مشکل حالات اور شریف فیملی کا اتحاد
سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کے بیٹوں، داماد اور اسحاق ڈار کی طرف سے دائر کی گئی نظر ثانی کی درخواستیں مسترد کردیں، اگر وکلاء کے پاس مضبوط دلائل نہیں تھے تو انہوں نے یہ درخواستیں کیوں دائر کیں، اس طرح تو فیصلے پر مہر تصدیق ثبت ہوگئی، بلکہ اُلٹا بعض نکات خود نواز شریف کے وکلاء نے تسلیم کئے، اب جبکہ عدالت کا باب بند ہوگیا ہے، کیا نواز شریف اپنی حکمتِ عملی تبدیل کریں گے یا وہی چوکے چھکے لگاتے رہیں گے، جو انہوں نے نااہلی کے بعد ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی گردان کرتے ہوئے لگائے۔ یہ بات تو بہت پہلے سے کہی جارہی ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے خلاف محاذ کھولنے سے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا، اُلٹا جگ ہنسائی ہوگی۔ آپ ایک ہی محاذ پر دو لڑائیاں کیسے لڑسکتے ہیں۔ ایک طرف آپ سپریم کورٹ کے فیصلے کو سڑکوں پر چیلنج کریں اور دوسری طرف نظرثانی کی درخواست بھی دائر کردیں۔ میاں صاحب نے تیس برس سیاست میں گزارے ہیں، وہ اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ ملکی تاریخ میں کبھی سپریم کورٹ کے فیصلوں کو سڑکوں پر احتجاج کے ذریعے تبدیل نہیں کرایا جاسکا۔ پھر جی ٹی روڈ کا ڈرامہ کیوں کیا گیا؟ یہ کوئی وقار کا راستہ نہیں تھا۔ دنیا میں کس جگہ ایسا ہوتا ہے کہ ملک کی سپریم کورٹ کسی کے خلاف فیصلہ دے اور وہ سڑکوں پر جلوس نکال کر یہ سوال کرتا رہے کہ مجھے کیوں نکالا؟
عدلیہ کے فیصلے عدالتوں میں ہوتے ہیں اور دلائل و شواہد کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں۔ میاں صاحب کروڑوں روپے فیس کی مد میں لینے والے وکلاء سے پوچھیں کہ انہوں نے نظر ثانی درخواست میں آخری دلیل کون سی دی تھی جس کی بنیاد پر سپریم کورٹ اپنا فیصلہ تبدیل کرتی۔ فیصلہ نہ ہوا ہو تو اور بات ہے، مگر جب فیصلہ ہوجاتا ہے تو اس میں اُٹھائے گئے سوالات کے جواب دینے ہوتے ہیں،نظر ثانی کی درخواست میں اقامہ کو جھٹلایا گیا اور نہ اس بات کو کہ اسے چھپایا گیا، بلکہ اُلٹا تسلیم کرلیا گیا، پھر فیصلہ کس بنیاد پر تبدیل ہوتا؟۔۔۔ جہاں تک نیب کیسز میں نگران جج کی تقرری کا سوال ہے، اسے غلط ثابت کرنے کے لئے بھی تو کوئی مضبوط دلائل دیئے جاتے، جبکہ سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان نے کئی ایسی مثالیں سامنے رکھ دیں، جن میں سپریم کورٹ نے کسی کیس کی نگرانی کی۔۔۔ پھر اہم بات یہ ہے کہ اس سے تو ملزمان کو فائدہ ہوسکتا ہے کہ نیب ان سے کوئی زیادتی نہ کرے، جیسا کہ خود جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ نیب اور ٹرائل کورٹ پر نظر رکھیں گے کہ وہ کسی قسم کی زیادتی نہ کریں اور آئین وقانون کے دائرے میں رہ کر کام کریں۔ وکلاء کے پاس اصل موقع تو اب آیا ہے کہ وہ جے آئی ٹی کی رپورٹ بھی غلط ثابت کردیں اور اس کی بنیاد پر بنائے گئے، نیب ریفرنسز بھی۔ ویسے اب راستہ بھی صرف یہی بچا ہے،اس لئے ساری توجہ اس پردی جانی چاہئے۔
