نوازشریف نااہلی کیس،فل کورٹ سے فیصلہ لینے کا ایک راستہ ابھی کھلا ہے ،صدر سپریم کورٹ کو ریفرنس بھیج سکتے ہیں
تجزیہ -سعید چودھری :سپریم کورٹ کے 5رکنی بنچ نے پاناما لیکس کیس میں سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف ان کی بیٹی ،بیٹوں ،داماد اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی نظر ثانی کی درخواستیں خارج کردی ہیں ۔اس بابت ابھی مختصر فیصلہ جاری کیا گیا ہے ،سپریم کورٹ کے اس بنچ نے پاناما لیکس کیس میں میاں محمد نوازشریف کو عوامی نمائندگی ایکٹ اور آئین کے آرٹیکل 62(1)ایف کے تحت 28جولائی کو نااہل قرار دیاتھاجس کے خلاف دائر کی گئی نظر ثانی کی درخواستیں 15ستمبر کو مسترد کردی گئیں۔سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کی اور اپنی اوریجنل جیورسڈکشن میں سماعت کرکے فیصلہ سنایا تھا ،سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہیں ہوسکتی محض نظر ثانی کی درخواست دائر ہوسکتی ہے جس میں صرف عدالتی فیصلے میں موجود قانونی نقائص کی نشاندہی کی جاسکتی ہے ۔سپریم کورٹ میں براہ راست سنے جانے والے کیس میں عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کا حق نہ ہونے پر وقتاً فوقتاً آوازیں اٹھتی رہتی ہیں تاہم اس بابت کوئی آئینی ترمیم کرکے متاثرین کو اپیل کا تاحال کوئی حق تفویض نہیں کیا گیا ہے ،حالانکہ سپریم کورٹ آرمی ایکٹ اور فوجی عدالتوں کے مقدمات میںخود قراردے چکی ہے کہ اپیل کا حق نہ دینا انصاف کے تقاضوں کے منافی اور اسلامی احکامات سے متصادم ہے ۔نوازشریف کے وکیل بھی نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ کے سامنے کہہ چکے ہیں کہ انہیں اپیل کے حق سے محروم کیا گیا۔عمومی تاثر یہی ہے کہ آئین کے آرٹیکل62(1)ایف کے تحت نااہلی دائمی ہے ۔میاں محمد نوازشریف کے وکیل نے نظر ثانی کی درخواستوں میں یہی نکتہ اٹھایا تھا تاہم فاضل بنچ نے ریمارکس دیئے تھے کہ کہاں لکھا ہے میاں محمد نوازشریف کو تاحیات نااہل کیا گیا ہے ؟ہوسکتا ہے سپریم کورٹ نظر ثانی کیس کے اپنے تفصیلی فیصلے میں اس بابت کوئی آبزرویشن بھی جاری کرے ۔سردست تو یہی نظر آتا ہے کہ میاں محمد نوازشریف عوامی نمائندگی کے لئے دائمی طور پر نااہل ہوچکے ہیں ۔آئین کے آرٹیکل 62(1)ایف میں نااہلی کی کوئی معیاد مقرر نہیں ہے اس لئے اس آرٹیکل کی زد میں آنے والے افراد کو دائمی نااہل تصور کیا جاتا ہے تاہم بعض ماہرین اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ نااہلی صرف ایک مرتبہ کے لئے ہوتی ہے اور متاثرہ شخص دوبارہ الیکشن لڑنے کا اہل ہوتا ہے ۔سپریم کورٹ نے بھی نظر ثانی کی درخواستوں کی سماعت کے دوران ایسے ریمارکس دیئے جن سے لگتا ہے کہ اس آرٹیکل کے تحت دائمی نااہلی پر سوالیہ نشان موجود ہے ۔شریف خاندان کے پاس اپیل کا حق تو موجود نہیں ہے تاہم مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے پاس ایک اختیار موجود ہے جس کے تحت وہ اس معاملے کو دوبارہ سپریم کورٹ میں لے جاسکتی ہے ۔آئین کے آرٹیکل186کے تحت صدر مملکت کسی بھی قانونی سوال پر سپریم کورٹ سے مشاورت طلب کرسکتے ہیں ۔اگر اس حوالے سے صدر مملکت کوئی ریفرنس سپریم کورٹ کو بھیجتے ہیں تو اس کی کھلی عدالت میں عام مقدمات کی طرح باقاعدہ سماعت ہوتی ہے جس کے بعد عدالت فیصلے کی طرز پر اپنی رائے دیتی ہے ۔آئین کے آرٹیکل186میں واضح کیا گیا ہے اگر کسی وقت صدر یہ خیال کرے کہ عوامی اہمیت کے کسی قانونی سوال پر سپریم کورٹ کی رائے حاصل کرنا مطلوب ہے تو وہ اس سوال کو غور کے لئے سپریم کورٹ کے سپرد کرے گااور سپریم کورٹ سپرد کئے گئے سوال پر غور کرے گی اور اپنی رائے کی صدر کو رپورٹ پیش کرے گی ۔