عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 70

عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 70
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 70

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اس نے قاسم کو باہر دروازے پر کھڑا نہ کیا بلکہ ہم وطن بھائی ہونے کے ناطے اندر لئے چلا گیا۔ رومیل نے گھر میں داخل ہوتے ہی اپنی بیوی کو پکارنا شروع کر دیا۔
’’بریٹا! بریٹا!۔۔۔بریٹا کہاں ہو تم؟ ارے دیکھو ہمارے گھر کون آیا ہے۔‘‘
یہ ایک چھوٹا سا گھر تھا جس کی چار دیواری میں تین چار کمروں کی ایک سادہ سی عمارت تھی۔ ایک کمرے میں سے چھ سات سال کاایک بچہ نکل کر باہر کی طرف دوڑا۔ یہ رومیل کا بیٹا تھا جس کا نام رومیل نے سلطان مراد بتا کر قاسم کو حیران کر دیا تھا۔ اب لڑکا سامنے اایا تو قاسم کو رومیل کی بات پر یقین ہونے لگا۔ لڑکا دوڑتا ہوا اپنے باپ کے ساتھ آکر چمٹ گیا۔ رومیل نے ہنستے ہوئے اپنے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور قاسم سے کہا۔
’’یہی ہے میرا بیٹا جس کا نام میں نے سلطان مراد رکھا ہے۔ لیکن اب میں اسے سولٹن کہہ کر پکارتا ہوں۔۔۔‘‘

عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 69 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
رومیل نے ابھی بات مکمل نہ کی تھی کہ اس کی بیوی کمرے سے نمودار ہوئی۔ یہ ایک حسین و جمیل کم عمر خاتون تھی۔ قاسم نے رومیل کی بیوی کو دیکھا تو اس کے ذہن میں بریٹا کا لفظ گردش کرنے لگا جو ابھی کچھ دیر پہلے رومیل نے اپنی بیوی کے نام کے طور پر پکارا تھا۔ اسے یہ لفظ جانا پہچانا سا محسوس ہوا۔ لیکن اسے کچھ یاد نہ آیا۔ رومیل کی بیوی نزدیک آئی اور اس نے قاسم کو حیرت کے ساتھ دیکھتے ہوئے جھک کر سلام کیا۔ رومیل نے تعارف کرایا۔
’’یہ ہے میری بیوی بریٹا!۔۔۔اور یہ ہیں مورگن صاحب۔ ہمارے مہمان۔ بوسنیا کے سابق شاہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘
قاسم کا تعارف سن کر بریٹا کی مارے خوشی کے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ وہ بہت خوش ہوئی کچھ دیر تعارفی اور دعائیہ کلمات ادا ہونے کے بعد رومیل اور بریٹا اپنے نئے مہمان کو لئے اندر چلے گئے۔
کھانے کے دستر خوان پر بریٹا نے بہت سی چیزیں رکھ دیں۔ آبنائے باسفورس کی مرغابیوں کے بھنے ہوئے گوشت کے علاوہ بوسنیائی طرز پر بنائے گئے کباب بھی موجود تھے۔ قاسم کی بھوک بھی چمک اٹھی۔ لیکن اس نے کھانا شروع کرنے سے پہلے رومیل سے پوچھا۔
’’آپ نے ابھی تک نہیں بتایا کہ آپ نے ایک راسخ العقیدہ عیسائی ہو کر بھی اپنے بیٹے کا نام سلطان مراد کیوں رکھا؟۔۔۔مجھے آپ کی وضاحت کے ساتھ خاصی دلچسپی ہے۔‘‘
قاسم نے مسکراتے ہوئے کہا تو بریٹا اور رومیل بھی ہنس دیئے۔ اور پھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد رومیل نے بات شروع کی۔
