لیبیا میں فوجی مداخلت ،ڈیوڈ کیمرون نے ناقص انتیلی جنس پر انحصار کیا :رپورٹ

لیبیا میں فوجی مداخلت ،ڈیوڈ کیمرون نے ناقص انتیلی جنس پر انحصار کیا :رپورٹ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لندن(اے این این) برطانیہ میں ایک پارلیمانی رپورٹ میں برطانیہ اور فرانس کی لیبیا میں فوجی مداخلت پر سخت تنقید کی گئی ہے جس کے نتیجے میں 2011 میں کرنل معمر قذافی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب قذافی کی حکومت نے ایک بغاوت سے نمٹنے کی کوشش کی تو فرانس نے شہری آبادی کو لاحق خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔اس کے علاوہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس وقت کے برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ناقص انٹیلی جنس معلومات پر انحصار کرتے ہوئے لیبیا کے سیاسی اور معاشی انہدام کو تیز تر کر دیا۔یاد رہے کہ امریکی صدر براک اوباما نے بھی اعتراف کیا تھا کہ لیبیا میں کرنل قدافی کو معزول کرنے کے بعد کی صورت حال کی پیش بندی نہ کرنا ان کے عہد صدارت کی بدترین غلطی تھی۔برطانوی حکومت نے کہا تھا کہ اس کی فوجی کارروائی کا مقصد لیبیا کے عوام کو ملک کے آمر معمر قذافی سے بچانا تھا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کیمرون لیبیا کے بارے میں مربوط حکمتِ عملی تشکیل دینے میں ناکام رہے۔برطانیہ اور فرانس نے 2011 کے اوائل میں لیبیا کے اس وقت کے سربراہ معمر قذافی کے خلاف بین الاقوامی اتحادی کوششوں کی سربراہی کرتے ہوئے وہاں بمباری کی تھی، جس کی وجہ سے وہاں سرگرم باغیوں کو حکومت کا تختہ الٹنے کا موقع مل گیا۔برطانیہ کی خارجہ امور کی کمیٹی نے اس دوران لیبیا سے متعلق برطانیہ کی فیصلہ سازی کا جائزہ لیا، جس کے بارے میں برطانوی حکومت نے کہا تھا کہ اس کا مقصد لیبیا کے عوام کو ملک کے آمر معمر قذافی سے بچانا ہے۔رپورٹ کے مطابق حکومت قذافی کی جانب سے شہری آبادی کو لاحق اصل خطرے کی تصدیق نہیں کر سکی، اس نے قذافی کی تقاریر کے کچھ حصوں کو حقیقت جان لیا، اور وہ بغاوت میں شامل اسلامی شدت پسند عناصر کی نشان دہی کرنے میں ناکام رہی۔برطانیہ کی حکمتِ عملی غلط اندازوں اور شواہد کی نامکمل تفہیم پر مبنی تھی۔لیبیا میں قذافی کے اقتدار سے ہٹنے کے پانچ برس بعد بھی وہاں شورش جاری ہے، اور دو مخالف حکومتیں اقتدار اور تیل کے ذخائر پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے رسہ کشی میں مصروف ہیں۔خارجہ کمیٹی کے سربراہ کرسپن بلنٹ نے کہا کہ برطانیہ کے پاس دوسرے راستے موجود تھے، جن کے بہتر نتائج نکل سکتے تھے سیاسی بات چیت سے شہری آبادی کا تحفظ، حکومت کی تبدیلی اور اصلاحات ممکن تھیں جن کی لیبیا اور برطانیہ دونوں کو کم قیمت چکانا پڑتی۔حکومت کی تبدیلی کے محض فوجی ذرائع پر انحصار کرنے کی بجائے اگر برطانیہ یہ طریقے آزمانے کی کوشش کرتا تو اسے کوئی نقصان نہ اٹھانا پڑتا۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت کو اس بات سے باخبر ہونا چاہیے تھا کہ شدت پسند جنگجو بغاوت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتے ہیں، اور یہ کہ بغاوت میں سرگرم عناصر کا کوئی باقاعدہ تجزیہ نہیں کیا گیا۔
رپورٹ