صدر مملکت آئین کے آرٹیکل62(1)ایف کی تشریح کا معاملہ ایک سوال کی شکل میں سپریم کورٹ کو بھیج سکتے ہیں اور سپریم کورٹ سے استفسار کرسکتے ہیں کہ کیا اس آرٹیکل کے تحت کسی رکن اسمبلی کی نااہلی دائمی ہوگی ؟ کیا اس آرٹیکل کے تحت نااہل قرار دیا گیا شخص تاحیات الیکشن نہیں لڑسکتا ؟ماضی میںصدر کی طرف سے بھیجے گئے ریفرنسز کی سماعت کے لئے فل کورٹ تشکیل دیئے جانے کی روایت موجود ہے ۔اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کے تقرر کے حوالے سے بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں صدر کی طرف سے بھیجے گئے ریفرنس کی سماعت اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں قائم فل بنچ نے کی تھی ۔اسی دور کے صدارتی ریفرنس نمبر 2کی سماعت فل کورٹ نے کی تھی ۔پیپلز پارٹی کے آخری دور حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو کیس ری اوپن کرنے کے حوالے سے بھی صدارتی ریفرنس بھیجا گیا تھا جو ابھی تک سپریم کورٹ میں زیرالتواءہے ۔آئین کے آرٹیکل 186کے تحت سپریم کورٹ صدر کی طرف سے بھیجے گئے ریفرنس پر اپنا مشاورتی اختیار سماعت استعمال کرتی ہے اور سپریم کورٹ کی کسی صدارتی ریفرنس پر رائے کی وہی اہمیت ہے جوعدالت عظمیٰ کے فیصلوں کو حاصل ہوتی ہے اور آئین کے آرٹیکل 190کے تحت پاکستان بھر کی انتظامیہ اور عدالتیں ان پر عمل درآمد کی پابند ہوتی ہیں۔حکومت کے پاس نوازشریف کی نااہلی کے عدالتی فیصلے کو غیرموثر بنانے کے لئے آئین میں ترمیم کا اختیار بھی ہے تاہم اس کے لئے اسے پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت درکار ہوگی ۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آرٹیکل62(1)ایف کا شمار آئین کی اسلامی شقوں میں ہوتا ہے جبکہ اس آرٹیکل میں اسلام کا کہیں ذکر موجود نہیں ۔سپریم کورٹ آئین کے اسلامی احکامات کو بنیادی ڈھانچہ کا حصہ قرار دے چکی ہے جس میں ترمیم نہیں کی جاسکتی تاہمچیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار اورسپریم کورٹ کے سینئر ترین جج مسٹر جسٹس آصف سعید خان کھوسہ فوجی عدالتوں کے کیس میں آئین کے بنیادی ڈھانچے کے تصور کو قبول کرنے سے انکار کرچکے ہیں اور قرار دے چکے ہیں کہ پارلیمنٹ کو ہر قسم کی آئینی ترمیم کا اختیار حاصل ہے ۔اگر کوئی سیاسی جماعت بنیادی آئینی ڈھانچے میں کسی ترمیم کو اپنے انتخابی منشور میں شامل کرتی ہے تو اسے پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت کے ساتھ یہ ترمیم کرنے کا حق مل جائے گا۔آئین کے آرٹیکل 62(1)ایف کو بنیادی آئینی ڈھانچے کا حصہ بھی تصور کرلیا جائے تو اس میں ترمیم کا راستہ موجود ہے ،اگر مسلم لیگ (ن) اپنے انتخابی منشور میں آرٹیکلز 62اور63میں ترمیم کی تجویز شامل کرلے اورپھر وہ آئندہ عام انتخابات میں اکثریت بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو وہ اپنے منشور کے مطابق آئین میں ترمیم کرنے میں آزاد ہوگی جیسا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سیاسی جماعت نے صدارتی نظام کے نفاذکو اپنے منشور کا حصہ بنارکھا ہے جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلوں میں پارلیمانی طرز حکومت کو بنیادی آئینی ڈھانچے میں شامل کیا گیا ہے ،اس کا مطلب ہے اگر صدارتی نظام کے نعرے پر کوئی سیاسی جماعت عوامی مینڈیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو وہ اس بابت آئین میں ترمیم کرنے کی بھی مجاز ہوگی۔