نیب کے ریفرنسز شریف فیملی کے لئے کوئی نئی بات نہیں، پہلے بھی کئی ہوچکے ہیں، اس بار فرق صرف یہ ہے کہ ان کیسوں کی سماعت کی حد مقرر کردی گئی ہے اورنیب عدالت سے کہا گیا ہے کہ 6ماہ میں ان ریفرنسوں کا فیصلہ سنائے۔ غالباً صرف یہی پہلو ہے جو شریف خاندان کے لئے ناقابل قبول ہے۔ شاید اسی لئے نگران جج کی تقرری کے خلاف نظرثانی درخواست بھی دائرکی گئی جو مسترد ہوگئی۔ وکلاء نے اس حوالے سے جو دلائل دیئے، وہ 6ماہ کی مدت کے حوالے سے تھے، جب سپریم کورٹ نے کہا کہ نیب قانون میں تو مدت ایک ماہ لکھی گئی ہے، ہم نے تو 6ماہ دیئے ہیں، تب اُن کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اب ظاہر ہے، ایسے معمولی نوعیت کے اعتراض اور عام سطح کے دلائل سپریم کورٹ کے ججز کو کیسے متاثر کرسکتے ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ شریف فیملی کو یہ تسلیم کرلینا چاہئے کہ وہ مشکل حالات میں ہے۔ چاروں طرف سے اُس کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے، حدیبیہ پیپر مل کیس کھل جانے کے بعد ان مشکلات میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔
مسئلہ یہ بھی ہے کہ شریف فیملی کے ایک سے زائد افراد نیب کیسوں میں براہ راست ملزم قرار دیئے گئے ہیں، اب ظاہر ہے، جب پوری فیملی گرفت میں آئی ہو تو صورت حال خاصی سنگین ہو جاتی ہے۔ ابھی تو حکومت مسلم لیگ (ن) کی ہے، جب یہ نہیں ہوگی تو حالات مزید مخالف ہو جائیں گے، اس لئے جب تک شریف فیملی حالات کی سنجیدگی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنا کوئی خاص لائحہ عمل نہیں بناتی اور امور روز بروز کے مطابق چلائے جاتے ہیں تویہ حکمت عملی کوئی دانشمندانہ نہیں۔ نواز شریف بیرون ملک ہیں اور حالات کو پُر سکون ماحول میں بیٹھ کر دیکھ رہے ہوں گے، کاش وہ اس نکتے پر غور کریں کہ انہوں نے اپنی نااہلی کا فیصلہ آنے کے بعد عدلیہ کے پانچ ججوں کو براہ راست نشانہ بناکر اچھا کیا یا بُرا۔ ۔۔۔کوئی بتائے کہ اُن کی اس حکمت عملی نے انہیں یا مسلم لیگ (ن) کو کیا فائدہ پہنچایا؟۔۔۔ اگر کوئی مسلم لیگی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ان کی اس پالیسی کی بدولت مسلم لیگ (ن) عوام کی نظر میں مزید مقبول ہوگئی ہے تو یہ اُس کی احمقانہ سوچ ہے۔ پاکستان صرف لاہور کے حلقہ 120 پر مشتمل نہیں کہ جہاں اس نکتے کی بنیاد پر عوام کو میاں صاحب کے حق میں رام کرکے یہ تاثر دیا جائے کہ عوام نے سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کردیا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ اس طرح کیسے رد ہوسکتا ہے؟ یہ تو کوئی مسلم لیگ (ن) کا جیالا ہی بتاسکتا ہے، لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ پورا ملک بھی نواز شریف کے حق میں فیصلہ دے دے تب بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ خودبخود ختم نہیں ہوسکتا۔
