اسلام آباد ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ ۔۔۔ناموس رسالتﷺ (29)
دفعہ5:
مملکت سے وفاداری اور دستوراورقانون کی اطاعت:
1۔ مملکت سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے۔
2۔ دستوراورقانون کی اطاعت ہر شہری خواہ وہ کہیں بھی ہو اور ہر اس شخص کی جو فی الوقت پاکستان میں ہو اور واجب التعمیل ذمہ داری ہے۔
دفعہ9:فردکی سلامتی،گرفتاری اور نظرثانی سے تحفظ:
کسی شخص کو زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گاسوائے جبکہ قانون اس کی اجازت دے۔ دفعہ10 الف:منصفانہ سماعت کاحق:
اس کے شہری حقوق اور ذمہ داریوں کے تعین یا اس کے خلاف کسی بھی الزام جرم میں ایک شخص منصفانہ سماعت اور جائزعمل کامستحق ہوگا۔
دفعہ14:شرفِ انسانی وغیرہ قابل حرمت ہوگا:
1۔ شرف انسانی اور قانون کے تابع، گھر کی خلوت قابل حرمت ہوگی۔
2۔ کسی شخص کو شہادت حاصل کرنے کی غرض سے اذیت نہیں دی جائے گی۔
دفعہ25: شہریوں سے مساوات:
1۔ تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور قانونی تحفظ کے مساوی طور پر حقدار ہیں۔
2۔ جنس کی بناء پر کوئی امتیاز نہیں کیا جائے گا۔
3۔ اس آرٹیکل میں مذکور کوئی امر عورتوں اور بچوں کے تحفظ کے لئے مملکت کی طرف سے کوئی خاص اہتمام کرنے میں مانع نہ ہوگا۔
متذکرہ بالا دفعات حقوق کا اصدار،فرائض کا اطلاق اور دستوری ضمانتوں کااظہارکرتی ہیں۔دستور میں جس ترتیب کے ساتھ یہ دفعات منضبط کی گئی ہیں وہ ترتیب بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔دفعہ 4اور 5 دستور کے حصہ اول میں مذکور ہیں۔ جبکہ دفعہ نمبر8 تا28 دستور کے حصہ دوم کے باب اول جوکہ بنیادی حقوق سے متعلق ہے،میں درج کی گئی ہیں۔ دفعہ4قانون کی حکمرانی، قانونی تحفظ اور قانون کے مطابق سلوک سے متعلق ہے اور یہ دفعہ اس اعتبار سے انفرادیت کی حامل ہے کہ اس دفعہ کی رو سے قانون کے مطابق سلوک کی ضمانت ایسے وقت میں بھی دی گئی ہے جب حصہ دوم کے باب اول میں مذکور بنیادی حقوق دستورکے مطابق معطل ہوں۔ریاست سے وفاداری اور قانون کی اطاعت ہر شہری کا بنیادی فرض اور واجب التعمیل ذمہ داری ہے۔خواہ وہ کہیں بھی ہواور یہ ذمہ داری ہر اْس شخص پر بھی عائد ہوتی ہے جو فی الوقت پاکستان میں رہائش پذیر ہوکہ وہ دستور اور قانون کی پابندی کرے۔ دستور کی دفعات پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے ہی یہ عیاں ہوتا ہے کہ قانونی تحفظ کی ضمانت اِک ایسا حق ہے جو بایں طور پرمہیاکیا گیا ہے جوکہ کسی صورت واپس نہیں لیا جاسکتا۔ دستور شہریوں سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ اُس کے وفاداررہیں ،اطاعت کریں اور پابندی کریں،جس کے بعدہی بنیادی حقوق جوکہ دفعہ 8 تا 28 میں درج کئے گئے ہیں،کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔
ہرشہری کے لئے اُس کی سب سے قیمتی متاع اْس کی ’’زندگی‘‘اور’’آزادی‘‘ہے۔دفعہ9اِس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ کوئی بھی شخص زندگی اور آزادی جیسی قیمتی نعمتوں سے محروم نہیں کیا جائے گا۔سوائے قانونی طریقہ کار کے۔ہر شخص زندگی کی نعمتوں اور آزادی کے ثمرات سے لطف اندوز ہوسکتا ہے لیکن اُس کے لئے قانون میں عائد کردہ پابندیوں کی اطاعت کرنا ہوگی اور اگر کوئی اُن حدود کو پامال کرے جو آئین میں دی گئی ہیں اور قانون شکنی کا مرتکب ہوتو قانون کے مطابق یہ ضمانتیں منقطع ہو جائیں گی۔دستور میں دی گئی ضمانتیں کیسی شانداراورعظیم ہیں کہ جیسے ہی کوئی شخص اپنے کسی غیرقانونی فعل کے سبب دفعہ 9میں دی گئی ضمانت سے محروم ہوتا ہے تو فی الفور دفعہ 10 اور 10الف میں مہیاکردہ دستوری ضمانتیں اُس کے تحفظ کے لئے میدان عمل میں اُتر آتی ہیں۔زندگی اور آزادی چھیننے کا حق کسی فرد یا افراد کے گروہ کو قطعاً حاصل نہ ہے‘‘۔
