قانون کی حکمرانی کیلئے بلا تفریق قانون پر بلا امتیاز عملدر آمد ناگز یرہے، مقررین
پشاور (سٹی رپورٹر) قانون کی حکمرانی کے لئے بلا تفریق انصاف اور قانون پر بلا امتیاز عملدرآمد ضروری ہے۔ کیونکہ صرف اس صورت میں ہم ایک جمہوری اور ترقی پسند معاشرے کو تشکیل دے سکتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار ایس ایس پی آپریشن پشاور منصور امان نے سی آر ایس ایس کے اولسی تڑون پراجیکٹ کے زیر اہتمام سماجی ہم آہنگی میں اساتذہ کا کردار کے موضوع پر ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پشاور یونیورسٹی میں منعقدہ ورکشاپ میں بارہ یونیورسٹیوں کے تائیس مرد و خواتین اساتذہ نے حصہ لیا۔ سی آر ایس ایس کے اولسی تڑون کا بنیادی مقصد فاصلوں کو مٹانا اور عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہے تاکہ ایک پر امن اور ترقیافتہ معاشرے کے قیام کو ممکن بنایا جاسکے۔ خیبر پختونخوا کے تیس سے زائد جامعات کیساتھ سی آر ایس ایس کا یہ مشترکہ منصوبہ گزشتہ اڑھائی سال سے جاری ہے جس میں اب تک تقریبا نو سو طلباء و طالبات حصہ لے چکے ہیں۔اساتذہ کے لئے منعقدہ ورکشاپ کا مقصد سماجی ہم آہنگی کے لئے ان کی حساسیت کو ابھارنا تھا۔ منصور امان نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کے لئے جامع پالیسی سازی کی ضرورت ہے اور اس میں ثقافت اخلاق اور روایات کا مکمل خیال رکھنا چاہیے۔ تاکہ یہ انتشار کی بجائے اتفاق کا زینہ ثابت ہوجائے۔ انھوں نے کہا کہ ریاستی قانون کی بالا دستی کی وجہ یہ ہے کہ یہ قانون بلا امتیاز تمام شہریوں کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔انصاف کی فراہمی میں امتیازبرتنا نہ صرف قانون کی حکمرانی کے خلاف ہے بلکہ یہ سماجی ہم آہنگی کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ثقافت اور روایات کے مابین تصادم معاشرتی امن اور ملکی ترقی کے لئے تباہ کن ہے اس لئے بلا امتیاز انصاف اور قانون کی بالا دستی کے ذریعے اس سے چٹکارہ پایا جائے۔ وسرے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے چیئر مین شعبہ فلسفہ پشاور یونیورسٹی ڈاکٹر شجاع احمد نے کہا کہ تنقیدی سوچ اور منطقی انداز سے سوال کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کو دستیاب معلومات میں سے مناسب معلومات جمع کرنے اور اس کو استعمال کرنے کا موقع ملتا ہے دیگر شرکاء نے اپنے خطاب میں کہا کہ تنقیدی سوچ کے ذریعے مسائل کا حل نکالنے کے لئے سات عادتیں اپنانے کی ضرورت ہے جس میں، سچائی کی تلاش، آزادانہ سوچ،تجزیہ کرنے کی صلاحیت، نظم و نسق، استدلال پر یقین،حقیقت پسند ذہنیت اور پختہ فیصلے کی قوت شامل ہیں۔ یہی عادات ایک پر امن اور ترقی پسند معاشرے کے ہر فرد کے لئے ناگزیر ہیں۔ مدلل گفتگو کرنے کا فن اور اسکی مشق انسان کو غیر ضروری مباحثوں اور اختلافات سے بچاتا ہے۔ تنقیدی سوچ کا مطلب منطقی انداز سے سوال کرنے اور استدلال کیساتھ بات کرنے کا فن ہے شرکاء نے کہا کہ اگر ہم سماجی ہم آہنگی کو انسانی جسم کی طرح تصور کر لے جہاں ہر ایک عضو اپنا اپنا کام کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کرتا ہے اور بحیثیت مجموعی انسانی جسم کی تشکیل اور مقصد کو پورا کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح ایک پر امن اور ہم آہنگ معاشرے میں ہر طبقہ اپنا بنیادی کردار ادا کرتے ہوئے معاشرتی امن اور ترقی میں مددگار ہوتا ہے جس میں اساتذہ کا کردار کلیدی اور نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ نوجوانوں میں امن اور ہم آہنگی کا پیغام عام کرنے کے لئے اساتذہ کو رول ماڈل کے طور پر اپنا کردار نبہانے کی ضرورت ہے۔ تقریب کے آخر میں حصہ لینے والے اساتذہ میں سرٹیفیکیٹس تقسیم کئے گئے۔