قبولِ اسلام کب اور کیسے۔۔۔؟ کتاب و سنت سے رہنمائی۔۔۔!!
سورت شورٰی کی آیت نمبر 13 میں ارشاد ربانی ہوتا ہے کہ۔ ترجمہ! اسی نے مقرر کیا ہے تمہارے لئے دین کا وہ طریقہ جس کی ہدایت کی تھی اس نے (سیدنا) نوح (علیہ السلام) کو اور یہی وہ دین (اسلام) ہے جسے وحی کیا ہے ہم نے (اے محمد ﷺ) آپ کی طرف اور وہ جس کاحکم دیاتھا ہم نے (سیدنا )ابراھیم (علیہ السلام) کو(سیدنا)موسی(علیہ السلام) اور (سیدنا )عیسیٰ (علیہ السلام) کو ،وہ یہ ہے کہ قائم کرو دین کو اور نہ پھوٹ ڈالو اس میں ۔بہت گراں ہے مشرکوں پر وہ بات ،بلاتے ہو تم اُنہیں جس کی طرف۔اللہ منتخب کر لیتا ہے اپنے لیے جسے چاہے اور راستہ دکھاتا ہے اپنی طرف آنے کا اس شخص کو جو رجوع کرتا ہے (اس کی جانب)۔
روزِ اوّل سے لیکر تاقیامت تمام انبیآء کرام علیہم السلام کا یہی دین رہا ہے کہ ایک اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے پس جو حضرت سیدنا عُزیر علیہ السلام اور حضرت سیدنا عیسٰی علیہ السلام کو اللہ تعالی کا بیٹا مانتے ہیں یا جو بےوقوف بتوں،مورتیوں درختوں،پتھروں اور چاند سورج ستاروں کو پوجتے ہیں اُن کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔
سورت بقرہ کی آیت نمبر 19 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ "اللہ تعالی کے نزدیک مقبول اور پسندیدہ دین صرف اسلام ہے"اسلام کے معنی اپنے آپ کو ایک اللہ کے حوالے اور سپرد کر دینے کے ہیں۔لہذا مسلمان اسی بندہ کو کہتے ہیں جس نے ہمہ تن اپنے آپ کو خدائے واحد کے سپرد کر دیا ہو اور اس کے احکام کے سامنے گردن ڈال دی ہو،بالفاظ دیگر اسلام نام ہے اطاعت وفرمانبرداری کا اور مسلمان اس بندے کا نام ہے جو خدائے واحد کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو۔۔
توحید اور اخلاص واطاعت کے لحاظ سے تمام انبیآء کرام علیہم السلام اور تمام ادیان سماویہ متفق رہے چنانچہ سورت انبیآء کی آیت نمبر 25 میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ترجمہ ! اور نہیں بھیجا ہم نے تم سے پہلے کوئی رسولؑ مگر وحی بھیجتے رہے ہیں ہم اس کے پاس یہ کہ نہیں ہے کوئی معبود سوائے میرے،سو میری ہی عبادت کرو۔
دینِ اسلام تمام انبیآء کرام کا دین ہے جو کہ سیدنا آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور خاتم النبیین سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ اسی دین ( اسلام ) کی دعوت دینے کیلئے مبعوث ہوئے جس کی تمام انبیآء کرام علیہم السلام دعوت دیتے چلے آئے،آخرت کی نجات کا دارومدار یہی دینِ اسلام ہے،اس کے سوا اللہ کے یہاں کوئی دین قبول نہیں کیا جائے گا چنانچہ سورت آل عمران کی آیت نمبر 85 میں ارشاد ربانی ہوتا ہے ترجمہ! اور جو اختیار کرنا چاہے اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تو ہرگز قبول نہ کیا جائے گا یہ اس سے،اور وہ(ہو گا)آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے۔
مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالی نے دینِ اسلام کی حقانیت اور اسکے پسندیدۂ حق ہونے کا اعلان کرنے کے بعد اسلام سے اعراض کرنے والوں کو آخرت کی ناکامی و خسارہ کی وعید سنائی گئی ہے کہ جو شخص اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے اور توحید کو چھوڑ کر شرک اختیار کرے وہ عنداللہ مقبول نہیں ہوگا ۔اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے مکمل اور جامع ہے۔زندگی کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہے۔اس لیے تم اسلام سے ہمکنار ہو جاؤ ۔اسی کے سبب نجات وسرخروئی حاصل ہو گی۔تم اگر اس بات کو سمجھ لینے کے باوجود اپنی ضد وعناد پر ڈٹے رہو گے اور اسلام کے سوا کسی اور مذہب کو تلاش کرو گے تو یقیناً وہ غلط ،گمراہ کن اور من گھڑت ہو گا ۔اس لیے ہرگز ہرگز قبول نہ کیا جائے گا بلکہ ان لوگوں کو اس کفر و انکار کی سزا ملے گی ۔آخرت میں وہ اپنے آپ کو خسارہ میں پائیں گے ۔