لیکن اس نے ابھی چند جملے ہی کہے تھے کہ قاسم کے ہاتھ سے کھانے کا نوالہ گرتے گرتے بچا۔۔۔رومیل نے کہا تھا۔
’’دراصل میرا بچہ جس وقت پیدا ہوا۔ اس وقت سلطان مراد کی فوج بوسنیا کو فتح کر چکی تھی اور شہر کے لوگ فاتح سپاہیوں کی دست درازیوں کے خوف سے اپنے اپنے گھروں میں چھپے بیٹھے تھے۔۔۔اس وقت اچانک میرے گھر بچہ پیدا ہونے کی صورتحال بن گئی۔ میری بیوی بریٹا۔۔۔گھر میں اکیلی تکلیف میں مبتلا تھی اور شہر میں سلطان مراد کی فوج گشت کر رہی تھی۔ اسی اثناء میں عثمانی فوج کے کچھ سپاہی میرے گھر کے قریب سے گزرے اور انہوں نے بریٹا کی کراہیں سن کر اس کی بروقت مدد کی۔ اس طرح نہ صرف میری پیاری بیوی کی زندگی بچ گئی۔۔۔بلکہ میرا اکلوتا بچہ بھی صحیح سلامت اور زندہ رہا جو اس وقت تمہارے سامنے ہے۔۔۔بریٹا کو اس وقت اس سپاہی کا نام تو یاد نہیں تھا اس لئے اس نے مسلمانوں کے بادشاہ سلطان مراد کے نام پر ’’سولٹن‘‘ کا نام تجویز کیا۔ میں اس وقت ہونیا ڈے کی فوج میں تھا۔‘‘
رومیل کی کہانی قاسم کے لئے لرزہ انگیز تھی۔ کیونکہ یہ تو اس کی اپنی کہانی تھی۔ وہی تو تھا جس نے بوسنیا میں ایک چلاتی ہوئی عورت کی مدد کی تھی اور وہیں تو اس کی ملاقات حمیرا، مریم اور عباس سے ہوئی تھی۔ قاسم قدرت کے اس حسن اتفاق پر دنگ رہ گیا۔ کھانا اس کے حلق میں پھنس رہا تھا اور مارے حیرت کے اس کی بھنوئیں سکڑ چکی تھیں۔ اسے احساس ہوا کہ رومیل نے دروازے میں سچ کہا تھا اور وہ بلا وجہ رومیل پر شک کرتا رہا تھا۔ اس نے بریٹا کو غور سے دیکھا یہی وہ عورت تھی جس کی قاسم نے بروقت مدد کی تھی۔ اس دن تو قاسم اسے دیکھ بھی نہ سکا تھا کیونکہ یہ تو بیمار تھی۔ اور پھر قاسم نے ’’سولٹن‘‘ کی جانب دیکھا۔۔۔وہ قدرت کے اس عجیب کرشمے پر باربار حیران ہو رہا تھا۔ قدرت نے اسے کس موڑ پر بریٹا اور اس کے بچے سے ملوا دیا تھا۔ قاسم کی حیرت دیکھ کر رومیل پریشان ہونے لگا اور بولا۔
’’مورگن۔۔۔گھبراؤ مت۔۔۔ہم نے صرف اپنے بچے کا نام رکھا ہے۔ تاکہ ایک محسن کا احسان چکایا جا سکے۔ ہم مسلمان تو نہیں ہوئے۔۔۔تم کیوں پریشان ہوتے ہو؟‘‘
رومیل نے پہلی بار قاسم کو’’تم‘‘ کہہ کر پکارا تھا۔ قاسم کو یوں لگا جیسے اس کا بڑا بھائی طاہر بولا ہو۔۔۔کیونکہ رومیل کے لہجے میں ’’تلقین‘‘ کی جھلک تھی۔ قاسم نے رومیل کو غلط فہمی میں مبتلا ہوتے دیکھا تو فورا کہا۔
’’نہیں نہیں۔۔۔ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔مجھے تو خوشی ہوئی یہ سب سن کر۔۔۔آپ نے اپنے بچے کا نام سلطان مراد رکھ کر بہت اچھا کیا۔۔۔میں تو صرف حیران تھا عثمانی سپاہیوں کے کردار پر۔۔۔کہ وہ مسلمان ہو کر بھی اور فاتح ہو کر بھی ۔۔۔اس قدر اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ مسلمانوں کو دیکھنے کا میرا شوق اور بڑھا دیا ہے آپ نے۔‘‘
