قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 66
آخر میں اب یہ کہتاچلو ں کہ مجھ سے اپنے سلسلے میں اور عدم صاحب کے سلسلے میں جو کوتاہی ہو چکی ہیں ان کی تلافی کرنا چاہتا ہوں ۔ اپنے سلسلے میں ہونے والی کوتاہیوں کی تو یہ تلافی کر رہا ہوں کہ میں نے اپنے تمام مجموعے جمع کر کے اپنے دوستوں کے سپرد کر دیئے ہیں تاکہ وہ اس سے انتخاب کریں۔ ان دوستوں میں حضرت احمد ندیم قاسمی‘شہزاد احمد اور ڈاکٹر خواجہ زکریا ہیں۔ یہ تینوں دوست انتخاب کا کام تقریباً مکمل کر چکے ہیں اور اس کے بعد میرا یہ پروگرام ہے کہ میں عدم صاحب کے کلام سے خود انتخاب کروں۔ میں وہ کام بھی کرنا چاہتا ہوں ۔ دعا کیجئے کہ میں اس فریضے سے بھی سبکدوش ہو سکوں جو کام ان کے ذمے کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ سوچتا ہوں کہ وہ کام میں کر جاؤں ۔ اگر اب ہو سکا تو میں سمجھوں گا کہ میں بھی عدم صاحب کا بیٹا ہوں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ عدم صاحب ایک ایسے بزرگ تھے کہ انہوں نے اپنی شفقتوں کے طفیل اپنے سے نیچے سب جونیئر افراد کو یہی مقام دے رکھا تھا۔ عدم صاحب کے سلسلے میں آگے چل کر کہوں گا کہ وہ کتنے ‘دلچسپ ‘ مشفق اور معصوم انسان تھے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان کے سلسلے میں بعض کہانیاں مسالغہ آرائی کی حد تک بڑھا کر سنائی جاتی ہیں۔
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 65 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دو کمیونسٹ دوست
جن دنوں میری رہائش راولپنڈی میں تھی ‘ حسن طاہر صاحب بھی اس زمانے میں راولپنڈی ہی میں رہتے تھے۔ انتہا پسند ہیں بلا کے‘ کسی میدان میں قدم رکھ لیں تو وہاں قدم قدم سفر نہیں کرتے بلکہ چھلانگ لگا کر منزل تک ایک ہی جست میں پہنچنا چاہتے ہیں۔ایک زمانے میں جب وہ کمیونزم کی طرف مائل تھے اور پارٹی کا کام باقاعدہ کر رہے تھے تو ہمارے مکان راولپنڈی اور ہری پور دونوں جگہ ہی تھے۔ ان دنوں میں ہری پور والے اپنے مکان کی بالائی منزل میں تھا جب مجھے پتا چلا کہ نیچے کوئی میرے دوست آئے ہیں جن کا نام حسن طاہر ہے۔ میں نے انہیں اوپر اپنے پاس ہی بلوالیا۔
آتے ہی کہنے لگے’’ دیکھئے قتیل صاحب! چاہے آپ اچھا سمجھیں یا برا سمجھیں میں آپ کو ایک بات بتا دوں کہ میں خدا کو نہیں مانتا‘‘
میں ہنس دیا اور میں نے کہا ’’ طاہر صاحب! اس کا میری ذات سے کیا تعلق ہے ۔ یہ تو آپ جانیں کہ آپ کو خدا کو ماننا چاہئے یا نہیں۔ آپ اگر مانیں گے یا نہیں مانیں گے تو اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ مجھے آپ ان لوگوں میں شمار نہ کریں جو آپ کی رائے سے اختلاف کر کے آپ کو چھرا مار دیں گے۔ جب تک آپ میرے پاس بیٹھے ہیں آپ میرے دوست ہیں۔ اس لئے آرام سے بیٹھیں اور کھل کر بات کریں‘‘
کہنے لگے’’ نہیں میں اس لئے آپ سے یہ بات کر رہا ہوں کہ اگر آپ کو میرا خدا کو نہ ماننا نا گوار ہو تو میں یہاں سے واپس چلا جاؤں‘‘ میں نے انہیں اٹھا کر سینے سے لگا لیا اور کہا’’ آپ کیسی باتیں کرتے ہیں۔ میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ آپ حسن طاہر ہیں اور میں قتیل شفائی اور ہم دونوں آپس میں دوست ہیں‘‘