حقیقتاً اسلام رواداری،امن وسلامتی اور احترام انسانیت کا درس دیتا ہے، اسکی دعوت آفاقی و عالمیگر اور جامع ہے۔ اس کی تعلیمات تمام افرادِ بشر کے لیے ہیں ۔دینِ اسلام میں اکراہ اور زبردستی کا کوئی تصور نہیں کیونکہ اسلام کیلئے تصدیقِ قلبی اور دلیِ یقین کا اعتبار ہے اور دل پر کسی کی زبردستی چل نہیں سکتی۔اگر کوئی انسان رضا و رغبت سے اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو اس کیلئے جبر و اکراہ کی ضرورت نہیں۔ویسے بھی دنیا تو دارِ ابتلآء اور دارِ امتحان ہے،انسان کو اختیار ہے ایمان لا کر اطاعت و فرمانبرداری والی زندگی بسر کرے یا کفر کی حالت میں معصیت و نافرمانی والی زندگی گزارے۔اس لئے جزا وسزا ہے۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ یہ (حضرت)حصین انصاری رضی اللہ عنہ مشرف بہ اسلام ہو چکے تھے اور (حضرت) حصین انصاری کے دو بیٹے عیسائی تھے۔ ایک روز انہوں نے آنحضرتﷺسے عرض کیا کہ مجھ پر ان کا نصرانی ہونا بہت گراں ہے اگر آپﷺ اجازت دیں تو میں اپنے دونوں بیٹوں کو اسلام پر مجبور کروں؟اس پر سورت بقرہ کی آیت نمبر 256 نازل ہوئی جسمیں رشاد ربانی ہوتا ہے کہ" دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں،ہدایت کا راستہ گمراہی سے ممتاز ہو کر واضح ہو چکا اس کے بعد جو شخص طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آئے گا اس نے ایک مضبوط کنڈا تھام لیا جس کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں اور اللہ خوب سننے والا،سب کچھ جاننے والا ہے۔"
اس آیت مبارکہ سے اسلام کی مذہبی آزادی واضح ہوتی ہے کہ اسلام ہر شخص کو مذہب کے بارے میں اختیار دیتا ہے ۔اسلام کی مکمل تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ مسلمانوں نے کبھی اپنے ہمسایوں بلکہ محکوم رعایا کو بھی اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا ۔یعنی کسی پر اسلام میں داخل ہونے کیلئے جبر اور زبردستی نہ کرو ہم نے ہدایت اور ضلالت کا فرق واضح کر دیا یعنی اسلام کا حُسن وجمال اور باطل کا قبح خوب ظاہر اور نمایاں ہو گیا اور زبردستی اس امر پر ہوتی ہے جو ناپسندیدہ ہو اور کرنے کا دل اس سے خوش نہ ہو اور اسلام کا حُسن وجمال ایسا بے مثال ہے کہ عقل سلیم اس پر فریفتہ ہے اسلئے جس کا جی چاہے ایمان لائے اور جس کا جی چاہے کفر اختیار کرے۔۔۔۔۔یعنی انسان ایمان و کفر کے قبول کرنے میں مختار ہے مجبور نہیں اسی طرح تمام اعمال خیر وشر کے کرنے میں بھی مختار ہے مجبور نہیں۔لیکن اچھے اور بُرے افعال پر ان کے مناسب جزا و سزا کا مرتب ہونا جبر و اکراہ کو مستلزم نہیں " (حدود و تعزیرات کا نفاذ جبر و اکراہ نہیں )مثلاً چور کا ہاتھ کاٹنا،زانی محصن کو سنگسار کیا جانا اور خونِ ناحق کا قصاص لیا جانا یہ تمام تر انسان کے افعالِ اختیاریہ کی سزا ہے جبر و اکراہ نہیں۔
ایک شخص نے اپنے اختیار سے چوری اور زنا کا ارتکاب کیا اس لئے یہ سزا بھگتنی پڑی۔یعنی اسلام قبول کرنے کے بعد احکام الٰہیہ کو ماننا ہو گا ،اب آزادی اور اختیار کا سوال نہیں رہتا ،آزادی صرف اسلام کے قبول اور رد کرنے میں ہے عمل میں نہیں ۔ پس اسی طرح جو مسلمان مرتد اور سزائے ارتداد میں قتل کیا گیا تو یہ جبر و اکراہ نہیں بلکہ اس کے فعل اختیاری (ارتداد) کی سزا ہے اور کافروں سے جہاد وقتال اُن کے فعل اختیاری(فساد فی الارض) پر ہے،یعنی کفر کی جزا ہے۔ جہاد وقتال کا مقصد یہ نہیں کہ کافروں کو بزورِ شمشیر مسلمان بنانا جائے بلکہ اس سے مقصود دنیا کو فتنہ وفساد سے پاک کیا جائے۔