اگر آئین کی حدود سے باہر جاکر انتشار کے ذریعے فیصلہ لیتے ہیں، تو یہ کوئی دانشمندی نہیں ہوگی، اس سے وہ پورا نظام بھی زمین بوس ہوسکتا ہے، جسے بڑی مشکل سے تنکا تنکا اکٹھا کر کے ایک چھتری بنایا گیا ہے۔ مشکل اور تبدیل شدہ حالات میں شریف فیملی کو بہت سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے ہوں گے۔ نواز شریف کے سامنے جو سب سے اہم ٹاسک ہونا چاہئے، وہ شریف فیملی کو بکھرنے میں بچاتا ہے۔ اِن حالات میں اگر کسی وجہ سے شریف فیملی میں دراڑ پڑ جاتی ہے، تو پھر شاید یہ بحران بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوگا۔۔۔ جوخبریں گردش کررہی ہیں، انہیں غلط ثابت کرنا شریف فیملی کا کام ہے۔
نواز شریف اور شہباز شریف نے مل کر مسلم لیگ (ن) اور حکومتوں کو چلایا ہے: لیکن اب شاید خاندانی وراثت کے مسئلے پر اختلافات جنم لے رہے ہیں۔
مریم نواز نے تن تنہا حلقہ 120 کی انتخابی مہم چلائی ہے، لیکن یہ صرف ایک حلقے کی بات ہے، جبکہ آنے والے دور میں پورا ملک انتخاب سے گزرے گا، شہباز شریف کا سپریم کورٹ کے فیصلے پر خاموش رہنا اور حمزہ شہباز کا عین موقع پر ملک سے باہر چلے جانا، پھر چودھری نثار علی خان کا مسلسل مریم نواز پر تنقید کرنا، سب کچھ اس دراڑ کی نشاندھی کررہا ہے، جو اندر خانے پڑچکی ہے۔
شریف خاندان متحد ہے تو مسلم لیگ (ن) بھی متحد رہے گی، لیکن اگر یہاں نااتفاقی جنم لیتی ہے تو پھر سیاسی وراثت کی تقسیم مسلم لیگ (ن)کے بھی حصے بخرے کردے گی۔ سیاستدانوں کے لئے مقدمات کوئی انہونی بات نہیں ہوتے، لیکن اصل انہونی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی سیاسی گرفت کمزور کربیٹھیں۔ نواز شریف کی نااہلی کے بعد شہباز شریف ایک بہترین متبادل ہیں، تاہم لگتا ہے نواز شریف نے اپنے فیصلے کسی اور کے ہاتھ میں دے دیئے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب اُردن کے شاہ حسین کینسر کے مرض میں آخری اسٹیج پر تھے، تو اُردن کی باگ دوڑ شہزادہ حسن کے ہاتھ میں تھی، جب ڈاکٹروں نے شاہ حسین کو بتادیا کہ اُن کی زندگی صرف چند روز باقی ہے تو وہ امریکہ سے چارٹر طیارے پر اُردن آئے، اپنے بیٹے عبداللہ کو باقاعدہ بادشاہت سونپی اور اگلے دن امریکہ چلے گئے، جہاں دو روز بعد اُن کا انتقال ہوگیا۔ اس آناً فاناً تبدیلی کو شہزادہ حسن حیرت و استعجاب سے دیکھتے رہ گئے۔
تو یہ کوئی نئی بات نہیں کہ اقتدار کی وراثت کو نواز شریف مریم نواز کو سونپنا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک بار یہ شہباز شریف کے پاس گئی تو پھر نواز شریف کو کوئی پوچھے گا بھی نہیں، مگر خارجی حالات کچھ اور ہی تقاضا کررہے ہیں۔ اس وقت شریف فیملی کا متحد رہنا سب سے اہم بات ہے، کیونکہ مشکل کا مقابلہ صرف اتحاد ہی سے کیا جاسکتا ہے، انتشار تو بذاتِ خود بہت بڑی مشکل ثابت ہوتا ہے۔