ریاست کی بنیا دی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی جان، مال، آبرو، عزت، کاروبار، اور اس کی خاندانی زندگی کا تحفظ کرے ۔ کسی ایک فرد کے خلاف ارتکاب جرم سے قانون فوری طور پر حرکت میں آجاتا ہے، لیکن جب یہ جرم کسی ایسی ہستی کے خلاف ہو جو ایمان و یقین، عشق و محبت ،دنیاوی زندگی میں منبع رُشد و ہدایت ہواور روزِ محشر شفاعت کرنے والی ہو تو ایسا جرم پوری ملت کے خلاف بالعموم اور پاکستانی قوم کے خلاف بالخصوص ایک گھناؤنا فعل اور ناقابل برداشت عمل ہے۔ پاکستانی قوم کی یہ خوبی ہے کہ اس کے اندر جذبہ خیر اور قربانی کا حوصلہ دیگر اقوام سے زیادہ ہے لیکن ایک پہلو ایسا ہے جس پر کسی قیمت، کسی مصلحت ،کسی خوف و لالچ میں آئے بغیر مسلمان کے دل میں آقا حضرت محمدؐ کی محبت کی لو روشن رہتی ہے جسے وقت کی آندھیاں کبھی بجھا سکی ہیں نہ بجھا سکیں گی۔ اس لئے ریاست کو ایسے جرا ئم جو محسن انسانیت حضرت محمدؐ کی عزت ، توقیر، مقام، مرتبہ، گھریلو زندگی، نبوی ذمہ داریوں، اور قرآن کریم کے نزول کے حوالے سے ہوں جس سے آپؐ کی تضحیک، توہین، بے عزتی اور مرتبہ کم کرنے کی کوشش ہو، ریاست کو بہت زیادہ ذمہ داری کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا اور ملک کی غالب اکثریت کے جذبات، ایمان، عقیدت، عشق و لگاؤ کو اہمیت دینا پڑے گی اور چند عناصر کی خوشنودی کے لئے یا بیرونی ممالک کے دباؤ کے تحت کارروائی سے اجتناب یا گریز سنگین صورتِ حال پیدا کرنے کا موجب بن سکتا ہے۔ یہ امر ذمہ داران حکومت کے سامنے تابندہ بن کر رہنا چاہئے کہ اگر اختیارات کے باوجود وہ نبی محترمؐ کی شان میں گستاخی اور تضحیک کو برداشت کرتے رہے تو نہ صرف وہ اپنے آپ کو نبی محترمؐ کی شفاعت سے محروم پائیں گے بلکہ توہین و تضحیک کرنے والوں کے سہولت کار تصور ہوں گے جو اَز خود ایک جرم ہے۔
23۔ معاملہ کی حساسیت فوری کارروائی کی متقاضی ہوتی ہے نہ کہ کبوترکی مانند آنکھیں بندکرنے سے یامعاملہ کوتکنیکی وپیچیدہ قرار دے کر راہِ فرار اختیار کرنے سے۔بدقسمتی سے کچھ لوگ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے عمل سے زیادہ ردِعمل پرشوروغوغہ بلند کرتے ہیں، حالانکہ کسی عمل جوکہ قانون کی نظرمیں جرم ہے پربروقت قانونی کارروائی غیر قانونی ردِعمل کوروک سکتی ہے۔
یہ امرباعث افسوس ہے کہ FIAاوراسلام آباد پولیس نے معاملہ کی حساسیت کی آڑلے کر اپنی ذمہ داریوں سے راہِ فرار اختیار کی اوراس طرز عمل سے محسن انسانیت نبیؐ کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے عناصر کی حوصلہ افزائی ہوئی جس بناپرپوری اُمت مسلمہ اورپاکستانی قوم ،کرب واضطراب کی کیفیت سے دوچار ہو گئی۔ قریب تھاکہ وطن عزیز کے اندر شدیداحتجاج کی فضا بنتی اور ملک ایک سنگین بحران سے دو چار ہوتا عدالت ہذا نے معاملہ کی اہمیت کااحساس کرتے ہوئے اورقوم کے ذہنی تناؤ کوبھانپتے ہوئے فوری اقدامات کے احکامات جاری کئے۔الحمدللہ قوم کااعلیٰ عدلیہ پراعتماد بڑھاجس کی وجہ سے پاکستان ایک بہت بڑی آزمائش سے دوچار ہونے سے محفوظ رہا۔