ایک وہ زمانہ تھا اور ایک زمانہ اس کے بعد میں آیا۔ یہ 1950 ء کے لگ بھگ کی بات ہے۔ میں لاہور میں اپنے مصری شاہ گھر میں رہتا تھا۔ میں نے بیٹھک ہی میں ایک پلنگ بچھوایا ہوا تھا جس پر گول تکیہ رکھ کر میں رات کو دیر تک بیٹھا لکھا کرتا تھا۔ اس روز چونکہ گرمی زیادہ تھی میں نے باہر کا دروازہ کھلا چھوڑ رکھا تھا البتہ اس کی چک گری ہوئی تھی۔ رات کے تقریباً گیارہ بجے ہوں گے جب اچانک چک اٹھی اور دو اشخاص کچھ اس انداز سے کمرے میں داخل ہوئے جیسے ڈاکو داخل ہوتے ہیں۔ ایک آدمی کے ہاتھ میں ٹارچ تھی جبکہ دوسرے آدمی کے ہاتھ میں کچھ کاغذات تھے۔ دونوں کے سر کے بال اور داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔ میں پہلی نظر میں تو پہچان نہ سکا لیکن غور سے دیکھا تو پتا چلا کہ ایک حسن طاہر ہیں اور دوسرے مصور علی امام۔ دونوں دوستوں کو یوں اچانک سامنے پا کر بہت خوشی ہوئی۔
میں نے مذاق سے کہا ’’ کیا آپ لوگ اس وقت سٹوڈیو سے آرہے ہیں‘‘ کہنے لگے ’’ کون سا سٹوڈیو‘‘
میں نے کہا’’ جہاں آپ میک اپ کر کے یہ داڑھیاں لگا کرآئے ہیں‘‘ سمجھ گئے اور میرے مذاق سے محظوظ ہوئے۔ بیٹھ گئے اور پھر انہوں نے بتایا کہ وہ حکومت کی نظر سے چھپے ہوئے ہیں اورانڈر گراؤنڈ ہیں۔پھر کہا کہ ہم آج لاہور آئے ہیں اور آپ کے پاس رہائش اختیار کریں گے۔ میں نے کہا کہ بسم اللہ ۔ شوق سے ٹھہریئے۔
یہاں میں پھر یہ بتاتا چلوں کہ میرا کمیونسٹ پارٹی سے کبھی تعلق نہیں رہا۔ لیکن میں ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہا اور جتنی پروگریسو تحریکیں ہوتی تھیں ان میں میں عملی شکل میں بھی موجود ہوتا تھا اور ان لوگوں کے ساتھ ہمدردی بھی ہوتی تھی۔ کمیونسٹوں سے لوگوں کو جو نفرت ہے اور کمیونزم کو پوری طرح نہیں جانتے۔ ان جیسا میرا رویہ نہیں رہا۔ میرا نفرت کا رویہ تو دائیں بازو کی ان سیاسی جماعتوں سے بھی نہیں رہا جن کا مذہب ہی میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی ہے اور وہ مذہب کو استعمال بھی کرتے ہیں۔ میں سمجھتا کہ یہ ان کا طریق کار ہے ۔ شاید وہ بھی اسی منزل پر جا پہنچیں جہاں بائیں بازو والے پہنچنا چاہتے تھے ۔ ممکن ہے کہ مقصد سب کا نیک ہو ۔ اگر نیک نہ بھی ہو تو کبھی مجھے کسی سے نفرت نہیں ہے۔ میں بہرحال ہمیشہ بائیں طرف کے لوگ سے ہمدردی رکھتا رہا ہوں۔
چنانچہ ان دونوں صاحبان کو میں نے بٹھایا۔ پھران کے بارے میں غور سے سوچا ۔ اس وقت میرے پاس چار کمرے تھے اور بچے بھی چار ہی تھے۔ ایک کمرے میں تو میں الگ سے اپنا ڈیرہ جما کر رہتا تھا اور اس میں بھی کسی کو مداخلت نہیں کرنے دیتا تھا۔ ایک اس کے ساتھ والا کمرہ تھا جہاں میری بیوی اور بچے سب رہتے تھے۔ انہی کمروں کے پیچھے دو کمرے تھے جن میں سے ایک کو ہم سٹور کے طور پر استعمال کرتے تھے اور ایک کو مہمانوں کیلئے رکھا ہوا تھا ۔ میں نے اپنے بیوی بچوں کو پچھلے کمرے میں شفٹ کر دیا اور انہیں اپنے ساتھ والے کمرے میں ٹھہرالیا جس کی کھڑکیاں باہر کی طرف کھلتی تھیں۔
