’’عمران خان، اصغر خان بن گئے ‘‘
کیا تم نے کل ہونے والے الیکشن کے سلسلے میں عمران خان کی لاہور کے مال روڈ پر ریلی دیکھی ہے، بھولے نے مجھ سے پوچھا، میں نے کہا وہ ریلی ہائی کورٹ کے فیصلے کی خلا ف ورزی تھی، ابھی تو ان سرخ سرخ اشتہاروں کو ردی میں بھی نہیں بیچا گیا ہو گا جن میں پنجاب کی حکومت اور لاہور کی انتطامیہ کی طرف سے ما ل روڈ کو ریڈزون قرار دیتے ہوئے وہاں ہر قسم کے احتجاج، جلسوں اور جلوسوں پر پابندی عائدکرنے کا اعلان کیاگیا تھا اور یہ پابندی حکومت یا انتظامیہ کی طرف سے نہیں تھی بلکہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی عدالت کے ایک مشہور فیصلے پر عملدرآمد کرانے کی خاطر تھی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ پابندی جس تاجر رہنما نعیم میر نے دیگر کے ہمراہ رٹ دائر کرتے ہوئے لگوائی تھی وہ نعیم میر مسلم لیگ نون سے تحریک انصاف کا سفر طے کرتے ہوئے دوبارہ مسلم لیگ نون کے حامی بن چکے ہیں۔عمران خان صاحب آج کل اپنے تئیں عدالتوں کے احترام کے سب سے بڑے داعی ، ترجمان اور محافظ بنتے ہیں حالانکہ وہ ہر سطح کی عدالت کے اشتہاری ہیں اور اب انہوں نے اس عدالتی فیصلے کوبھی اپنے کنٹینر کے ٹائروں تلے روند دیا، خان صاحب کے قول و فعل کے تضادات سنگین ہیں جو رفتہ رفتہ واضح ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
بھولے کایہ موضوع نہیں تھا، وہ سوشل میڈیا پر شئیر کی جانے والی ان ڈھیر ساری ویڈیوز سے پریشان تھا جس میں ریلی کا سر اور دم ایک ساتھ ہی نظر آ رہے تھے اور شرکاء کی اکثریت بتا رہی تھی کہ وہ دوسرے شہروں سے آئے ہیں۔بھولے کا موقف تھا کہ یہ ریلی حلقہ این اے ایک سو بیس کی ریلی تھی اور ما ل روڈپنجاب اسمبلی سے ناصر باغ تک اسی حلقے میں ہے۔لاہور میں اس سے پہلے بھی عمران خان صاحب کی ریلی ناکام ہوئی تھی جو انہوں نے شاہدرہ سے نکالی تھی اور مال روڈ پر آئے تھے ۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں میاں نوازشریف کو نااہل کر نے کے بعد مزنگ چونگی کا جلسہ بھی بری طرح ناکام ہوا تھا جس میں خان صاحب کی آمد کے بعد بھی لگائی ہوئی چند ہزار کرسیوں میں سے بہت ساری خالی پڑی تھیں اور اسے لاہور کے ایک صحافی نے جب ایکسپوز کیا تھا تواس کی وہ ویڈیو وائرل ہو گئی تھی۔ اب بھی تمام تر ویڈیوز میں شرکاء کی تعداد کو کم از کم ایک ہزار یا زیادہ سے زیادہ تین ہزار دیکھا اور بیان کیا جا سکتا ہے۔ سو، سوا سو کے قریب گاڑیوں میں سے اکثر گاڑیاں بالکل خالی تھیں اور ان شرکاء میں وہ تماشائی اور شہری بھی شامل تھے جو ہر وقت مال روڈ پر موجود ہوتے ہیں۔ اب اگر زیادہ سے زیادہ تین ہزار شرکاء میں سے بھی بڑی تعداد میں پشاور سے ملتان تک کے لوگ ہوں تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ ریلی حلقے کے انتخابی نتائج کی عکاسی کر سکتی ہے یا ان پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ کچھ حلقوں کی طرف سے پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ حلقے میں اپ سیٹ ہو سکتا ہے مگرانتخابی سرگرمیاں ہوں یا جائزہ رپورٹیں، وہ اس کی حمایت نہیں کرتیں۔میں نے بھولے سے کہا کہ عمران خان نے اسٹیلشمنٹ کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی بن کے بڑی غلطی کی ہے، وہ ایک کرشمہ ساز لیڈر کے طور پر ابھرے مگر انہوں نے اپنے تمام تر سیاسی اثاثے محض نواز دشمنی میں جھونک دئیے۔ پڑھے لکھے لوگوں نے ان سے پرانے نظام کو شکست دینے کی امید لگائی تھی مگروہ اس کے محافظ بن گئے۔ ہم ان کا تقابل اصغر خان کی مقبولیت اور زوال کے ساتھ کر سکتے ہیں، میں نے ائیر مارشل کے جلسے ،جلوس نہیں دیکھے مگرتاریخ کی کتابوں سے جانا کہ وہ بھی عوام کی امید بنے تھے۔
