فضل عباس میکن نے سیکرٹری نیشنل فوڈ سیکورٹی کے فرائض سنبھال لئے
کراچی (اسٹاف رپورٹر) فضل عباس میکن نے وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کے سیکریٹری کے طور پر فرائض سنبھال لئے۔ فضل عباس میکن وفاقی اور صوبائی سطح پر انتظامی امور کا وسیع تجربہ کے حامل ہیں۔ ان کی تقرری نیشنل فوڈ سیکورٹی کے دائرہ میں حکومتی کوششوں کو تقویت دے گی جو کھاد انڈسٹری کے تعاون سے زرعی ترقی پر مرکوز ہیں۔ ان کے بطور سیکریٹری تعیناتی پر کھاد کے شعبہ سے وابستہ شخصیات نے خوش آئند قرار دیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ ان کی تعیناتی سے زرعی شعبہ مزید ترقی اور بہتری کے راستے پر گامزن ہوگا اور وہ سبسڈی سے متعلقہ مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کریں گے جو ادائیگیوں میں طویل تاخیر کی وجہ سے کھاد انڈسٹری کے لئے بڑے مالیاتی چیلنجز کا باعث ہے۔ ان کی تقرری سے کھاد کی صنعت پر امید ہے کہ وہ اس مسئلہ کے ترجیحی بنیادوں پر حل کے لئے ٹھوس اقدامات کریں گے اور حکومت صنعت کو اس مسئلہ سے نکالنے کے لئے مربوط حکمت عملی اختیار کرے گی جو ملک میں زرعی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ حکومتی حکام کی جانب سے نافذ زیادہ معاون حکمت عملی 20 ارب روپے کی واپسی میں مددگار ثابت ہوگی جو کہ پیچیدہ عوامل کی وجہ سے مسلسل سبسڈی ادائیگیوں میں رکی ہوئی ہے۔ وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کے سبکدوش ہونے والے سیکریٹری عابد جاوید نے وزیراعظم آفس کی ہدایات کے مطابق التواء کا شکار رقوم جاری کرنے کا وعدہ کیا تھا تاہم آج تک کوئی رقم جاری نہیں کی گئی۔ امید ہے کہ وہ صنعت پر مالیاتی بوجھ کم کرنے کے لئے پہلے سیکریٹری کی جانب سے اٹھائے گئے اقدام پر کام تیز کریں گے۔ قبل ازیں وزیراعظم ہاؤس میں 24 جولائی 2017ء کو منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس جو وزیراعظم کے سیکریٹری فواد حسن فواد کی زیر صدارت منعقد ہوا تھا، میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ تمام سبسڈی کلیمز کا 80 فیصد فوری طور پر ادا کیا جائے گا اور بقایا 20 فیصد رقم تیسرے فریق کی تصدیق کے بعد تین ماہ کے اندر ادا کر دی جائے گی۔ فنانس ڈویژن اس مد میں پہلے ہی مطلوبہ رقم جاری کر چکا ہے اور اب باقی ماندہ رقم جاری کرنے میں کوئی بڑی رکاوٹ بھی نہیں ہے۔ تاہم اس حوالے سے غیر ضروری شق اس سکیم پر لگائی جا رہی ہے جس کے تحت حکومت ہر فرٹیلائزر ڈیلر سے نیشنل ٹیکس نمبر کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ شق یقینی طور پر قابل عمل نہیں ہے کیونکہ چھوٹے ڈیلرز کی ایک بڑی اکثریت (90 فیصد سے زائد) غیر رجسٹرڈ ہے اور ان کے پاس کوئی نیشنل ٹیکس نمبر نہیں ہے۔ مزید یہ کہ سبسڈی کلیمز سیلز ٹیکس پر مبنی ہیں جن کا نیشنل ٹیکس نمبر کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں۔ لہذا اس طرح کا اقدام کسانوں تک سبسڈی فوائد کی منتقلی میں یوریا ڈسٹری بیوٹرز کے لئے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ اس ضمن میں حکام نے بیرونی آڈٹ کا کام بھی شروع نہیں کرایا جو اس بحران کو حل کرنے کے لئے بہت ضروری جانا جاتا ہے۔ وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ نے کھاد کی صنعت بارے بیرونی آڈٹ کرانے کے لئے ابھی تک ریفرنسز بھی جاری نہیں کئے۔ اگرچہ کھاد کی صنعت کو کیش فلو کے کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان کمپنیوں نے بہت مثبت انداز میں کام کیا ہے اور یوریا کی قیمتوں کو مقامی مارکیٹ میں کم رکھا ہے۔ اگرچہ حکومت نے فی تھیلہ 100 روپے سبسڈی دینے کا وعدہ کیا ہے، کھاد پروڈیوسرز قیمتوں کو کم رکھنے کے لئے 106 روپے کی فی تھیلہ فراخدلانہ رعایت کے ذریعے حکومت کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ فرٹیلائزر مینوفیکچررز آف پاکستان ایڈوائزری کونسل کے ایک عہدیدار نے سبکدوش ہونے والے سیکریٹری کے ورکنگ ریلیشن اور دوستانہ رویئے کو سراہتے ہوئے انڈسٹری کی جانب سے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ سبسڈی کے بحران کو حل کرنے کے لئے حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ قومی معیشت میں کھاد انڈسٹری کے احسن کردار کی قدر کرے جو زرعی ترقی میں اہم کردار کے ذریعے سب سے زیادہ حصہ ڈالنے والی صنعت ہے۔ فرٹیلائزر کمپنیوں نے کیش فلو کے بڑے مسائل کے باوجود کسانوں کو رعایتی نرخوں پر کھادوں کی بلا تعطل فراہمی یقینی بنائی ہے۔ نئے سیکریٹری پر زور دیا گیا کہ وہ وہ سبسڈی بحران کا جلد حل تلاش کریں۔ وزارت خزانہ، ایف بی آر، سٹیٹ بینک اور وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ سے توقع ہے کہ وہ انڈسٹری پر مالیاتی دباؤ کم کرنے اور ضابطے کی پیچیدہ کارروائیوں کو آسان بنانے کے لئے کوششیں تیز کریں گے تاکہ کسانوں کو اس کا فائدہ یقینی طور پہنچایا جا سکے۔