قاسم کو واقعتاً خوشی ہوئی تھی۔ اب وہ ان لوگوں میں اپنائیت محسوس کر رہا تھا۔ اسے اپنی بیوی حمیرا یاد آنے لگی۔۔۔جو لازمی طور پر ’’بریٹا‘‘ کی شناسا رہی ہوگی۔ عباس اور مریم ہی تو بریٹا کے پڑوسی تھے۔ مریم اس وقت قاسم کے بڑے بھائی طاہر کی بیوی تھی۔
قاسم ان لوگوں کے ساتھ جلد گھل مل گیا۔ لیکن اس نے اپنے دلی بات دل میں ہی رکھی۔‘‘
***
آیا صوٖفیاء
قسطنطنیہ اپنے جغرافیائی محل وقوع اور اپنی تہہ در تہہ تاریخ کے لحاظ سے دنیا کا ایک منفرد شہر تھا۔ اس شہر کے نام بھی مختلف زمانوں میں بدلتے رہے۔ اس کا سب سے قدیم نام ’’زارغراد‘‘ تھا۔ پھر ’’میکلہ غارو‘‘ ہوا۔ یونانی اور رومی دور کے ابتداء میں اسے ’’بیزنطہ‘‘ کہا گیا۔ پھر جب تیسری صدی عیسوی میں رومی بادشاہ ’’ قسطنطین‘‘ نے اس شہر کو اپنا پایۂ تخت بنایا تو اس کا نام رومی بادشاہ کے نام پر قسطنطنیہ ہوگیا۔ اس زمانے میں اسے ’’روم جدید‘‘ بھی کہا گیا۔ شروع زمانے کے بازنطینی لوگ اسے ’’ہپولس‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ عربوں نے اپنے دور میں اسے ’’مدینتہ الروم‘‘ کہہ کر پکارا۔
فی الحقیقت اسے رومی سلطنت کی ایک بڑی شاخ کہنا چاہئے۔ ’’روم‘‘ کا شہر جو ’’اٹلی‘‘ میں ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے ساڑھے سات سو سال پہلے آباد کیا گیا تھا۔ دراصل اٹلی میں ایک دریا ہے جس کا نام ہے ’’ٹائیبر‘‘ جو شمال کی طرف سے آتا ہے اور ’’روما‘‘ سے گزرتا ہوا پچیس میل نیچے ’’بحیرۂ روم‘‘ میں جا گرتا ہے۔ یہ دریا کبھی شاہراہ تجارت تھا۔ اس دریا کے ذریعے بڑی بڑی اشیاء کو بہا کر اور چھوٹی اشیاء کو کشتیوں میں بھر کر ’’فلورنس‘‘ سے ’’نیپلز‘‘ اور بعض دیگر مقامات تک تجارت کی جاتی تھی۔ اس دریا کے کنارے ایک مقامی سرسبزی اور دلکشی کی وجہ سے مہشور تھا۔ وہاں تاجر خیمے لگا کر راتوں کو ٹھہرتے اور صبح پھر دریا کے راستے روانہ ہو جاتے۔ دلادت مسیح ؑ سے ساڑھے سات سو سال پہلے ان تاجروں نے چندہ اکٹھاکرکے وہاں ایک سرائے بنا دی جہاں رفتہ رفتہ ایک شہر بن گیا۔ یہی شہر’’روم‘‘ کہلایا۔ اس زمانے میں ہر خاندان کا سردار الگ تھا جو خاندانی جھگرے چکاتا، شادیاں کراتا، ہر معاملے میں حکم چلاتا اور اپنے قبیلے کی بستیوں کو چھوٹے ڈاکوؤں یا بڑے حملہ آوروں سے بچاتا۔ چھٹی صدی قبل مسیح میں ایک ایشیائی قبلیہ وہاں جا نکلا۔ یہ لوگ ’’طارقنیز‘‘ (Tarquins)یعنی ’’تارکین‘‘ کہلاتے تھے۔ 509قبل مسیح میں یہاں ’’تاریکین‘‘ نئے ایک بہترین حکومت قائم کی۔ یہ یورپ کی پہلی جمہوریہ تھی۔ اس جمہوریت نے رفتہ رفتہ گردونواح کے تمام قبائل کو قابو کر لیا۔ یہاں تک کہ 265قبل مسیح میں ’’روم‘‘ اچھی خاصی طاقت بن گیا۔ اب فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا۔197ق م میں ’’سپین‘‘، ایک سال بعد ’’شمالی افریقہ‘‘ اور ’’مقدونیا‘‘ ، 64ق م ’’شام‘‘، 50ق م میں ’’فرانس‘‘ اور ’’بیلجیئم‘‘، 9عیسوی میں ’’جرمنی‘‘ 44عیسوی میں ’’برطانیہ‘‘ ، 105عیسوی میں ’’فلسطین‘‘، 114عیسوی میں ’’آرمینیا‘‘ اور 117عیسوی میں ’’عراق‘‘ سلطنت روما کا حصہ بن گئے۔
