کراچی میں جرائم کی شرح بہت بڑھ چکی ہے،فردوس شمیم نقوی

کراچی میں جرائم کی شرح بہت بڑھ چکی ہے،فردوس شمیم نقوی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کراچی (اسٹاف رپورٹر)پاکستان تحریک انصاف کراچی کے صدر و نامزد قائد حزب اختلاف سندھ فردوس شمیم نقوی اوررکن سندھ اسمبلی خرم شیر زمان نے کہا ہے کہ کراچی میں جرائم کی شرح بہت بڑھ چکی ہے۔شہر میں چارسو شہریوں پر ایک پولیس والا مقرر ہے ۔ اسمارٹ سٹی اور کمپیوٹرائزڈ مانیٹرنگ کی جائے تاکہ جرائم کم ہوں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو پارٹی سیکرٹریٹ ’’انصاف ہاؤس‘‘ کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس موقع پر اراکین سندھ اسمبلی ملک شہزاد اعوان ،علی عزیز جی جی اور سیکریٹری اطلاعات پی ٹی آئی کراچی شہزاد قریشی بھی موجود تھے۔ فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ کراچی میں جرائم کی شرح بہت بڑھ چکی ہے۔ کراچی کی مشہور مارکیٹ میں پانچ گن مین پندرہ منٹ تک بندوقیں تانے پورے بازار کو لوٹ لیتے ہیں۔ ماؤں کی گود سے بچے چھین لیے جاتے ہیں۔ کیمرے سب ناکارہ لگائے ہوئے ہیں کیونکہ تصاویر صحیح نہیں آتیں۔ شہر کو محفوظ بنانے کے لیے جتنا پیسہ لگایا گیا سب برباد ہوا۔ سی سی پی او کہتے ہیں کہ کیمروں کا معیار ناقص ہے۔ تصاویر سے مجرم پہچانے نہیں جاسکتے۔ سی ایم صاحب اور آئی جی سندھ نے بیان دے دیا کہ ریپڈ فورس بن رہی ہے۔ یہ فورس کب آئے گی، کچھ پتہ نہیں۔ شہر کراچی میں بڑھتے ہوئے جرائم کوئی نیا مسئلہ نہیں۔ کوئی بڑا واقعہ ہو تو میڈیا پر آجاتا ہے۔ میری میڈیا سے درخواست ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر شہر کراچی کی کرائم رپورٹ شائع کریں۔ کے پی کے میں دور بیٹھ کر ایف آئی آر درج ہوسکتی ہے، یہ سسٹم کراچی میں بھی لایا جائے۔ آج موبائل فون چھینے جانے پر کوئی رپورٹ درج نہیں کرواتا کیونکہ اس میں اس کا وقت ضائع ہوگا۔ رپورٹ کردہ جرائم سے اصل میں ہونے والے جرائم دگنے ہیں۔ محرم میں ڈبل سواری پر پابندی اس مسئلے کاحل نہیں ہے۔ سندھ میں تربیت یافتہ پیشہ ور پولیس نہیں ہے۔ کراچی میں چارسو شہریوں پر ایک پولیس والا مقرر ہے ۔ اسمارٹ سٹی اور کمپیوٹرائزڈ مانیٹرنگ کی جائے تاکہ جرائم کم ہوں۔ کیمرے اتنے بہترین ہوں کہ گاڑیوں کی نمبر پلیٹ بھی دیکھی جاسکے۔ جرم کے مابعد اثرات پر کوئی غور نہیں کرتا۔ بچے ٹراما کا شکار ہوجاتے ہیں اور جس کے پیسے لٹ جاتے ہیں وہ ایک عرصے تک مقروض رہتاہے۔ جرائم کی روک تھام اولیت رکھتی ہے اور اس مسئلے پر توجہ نہیں دی جارہی۔ جب تک اس کے خلاف لائحہ عمل نہیں بنے گا، اس وقت تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