یہ پہلو انتہائی تکلیف دہ ہے کہ ریاستی ادارے اس پہلو کا ادراک کرنے سے قاصر رہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے،اس کی جغرافیا ئی سرحدوں کی طرح نظریاتی سرحدیں بھی ہیں جغرافیا ئی سرحدوں کی پاما لی ذمہ دار اداروں کو بے چین اور مضطرب کر دیتی ہے جس سے قوم ایک ہیجا نی کیفیت میں مبتلاء ہو جاتی ہے لیکن ناموسِ رسالتؐ جو کہ بجا طور پر وطن عزیز کی نظریاتی سرحد ہے پرتابڑتوڑ حملے نبی مہربانؐ کی شان میں گستاخی کی صورت کیے جا تے ہیں تو ریاستی اداروں کی طرف سے عمومی طور پر بے حسی اور سرد مہری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ جبکہ ملک کا سوادِ اعظم غم و غصہ بے بسی اور ذہنی تناؤ کا شکار ہوتا ہے ایسی ہی کیفیت حضور اکرمؐ کے عشق میں سرشار کسی غلام کو قانون ہاتھ میں لینے پر مجبور کر دیتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حساس معاملہ پر سرعت سے قانون کو حرکت میں لایا جا ئے اور ذمہ دار عناصر کے خلاف فی الفور کارروا ئی عمل میں لائی جائے تا کہ مسلمانان پاکستان جن کے لئے حضوراقدسؐ کی ذات تمام رشتوں سے محترم ہے کو یقین کامل حاصل ہو سکے کہ گستاخان رسولؐ ملکی قانون کے مطابق عمل سے گزارے جا ئیں گے اور قانون وانصاف کے تقاضے پورے کرتے ہو ئے عدالتی فیصلہ کے مطابق برتاؤ کے مستحق قرار پا ئیں گے۔انسدادِ دہشت گردی ایکٹ مجریہ 1997 کی دفعہ 6 ذیلی دفعہ 2 کی شق (ایف) اور (پی) کے مطابق توہینِ رسالت ؐ کے جرم کو دہشت گردی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس لئے قانون نافذ کرنے والے ادارے مقدمہ کے اندراج کے وقت اس اہم قانونی تقاضے کو مدِ نظر رکھیں۔
24۔ چند نامور دانشور یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مسلمان اپنے نبی حضرت محمدؐ کے لئے کٹ مرنے اور تختہ دار پر چڑھنے کے لئے کیوں تیار رہتے ہیں۔ مسلمان کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا تعارف اور اس کی ہستی کے ہونے کی دلیل آپؐ نے دی تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات کے حوالے سے ایمان و یقین پیدا ہو اسی طرح قرآن کریم جو مختلف اوقات میں نبی مہربانؐ کے قلب اطہر پر وحی کی صورت میں نازل ہوتا تھا اور آپؐ اس کی تلاوت فرما کر صحابہ کرام اجمعینؓ کو سناتے تھے پر اللہ کا کلام ہونے کا یقین اور ایمان اس لئے پیدا ہوا کہ آپؐ نے گواہی دی کہ یہ کلام اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا۔ آج ہم قرآن کریم کو جس کتابی صورت میں دیکھتے ہیں یہ ہر گز اس شکل میں نازل نہیں ہوا تھا۔ اس پہلو پہ غور کرنے سے ناعا قبت اندیش ملحدوں اور کم ظرف دانشوروں کو جواب مل جانا چاہیے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ہستی اور قرآن مجید کا الہامی کتاب ہونا نبی آخر الزماںؐ کی گواہی کا ثمر ہے۔
ایسے ہی افراد پرمشتمل ایک مخصوص طبقہ کئی دہائیوں سے توہین رسالتؐ کے قانون پربرانگیختہ ہے اور قانون پراعتراضات اٹھاتے ہوئے ایک دلیل پیش کرتاہے کہ اس قانون کاغلط استعمال ہوتاہے۔ لہٰذا اس قانون کوختم کردینا چاہیے۔ یہاں قابل غور امریہ کہ کیا کسی قانون کے غلط استعمال کی وجہ سے اس کا صحیح استعمال بھی روک دیناچاہیے یاغلط استعمال کے اسباب کو دورکرناچاہیے ؟ یقیناًایک عام فہم آدمی بھی یہ رائے ہی قائم کرے گا کہ غلط استعمال کے اسباب دورہونے چاہئیں نہ کہ قانون۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں آج تک کسی بھی مسلم یاغیرمسلم کوتوہین رسالتؐ کے جرم کے ارتکاب پر سزائے موت پرعمل درآمد نہیں ہوا۔ (جاری ہے)