’’کارنیلیئس سلا‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے 78سال پہلے ’’روما‘‘ کا ایک قابل جرنیل تھا۔ یہ سیاستدانوں کی رقابت سے تنگ آگیا اور اس نے 83ق م میں پارلیمنٹ کو معطل کرکے ’’مارشل لاء‘‘ نافذ کر دیا۔ اس دور میں جمہوریت صرف خواص یا طبقۂ اشرافیہ کے لئے ہوتی تھی۔ جنرل ’’کارنیلیئس سلا‘‘ کی آمریت کے خلاف اس دور کی فلسفی ’’سسرو‘‘ نے تحریک چلائی۔ چنانچہ 79ق م میں ’’سلا‘‘ نے دوربارہ جمورہتی قائم کر دی اور خود سیاست سے کنارہ کش ہوگیا۔
’’جولئیس سیزر‘‘ سینٹ کا ممبر تھا۔ اسے58ق م میں ’’فرانس‘‘ کا گورنر مقرر کیا گیا۔ اس نے پہلے اردگرد کے علاقے فتح کئے۔ پھر ’’برطانیہ‘‘ پر حملہ کر دیا اور ’’دریائے ٹیمز‘‘ تک نکل گیا۔ ’’سیزر‘‘ کی ان کامیابیون کو دیکھ کر سینٹ کو ڈر پیدا ہوا کہ کہیں یہ آمر نہ بن جائے۔ چنانچہ 50ق م میں سینٹ نے حکم دیا کہ ’’سیزر‘‘ فوج کو منتشر کر دے۔ اس سے سیزر بگڑ گیا اور روم پر قبضہ کرکے ’’آمر‘‘ بن بیٹھا۔
جولئیس سیزر سے رومی شہنشاہوں کا سلسلہ شروع ہو کر پنج صدیوں تک اسی شہر میں جاری رہا۔ یہاں تک کہ 305عیسوی میں ’’روما‘‘ کے شہنشاہ ’’قسطنطین اول‘‘ کی پیدائش ہوئی۔ اس نے330عیسوی میں ایک گاؤں بائیز ینٹئیم کو اپنا پائیہ تخت بنا لیا اور پھر یہ گاؤں ’’بائیز ینٹیم‘‘ کی بجائے قسطنطین اول کے نام پر ’’قسطنطنیہ‘‘ کہلانے لگا۔ قسطنطین اول کی وفات کے بعد اس کے بیٹوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوا اور سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ ایک حصہ قسطنطنیہ کہلایا اور دوسرا حصہ جو ’’روما‘‘ میں تھا۔ ’’روم‘‘ کہلایا۔ بعد ازاں ان دونوں حصوں کے مذہبی اختلافات بھی پیدا ہوگئے۔ اور روما کے لوگوں نے رومن کیتھولک مذہب اختیار کر لیا۔ جبکہ قسطنطنیہ میں یونانی کلیسا کے ماتحت ’’دی ہولی آرتھوڈکس‘‘ کا مذہب رائج تھا۔ ’’قسطنطین اول‘‘ کے بعد ’’قسطنطین دواز دہم‘‘ (بارہ) تک اس سلطنت میں یعنی قسطنطنیہ میں بیاسی شہنشاہ گزرے جن میں صرف قسطنطین نام کے شہنشاہوں کی تعداد بارہ ہے۔ قسطنطنیہ کے ان شہنشاہوں کو ’’قیاصرۂ روم‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اب رومی سلطنت دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔ غربی شاخ ’’رومن ایمپائر‘‘ اور مشرقی شاخ ’’بایز ینٹائن‘‘ ایمپائر کے نام سے مشہور ہوئی۔
(جاری ہے ۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)