بھولے نے اعتراض کیا کہ میں صرف لاہور میں عمران خان کے جلسوں ، جلوسوں اور ریلیوں کی ناکامی پر ان کے اصغر خان بننے کا فتویٰ کیسے لگا سکتا ہوں، مجھے ہنسی آ گئی، میں نے کہا بھولے اگرہم لاہور ہی کے مینار پاکستا ن میں ہونے والے ایک جلسے میں عوام کی شاندار حاضری پر عمران خان کو ذوالفقار علی بھٹو جیسامقبول لیڈر قرار دے سکتے ہیں تو پھر لاہور میں ہی ناکام ترین جلسوں اورریلیوں کے بعد انہیں اصغر خان کیوں نہیں کہہ سکتے ، لاہور کا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا تھو تھو نہیں ہو سکتا، لاہور پاکستان کا سیاسی دل اور دماغ سمجھا جاتا ہے، جو لاہور کے دل اور دماغ پر قبضہ کر لیتا ہے وہ پاکستان کی سیاست پر قبضہ کر لیتا ہے مگر جواس کے دل اور دماغ سے نکل جاتا ہے تو وہ یہ سوال پوچھنے کے قابل بھی نہیں رہ جاتا کہ اسے کیوں نکالاگیا۔اب یہ بات صرف لاہور کی نہیں پورے پاکستان کی ہے۔ میں سکھر سمیت دیگر شہروں کے جلسوں کو اس لئے اہم نہیں سمجھتا کہ ان شہروں میں کسی بڑے لیڈر کا جلسہ ایک بڑی تفریح کا باعث بھی ہوتا ہے۔ ان میں پورا شہر ایک انٹرٹینمنٹ سمجھ کے امڈ آتا ہے مگر بڑے شہروں میں شرکاء کی اہمیت ہوتی ہے۔ عمران خان لاہور ہی نہیں بلکہ کراچی میں بھی ناکام ٹھہرے ہیں۔ میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے میاں نواز شریف کی نااہلی کو اپنی سیاسی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل سمجھتا ہوں اور اسی سنگ میل کے بعد جب نواز شریف جی ٹی روڈ سے لاہور کی طرف روانہ ہوئے تو عوام نے محبت اورحمایت کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی مگر نواز شریف کے لاہور پہنچنے کے اگلے ہی روز تیرہ اگست کی رات جب شیخ رشید احمد کی دعوت پر اسلام آباد میں پی ٹی آئی اور عوامی مسلم لیگ نے مُشترکہ اجتماع کیا تو وہاں پہلی مرتبہ پانچ ہزار لگائی ہوئی کرسیوں میں سے نصف کے قریب خالی نظر آئیں، جب عمران خان چکوال گئے تو وہاں ان کی ریلی مکمل طور پر فلاپ رہی، وہاں سے موصوف نے لاہور کا رخ کیا تو قرطبہ چوک ، جیل روڈ پر ہونے والے جلسے میں بھی خالی کرسیاں منہ چڑا رہی تھیں اور لندن میں بھارتی سرمایہ دار کی شادی میں شرکت کے بعد لاہور میں نکالی جانے والی ریلی نے تو ان کی مقبولیت کے زوال کو مکمل ایکسپوز کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ چھوٹی بات نہیں کہ جب پشاور کے شہری ڈینگی کا شکار ہو رہے تھے تو عمران خان اس وقت بھی عوام کے دکھ تقسیم کرنے کی بجائے مہرے بنے سیاست، سیاست کھیل رہے تھے۔ وہ اس سوچ اور اعتقاد سے بہت متاثر نظر آتے ہیں کہ اقتدار اسٹیبلشمنٹ دیتی ہے مگر وہ یہ بات نہیں سمجھ پا رہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ ووٹ ڈلوا سکتی تو پرویز مشرف کو ملک سے فرار کروانے کی بجائے اس کی آل پاکستان مسلم لیگ کو پارلیمنٹ کی ایک قوت بنا چکی ہوتی۔
بھولا ، عمران خان کو اصغر خان نہیں سمجھتا، وہ سمجھتا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی طر ف سے شریف فیملی کی نظرثانی کی درخواستیں مسترد ہونے کے بعدنواز شریف اصغر خان بن سکتے ہیں۔ بھولا تو بھولا ہے ، اسے یہ علم نہیں کہ آئین اور جمہوریت کے ساتھ کھڑے کسی سیاستدان کی سیاست کو ختم نہیں کیا جاسکتا، سیاستدان اس وقت ختم ہوتے ہیں جب وہ عوام، آئین اور جمہوریت کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں۔ایک تجزیہ ہے اگر نواز شریف کو بحال کر دیا جاتا تو وہ پھر مصلحت کا شکار ہوسکتے تھے مگر نظرثانی کی درخواستیں مسترد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نواز شریف کو ایک مرتبہ پھر جدوجہد کرنا ہو گی اور اس خیال کے ساتھ کرنا ہو گی کہ جس اسٹیبلشمنٹ کو انہوں نے ہمیشہ راستہ دیا، وہ انہیں راستہ دینے کے لئے تیار نہیں ۔ رہ گئی بات جناب عمران خان کی ،یہ درست کہ تفصیلی مطالعے میں جائیں تو عمران خان اور اصغر خان کی ناکامی کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں مگر عمران خان نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کے اپنی کامیابی اور عوامی مقبولیت کا تاثر دیا ہے ورنہ، ان کی یہ کامیابی بھی ان کی اپنی نہیں کسی دوسرے کی ہے۔ جب ہم جمہوری میدانوں میں لگنے والے سیاسی مقابلوں میں عمران خان صاحب کو دیکھتے ہیں تو وہاں یہ اپنے تمام تر بلند بانگ دعووں کے برعکس شریف خاندان کے بچوں سے بھی مات کھاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ آپ کو اگر اس سیاسی تجزئیے سے اتفاق نہیں ہے تو اب تک ہونے والے تمام ضمنی انتخابات کے نتائج اٹھا کے دیکھ لیجئے، پہلے حمزہ شہباز شریف عمران خان کو ناکام کر رہے تھے اور اب مریم نواز شریف کی انٹری نے خان صاحب کے ریلیوں ، جلسوں اور جلوسوں کی تمام رونق چھین ہے۔