یہ دن کے وقت وہیں رہتے تھے اور اگر کبھی دل چاہتا تو شام کے بعد میرے ساتھ گھوم لیتے تھے۔ علی امام جب تک جاگتے تھے ۔ بیٹھے واٹر پینٹنگز بناتے رہتے تھے۔ حسن طاہر کوئی کتاب لے کر پڑھتے رہتے تھے اور میں حسب معمول مشق سخن کرتا رہتا تھا جو کہ میرا زندگی کا معمول رہا ہے۔ ان دنوں سی آئی ڈی میں ایک صاحب ہوتے تھے جن کا نام شوکت محمود تھا اور بلحاظ عہدہ سب انسپکٹر تھے ۔ یہ گوجرانوالہ کے تھے اور چونکہ میرا تعلق راولپنڈی سے تھا اس لئے اس حوالے سے میرے دوست بن گئے تھے اور میرے پاس آتے رہتے تھے۔ ان کے اصل مقاصد تو ظاہر ہے پیشہ ورانہ تھے لیکن ہوتے ہوتے ان سے کچھ دوستی بھی بن گئی تھی۔ جب حسن طاہر اور علی امام میرے گھر آئے تو ان کے کوئی تیر ہویں دن ان کا میرے گھر آنا ہوا۔ میرے دل میں وہم پیدا ہوا کہ یہ کہیں کوئی گڑبڑ کرنے نہ آئے ہوں۔ پھر جب وہ آئے تو کہنے لگے’’ قتیل صاحب ! حسن طاہر اور علی امام لاہور میں آئے ہوئے ہیں‘‘
میرا دل دھک سے رہ گیا لیکن میں نے سنبھلتے ہوئے کہا ’’ اچھا تو وہ کہاں ہیں‘‘
کہنے لگے ’’ آپ سے مدد لینی ہے۔ آپ کے ساتھ اتنے تعلقات بھی بن چکے ہیں اور یہ ایسا موقع ہے کہ میں سوچتا ہوں کہ آپ کی کچھ خدمت بھی کر سکوں ۔ اگر آپ ان کی گرفتاری میں مدد کریں تو پیسوں کے علاوہ میں آپ کو ایک لائسنس والا پستول اور سند بھی دلوا سکتا ہوں‘‘
میں نے کہا’’ جی چھوڑئیے! آپ لوگوں سے جھوٹے وعدے نہ کیا کیجئے‘‘
کہنے لگے’’ لائیے ہاتھ۔ یہ میرا مردوں والا وعدہ ہے‘‘ میں یہ سمجھ رہ تھا کہ شاید انہیں پتا چل گیا ہے کہ یہ دونوں میرے گھر میں ٹھہرے ہوئے ہیں اور اسی لئے یہ مجھے لالچ دے رہا ہے۔ دراصل انہیں بالکل نہیں پتا تھا کہ یہ لوگ میرے گھر میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس وقت بھی وہ دونوں میرے گھر میں موجود تھے اور دوسرے کمرے میں دروازے کے ساتھ کان لگائے یہ ساری باتیں سن رہے تھے۔
میں نے کہا ’’ اچھا جی آپ نے قول دیا ہے تو مجھے اب وہ تین دن کی مہلت دیں میں انہیں گرفتار کروادوں گا‘‘۔
کہنے لگے ’’ یہ قومی کام ہے اس لئے ضرور کیجئے ‘‘ خیر وہ چائے وغیرہ پی کر رخصت ہو گئے۔
بعد میں حسن طاہر اور علی امام میرے پاس آگئے۔ ان کا خیال تھا کہ اس سب انسپکٹر نے ہمیں دھوکہ دینے کیلئے یا کسی اور وجہ سے آج یہ ظاہر نہیں کیا کہ اسے معلوم ہے کہ یہ دونوں یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ لیکن ممکن ہے کہ یہ کل ہی یہاں آکر ان دونوں کو گرفتار کروا دے۔ چنانچہ انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہمیں آپ یہاں سے نکالئے اور کسی اور جگہ ہماری رہائش کا انتظام کیجئے ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔
میں اپنے ایک دوست قمر اجنالوی کے پاس گیا۔ یہ آج کل روزنامہ ’’مغربی پاکستان ‘‘ کے ایڈیٹر ہیں۔ یہ ان دنوں ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے اور کرشن نگر میں رہتے تھے۔ ان سے میں نے کہا کہ کوئی اور انتظام ہونے تک آپ ان دونوں کو اپنے گھر رکھیئے ۔ کہنے لگے کہ بالکل بھیج دیں۔ چنانچہ میں ان دونوں کو لے کر کرشن نگر پہنچا اور ان کے گھر میں انہیں چھوڑا ۔
اس کے تیسرے ہی دن قمر صاحب بھاگتے ہوئے میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میرے مکان کے آس پاس سی آئی ڈی کے آدمی گھومتے ہوئے نظر آئے ہیں۔ اس لئے آپ ان دونوں کے لئے فوری طور پر کوئی انتظام کیجئے۔ میں نے شریف صاحب سے بات کی جو ’’انجم ‘‘ رسالہ نکالتے تھے اور جن کا دفتر رائل پارک میں تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ انہیں لے آئیے۔ میں ان دونوں کو لے کر وہاں پہنچا ۔ وہاں رہنے کے بعد ان دونوں نے سوچا کہ لاہور میں چھپ کر رہنے سے کیا فائدہ ہے۔ کوئی کام کاج تو ہو نہیں رہا جبکہ انہیں تو کسانوں اور مزدوروں میں جا کر کام کرنا ہوتا تھا اور بقولِ ان کے وہ بہت سا مفید کام کر چکے تھے۔ تو اچانک انہوں نے راولپنڈی جانے کا فیصلہ کیا اور چپ چاپ لاہور سے روانہ ہو گئے۔
