کیا ڈاکٹر طاہرالقادری قصاص کے مطالبے سے عملا دستبردار ہوگئے
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان میں ’’تحریکِ قصاص‘‘ چلا رہے تھے، اس کیلئے انہوں نے لاہور میں دھرنا دیا اور پھر عین اس روز جب عمران خان نے لاہور میں ریلی نکالی ہوئی تھی وہ راولپنڈی میں اپنی تحریک قصاص ریلی کیلئے چلے گئے پھر وہاں سے نتھیا گلی میں موسم کا لطف لیتے رہے، عیدالاضحی پر لاہور میں تھے، اگلے ہی روز وہ برطانیہ روانہ ہوگئے اور اعلان یہ کیا کہ وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن، یورپی یونین میں اٹھائیں گے، لندن میں انہوں نے سینئر وکلاء کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔ یہ معلوم نہیں ہوسکاکہ یہ سینئر وکلاء کون ہیں؟ جنہوں نے ڈاکٹر طاہرالقادری کو سانحہ ماڈل ٹاؤن یورپی یونین میں اٹھانے کا مشورہ دیا یا پھر یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے۔ یورپی یونین یورپی ملکوں کا اتحاد ہے، جس کے ضابطے اور قوانین یورپی ملکوں پر نافذ ہوتے ہیں۔ جس طرح ایک ملک کے قوانین دوسرے ملک پر نافذ نہیں ہوسکتے، اسی طرح یورپی یونین کے ضابطے بھی یورپی یونین پر ہی نافذ ہوسکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وکلاء کا اجلاس لندن میں ہو رہا ہے جس نے حال میں ایک ریفرنڈم میں یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرلیا ہوا ہے اور اب برطانیہ اس اتحاد سے نکلنے کیلئے ضروری کارروائی مکمل کر رہا ہے۔ جونہی یہ مکمل ہوگی برطانیہ یورپی یونین سے نکل جائے گا۔ اب جو ملک بوجوہ یورپی یونین کو چھوڑ رہا ہے اس کے دارالحکومت میں بیٹھ کر ایک پاکستانی لیڈر جس کے پاس کینیڈا کی شہریت بھی ہے اس معاملے پر غور کر رہا ہے کہ وہ قصاص کا معاملہ یورپی یونین میں اٹھائے۔ قصاص کا مطلب یہ ہے کہ عوامی تحریک کے جن لوگوں کی جانیں اس سانحے میں گئی تھیں ان کے بدلے میں ذمے دار لوگوں کو تختہ دار پر لٹکایا جائے جبکہ یورپی یونین کے ملک تو پھانسی کی سزا ختم کرنے کے حق میں ہیں۔ جو ملک ’’قتل کا بدلہ قتل‘‘ کے فلسفے پر یقین ہی نہیں رکھتے، ڈاکٹر طاہرالقادری ان کو قصاص کے معاملے میں مداخلت کی دعوت دینا چاہتے ہیں؟
اب بنیادی سوال تو یہ ہے کہ جو ملک قصاص پر یقین نہیں رکھتے ان سے قصاص میں معاونت طلب کرنے میں کیا تُک ہے؟ تو کیا ڈاکٹر طاہرالقادری قصاص کے مطالبے سے دستبردار ہوکر یورپی یونین سے یہ مطالبہ کرنے جا رہے ہیں کہ پاکستان میں اُن کے مقتولین کو چونکہ قصاص نہیں مل رہا اس لئے وہ پاکستان پر دباؤ ڈالیں اور کچھ پابندیاں وغیرہ لگا دیں۔ پاکستان یورپی یونین کا رکن نہیں ہے اس نے البتہ پاکستان کو جی پی ایس پلس کا درجہ دے رکھا ہے جس کے تحت پاکستان کو برآمدات میں بعض مراعات حاصل ہیں۔ کیا وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کو یہ مراعات حاصل نہ رہیں؟ جس طرح مراعات کے حصول کیلئے ایک طریق کار ہوتا ہے، بالکل اس کے خاتمے کا بھی طریق کار ہوگا، طویل عرصے تک پاکستان میں پھانسی کی سزاؤں پر عملدرآمد رکا رہا، لیکن جب آپریشن ضرب عضب شروع ہوا اور نیشنل ایکشن پلان کا آغاز ہوا تو دہشت گردوں کو موت کی سزائیں بھی دی جانے لگیں اور ان پر عملدرآمد بھی ہو رہا ہے۔ جہاں تک یاد پڑتا ہے ان سزاؤں کو یورپی یونین نے پسند نہیں کیا تھا اور پاکستان سے کہا تھا کہ موت کی سزاؤں کا سلسلہ روکا جائے، اب جو یونین موت کی سزا روکنے کا مطالبہ کر رہی ہے اس کے پاس اگر ڈاکٹر طاہرالقادری اپنا یہ کیس لے کر جائیں گے کہ پاکستان میں انہیں قصاص نہیں مل رہا تو یورپی یونین اس سلسلے میں ان کی کیا مدد کرسکے گی؟ اور کیا یہ معاملہ اس لحاظ سے مضحکہ خیز نہیں۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متعلق جو بھی مقدمات ملک کی عدالتوں میں چل رہے ہیں ان کی درست پیروی کی جاتی اور بائیکاٹ نہ کیا جاتا تو ممکن تھا ڈاکٹر طاہرالقادری کو اپنے مقدمات کے سلسلے میں کچھ نہ کچھ ریلیف ملتا لیکن انہوں نے بائیکاٹ کرکے مقدمے سے لاتعلقی اختیار کرلی، اب ان کا خیال ہے کہ اگر انہیں پاکستان میں انصاف نہیں ملا تو یورپی یونین میں مل جائے گا حالانکہ یورپی یونین کوئی عدالت انصاف نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح کے معاملات نپٹانا اس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ قانونی لحاظ سے ڈاکٹر طاہرالقادری نے اس فورم کو نہیں چنا جہاں انصاف کے فیصلے ہوتے ہوں۔ اس لئے دیکھا جائے تو ان کی یہ مشق بھی سعئ لاحاصل اور تضیع الاوقات ہوگی۔