے ساتھی کو ایک شخص موٹر سائیکل پر بٹھا کر اما م بار گاہ تک چھوڑ کر گیا تھا، وہ آسانی کے ساتھ امام بارگاہ تک کیسے پہنچ گئے، راستے میں موجود پولیس کیا کر رہی تھی؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ یہ لوگ ایک روز قبل شکار پور پہنچے تھے۔ انہوں نے ایک ہوٹل میں رات گزاری تھی۔ شکار پور شہر کوئی بہت بڑا شہر نہیں ہے، وہاں کسی ہوٹل میں رات قیام کرنے والے شخص کے بارے میں ہوٹل انتظامیہ نے کیوں اندازہ نہیں کیا کہ یہ کون لوگ ہیں اور عید سے قبل رات ہوٹل میں گزارنے کیوں آئے ہیں؟
ڈھول پیٹا جارہا ہے کہ پولیس نے بڑی ہی بہادری کا کام کیا ہے۔ پولیس نے حملہ ناکام بنا دیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ایسا ہر گز نہیں تھا۔ یہ تو امام بارگاہ میں موجود رضاکار کی حاضر دماغی تھی کہ اس نے محسوس کیا اور آگے بڑھ کر ان لوگوں سے پوچھ گچھ کر لی۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو جو کچھ ہوتا، اس کا تصور بھی انسان کو ہلا دیتا ہے۔ اس وقت عید گاہ میں تین سو سے زائد افراد موجود تھے ۔ پولیس والوں کی مڈبھیڑ تو بھاگتے ہوئے ہوگئی تھی۔ بم پھٹ گیا تھا اور تین پولیس والے زخمی ہو گئے تھے ۔ ۔ جو بھی سوالات سامنے آتے ہیں، ان کے جواب کی صورت میں ایک ہی بات ذہن میں پیدا ہوتی ہے کہ پولیس اور دیگر خفیہ اداروں کی کارکردگی صفر تھی۔ عید کے موقع پر شہر میں آنے والوں پر کسی کی نظر نہیں تھی۔ ہوٹلوں میں قیام کرنے والوں کی نگرانی کوئی نہیں کر رہا تھا۔ خود ہوٹل والوں نے بھی ذمہ داری محسوس نہیں کی کہ پولیس کو مطلع کرتے۔ ہوٹل اور مسافر خانوں کو بھی پابند نہیں بنایا جا سکا کہ وہ قیام کے لئے آنے والوں کی معلومات پولیس کو فراہم کریں۔ ہوٹل والے ہوں، دکاندار ہوں، رکشہ ڈرائیور ہوں، غرض کوئی بھی ذمہ داری محسوس نہیں کرتا کہ پولیس کو مطلع کرے۔
ہر پاکستانی کو ذہن نشین کرنا چاہئے کہ یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے، جسے کوئی ایک ادارہ تن تنہا نہیں لڑ سکتا۔ ہر شہری کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ حکام نے دہشت گردی کی اس ناکام واردا ت کی تحقیقات صوبائی محکمہ کاؤنٹر ٹیرر ازم کے سپرد کر دی ہے۔ کیا محکمہ زیر حراست ملزم سے وہ معلومات حاصل کر سکے گا جو دہشت گردی کا قلع قمع کرنے والے اداروں کے کام آسکے؟ ابتدائی مرحلے میں تو زیر حراست شخص کسی دوا کے اثر میں تھا، جیسا اس نے بتایا کہ اسے امام بارگاہ لانے سے قبل ایک انجکشن لگایا گیاتھا۔ اس انجکشن کی وجہ سے اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو گئی ہوگی ۔ کیوں نہ زیر حراست شخص کا صحیح معنوں میں علاج کرایا جائے ،پھر اسے کسی نفسیاتی ڈاکٹر کے حوالے کیا جائے جو اس سے معلومات اگلوائے۔