شیخ رشید غچہ کھا گئے، ڈاکٹر طاہرالقادری اچانک کیوں چلے گئے؟

شیخ رشید غچہ کھا گئے، ڈاکٹر طاہرالقادری اچانک کیوں چلے گئے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ چودھری خادم حسین

فرزند راولپنڈی شیخ رشید یوں تو بہت سمارٹ اور خود کو بہت سمجھدار اور سیانا کہتے ہیں لیکن مردم شناس نہیں ہیں۔ محترم شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے تحریک انصاف کے رائے ونڈ مارچ میں شرکت سے صاف انکار کر دیا تھا۔ اس دوران ہمارے شیخ محترم نتھیا گلی کی ٹھنڈی اور خوش کن فضا میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے ون آن ون ملے اور راز و نیاز کئے معلوم نہیں کہ خان صاحب کو کیا حکمت عملی بتائی اور نئی اطلاع بہم پہنچائی۔ بہرحال اتنا ہوا کہ انہوں نے پہلے والے اعلان کو دہرایا کہ وہ عمران خان کے ساتھ ہیں اور بھاگم بھاگ لاہور آ گئے یہاں ’’شیخ الاسلام‘‘ سے ملاقات کی۔ خبر یہ بنی کہ فرزند راولپنڈی اپوزیشن کو منانے نکلے ہیں۔ ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے میڈیا سے بات کی تو شیخ رشید پُر امید تھے انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔ وہ 15،16ستمبر تک برطانیہ جا رہے ہیں۔ واپس آکر فیصلہ کریں۔ شیخ رشید کے ساتھ محترم علامہ قادری نے میڈیا سے اپنے انداز میں بات کی کہا یہ درست ہے کہ ہم نے رائے ونڈ نہ جانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن ہم انصاف چاہتے ہیں۔اس لئے کوئی دروازہ بند نہیں کیا، سب آپشن کھلے ہیں۔
سیانے شیخ صاحب محترم ڈاکٹر کو جانتے ہی نہیں ہیں۔ وہ جس وقت میڈیا سے بات کر رہے تھے تو ڈاکٹر صاحب کی جیب میں لندن کی کنفرم ٹکٹ تھی جس کے مطابق وہ 14ستمبر کی رات غیر ملکی ایئرلائنز سے لندن روانہ ہو گئے ہیں، اب فرزند راولپنڈی اسے ٹیکنیکل بنیاد پر 15ستمبر کہیں گے کہ 14 کی شب بارہ بجے کے بعد تاریخ تبدیل ہو جاتی ہے اور ڈاکٹر طاہر القادری کی پرواز تین بجے روانہ ہوئی اس وقت واقعی 15ستمبر ہو چکی تھی۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے اس مشترکہ گفتگو کے بعد جب میڈیا سے بات کی تو انہوں نے ایک اور چونکا دینے والے فیصلہ کا اعلان کر دیا کہ عوامی تحریک اب عالمی پلیٹ فارموں سے رجوع کرے گی اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کے علاوہ یورپی پارلیمنٹ سے رابطہ کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ابتدائی تیاری کرکے کاغذات تیار کئے گئے ہیں اور لندن میں وکلاء سے مشاورت کے بعد کیس مکمل کرکے دائر کیا جائے گا۔
عوامی تحریک کے ترجمان کا تو یہ کہنا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری ستمبر کے آخری ہفتے میں واپس آ جائیں گے لیکن جو حکمت عملی وہ خود بیان کرکے گئے اس کے مطابق یہ ناممکن نظر آتا ہے اور پھر محرم الحرام میں کتنے دن باقی ہیں، نہ معلوم محترم کے کتنے لیکچر مختلف ممالک میں طے ہیں جو محرام الحرام کے سلسلے میں ہوں گے یوں بھی ابھی ان کی تفسیر کا کافی کام باقی ہے اس لئے یہ توقع کہ وہ جلد واپس آئیں گے حالات کے مطابق نہیں، حضرت ایک مرتبہ پھر جلوہ دکھا کر اپنے دیوانوں پروانوں کو جوش میں لا کر کچھ عرصہ کے لئے تشریف لے گئے اور اغلباً اپنے وطن کینیڈا بھی جائیں گے یہ الگ بات ہے کہ ان کے آڈیو، ویڈیو بیانات کا سلسلہ جاری رہے گا کہ ان کا نیٹ ورک بن چکا ہے یوں بھی جدید ٹیکنالوبی سے استفادہ کرنے والوں میں وہ غالباً پہلے مذہبی رہنما ہیں، ہماری اگرچہ اب بھی رائے ہے کہ وہ دینی محاذ پر سرگرم اچھے لگتے ہیں۔ لیکن وہ مانیں گے نہیں!
عوامی تحریک کا مسئلہ تو طے سمجھئے، اب رہ گئی دوسری جماعتیں وہ بہرحال رائے ونڈ میں احتجاج کے خلاف ہیں چاہے جاتی عمرہ نہ سہی اس سے پانچ کلومیٹر دور اڈہ پلاٹ ہی پر کیوں نہ ہو، کہ یہاں سے راستے جاتی عمرہ کو جاتے ہیں، اب عمران خان کو شیخ رشید کے سہارے ہی یہ احتجاج کرنا ہوگا ویسے وہ پہلے سے کہہ رہے تھے کہ کوئی ساتھ دے یا نہ دے وہ اکیلے بھی جائیں گے اب تو شیخ صاحب ان کے ساتھ ہیں (راز کی بات یہ ہے کہ محترم فرزند راولپنڈی کو تقریرکے لئے مجمع مل جاتا ہے) عمران خان نے بنی گالا میں اپنی جماعت کے سینئر رہنماؤں سے بات کرکے یہ طے کیا کہ اتوار کو بنی گالا میں کل پاکستان سطح پر اجلاس بلایا جائے۔اس میں باقاعدہ طور پر رائے ونڈ مارچ کی حتمی تاریخ طے کی جائے اور پھر بھرپور تیاریاں کی جائیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ خان صاحب اپنے قول کے مطابق پورے پاکستان سے تحریک انصاف کے کارکنوں کو بلائیں گے کہتے تو وہ یہ تھے کہ پورے ملک کے عوام کو اکٹھا کرکے رائے ونڈ لے جائیں گے اور اب وہ اپنی جماعت پر ہی اعتماد اور بھروسہ کررہے ہیں، دیکھنا ہوگا کہ ملک بھر سے کتنے لوگ آتے اور مارچ کی رونق بڑھاتے ہیں، حکمت عملی بہرحال اچھی ہے۔ جلسہ اچھے مجمع والا ہو سکے گا۔ ویسے شیخ رشید کی پیش گوئیاں اور پھرتیاں اپنی جگہ سوالیہ نشان ہیں۔
ڈاکٹر طاہرالقادری کے بیان کا رانا ثناء نے خیر مقدم کیا اور کہا یورپی پارلیمنٹ کو جے آئی ٹیم رپورٹ بھجوائی جائے گی اور حکومت یعنی مسلم لیگ(ن) نے بھی اپنے وکلاء کو بلایا ہے۔ اب یہ آئینی اور قانونی ماہرین کا کام ہے کہ وہ بتائیں کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم اور یورپی پارلیمنٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے اور کیا یہ دونوں ادارے کسی عالمی عدالت کا اختیار رکھتے ہیں اور کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کسی خود مختار ملک کی کوئی سیاسی جماعت شکائت کرے اس کی شکائت سنی جائے اور کیا یہ ادارے حکومت پاکستان کو ڈاکٹر موصوف کی مرضی کا فیصلہ کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں کہ ملک کی عدالتوں میں کیس بھی چل رہے ہیں خود عوامی تحریک کا استغاثہ بھی زیر سماعت ہے جس کی سماعت بھی مکمل ہونے والی ہے۔ اس سے پہلے یورپی یونین اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیم سے رجوع کیا معنی رکھتا ہے؟ دیکھتے جائیے آگے آگے کیا ہوتا ہے۔ محترم ڈاکٹر طاہر القادری حیران کر دینے کے بادشاہ ہیں۔ ابھی تو شیخ رشید ہی ہوش میں آ لیں۔
برطانیہ روانہ

مزید :

تجزیہ -