اس کے چند دن بعد پتا چلا کہ وہ ندی لئی کے کنارے بیٹھے کپڑے دھورہے تھے کہ پولیس نے انہیں وہاں سے گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد وہ نظر بند بھی رہے۔ علی امام تو اس کے بعد جب حالات نارمل ہوئے تو خود بھی وہ نارمل ہوئے۔ وہ کراچی میں چلے گئے اور وہاں جا کر انہوں نے اپنے آرٹ کے فروغ کے لئے کام کیا اور اس وقت علی امام ہمارے ملک کے بڑے آرٹسٹوں میں سے ایک ہیں اور بڑی متوازن زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی گھریلو زندگی ہی نہیں بلکہ فنی اور سوشل زندگی بھی بڑی خوبصورت ہے۔ حسن طاہر صاحب کو کچھ عرصہ بعد دیکھا کہ پانچ وقت کی نماز پڑھ رہے ہیں اور مذہب کی ذرا سی بھی بات کیجئے تو اس جوش و جذبے کے ساتھ مذہب کی حمایت شروع کر دیتے ہیں جیسے وہ کمیونزم کے حق میں بات کرتے تھے۔ جیسے کہ میں نے کہا کہ وہ ہر میدان میں انتہا پسندی سے کام لیتے ہیں۔ نمازی بننے کے کچھ عرصہ کے بعد ہم نے دیکھا کہ وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں لیکچر ار ہوئے۔ وہ اپنی پوری سروس گزار کر اب ریٹائرمنٹ لے چلے ہیں اور علامہ اقبال ٹاؤن میں رہتے ہیں۔ مگر اب وہ نہ تو انتہا پسند Leftist ہیں اور نہ ہی انتہا پسند Rightist ہیں۔ اب ان کی زندگی میں بھی توازن پیدا ہو چکا ہے اور کہیں بھی کوئی اچھی چیز ہو تو اس کی تعریف کرتے ہیں۔ ان کی روشن خیالی اپنی جگہ قائم ہے اور میری ان کے لئے دعا ہے کہ وہ ہمیشہ روشن خیال رہیں اور انسانیت پر ست رہیں ۔ جہاں تک مذہب کا تعلق ہے تو اسے جس طرح اقبال نے سمجھا اگر اس طرح کا مذہب ہو تو اس سے بہتر کوئی چیز نہیں اور سوشلزم یا کمیونزم اگر اس طرح کا ہو جس طرح حسرت موہانی نے اسے قبول کیا تو اس سے بہتر بھی کوئی چیز نہیں۔
یہاں یہ بتاتا چلوں کہ پارٹیشن سے پہلے حسرت موہانی جب ساتواں حج کر کے لاہور ریلوے سٹیشن پر اترے تو انہوں نے اپنے طویل انٹرویو میں کہا تھا ’’ سات حج کرنے کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں جو آئندہ قائم ہونے والا معاشی نظام ہے وہ سوشلزم ہے ‘‘
ایک کمیونسٹ مولانا بھی تھے:
ہے مشق سخن جاری ‘ چکی کی مشقت بھی
وہ پانچ وقت کے نمازی تھے لیکن معاشی نظام سوشلزم کا چاہتے تھے ۔ ایسا سوشلزم میں بھی چاہتا ہوں اور ایسا مذہب میں بھی چاہتا ہوں جو کہ علامہ اقبال کا تھا اور جس میں ملائیت نہیں تھی۔ مسلم عقائد رکھنے کے سلسلے میں میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ اللہ کے فضل و کرم سے میں نے عمرہ بھی کیا ہے اور یہ سرکاری خرچ پر نہیں کیا بلکہ اپنے خرچ پر کیا ہے۔ اس طرح میں ایک راسخ العقیدہ مسلما ن بھی ہوں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ معاشی حد تک سوشلزم سے بہتر کوئی نظام نہیں ہے۔ دین اپنی جگہ ہے اور سیاسی و معاشی نظام اپنی جگہ ہے۔
(جاری ہے , اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)