سورت بقرہ کی آیت نمبر 193 میں ارشاد ربانی ہوتا ہے کہ ترجمہ ! اور لڑو ان سے یہاں تک کہ نہ رہے باقی فساد اور حکم رہے باقی اللہ تعالی کا۔لہذا جہاد و قتال کی تعلیم لوگوں کو قبولِ اسلام پر مجبور کرنے کیلئے نہیں ہے،ورنہ جزیہ لیکر کفار کو اپنی ذمہ داری میں رکھنے اور انکی جان ومال،عزت و آبرو کی حفاظت کرنے کیلئے اسلامی احکام کیسے جاری ہوتے، بلکہ دفعِ فساد کیلئے ہے کیونکہ اللہ تعالی فساد کو پسند نہیں فرماتے چنانچہ اللہ تعالی فرماتے ہیں ترجمہ ! یہ (کافر)لوگ زمین میں فساد کرتے پھرتے ہیں اور اللہ تعالی فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔۔(سورت مائدہ )
اسلام نے عورتوں ،بچوں،بوڑھوں اور اپاہج وغیرھ کے قتل کو عین میدانِ جہاد میں بھی سختی سے روکا ہے،کیونکہ وہ فساد کرنے پر قادر نہیں ہوتے ،ایسے ہی اُن لوگوں کے بھی قتل کرنے سے روکا ہے جو جزیہ ادا کرنے کا وعدہ کر کے قانون کے پابند ہو گئے ہوں،اسلام کے اس طرزِ عمل سے واضح ہوا کہ جہاد و قتال لوگوں کو ایمان قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتا بلکہ اس سے وہ دنیا میں ظلم و ستم کو مٹا کر عدل و انصاف اور امن وامان قائم رکھنا چاہتا ہے،امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک نصرانی بڑھیا کو اسلام کی دعوت دی تو اس کے جواب میں اس نے کہا میں ایک قریب المرگ بُڑھیا ہوں ،آخری وقت اپنا مذہب کیوں چھوڑوں؟؟؟ حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے یہ سن کراس کو ایمان لانے پر مجبور نہیں کیا،بلکہ یہی آیت تلاوت فرمائی،لا اکراہ فی الدین ،یعنی دین میں زبردستی نہیں ہے۔
اسلام جس طرح یہ گوارا نہیں کرتا کہ کسی کو جبرْا مسلمان بنایا جائے اسی طرح وہ یہ بھی برداشت نہیں کرتا کہ کوئی اس کے ماننے والوں کو تشدد کر کے انہیں اسلام سے برگشتہ کرے یا جو بخوشی اسلام کی برادری میں شامل ہونا چاہے اسے ایسا کرنے سے زبردستی روکے اور اگر کہیں ایسی صورتِ حال پیدا ہو جائے تو اسلام اس وقت اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ان ظالم قوتوں کا مقابلہ کریں اور یہی اسلام کا نظریہ جہاد ہے۔
کم عمری میں اسلام قبول کرنے والے چند حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کے اسم گرامی پیشِ خدمت ہیں۔امیرالمؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے دس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ آٹھ سال کی عمر میں رسول کریمﷺ کے خادمِ خاص ٹھہرے۔حضرت سیدنا عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے دس سال سے کم عمر بھی حضور نبی کریمﷺ کے دستِ مبارک پر بیعت فرمائی۔حضرت سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے گیارہ سال کی عمر میں ہجرت فرمائی ۔حضرت سیدنا معاذ بن عفراء رضی اللہ عنہ بارہ یا تیرا سال کی عمر میں غزوہ بدر میں شریک ہوئے اور ابوجہل کو جھنم رسید کیا۔حضرت سیدنا معاذ بن عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں غزوہ بدر میں شریک ہوئے اور ابوجہل کو جھنم رسید کیا۔حضرت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ تیرہ سال کی عمر میں غزوہ احد میں شرکت کیلئے پیش ہوئے۔ حضرت سیدنا عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سولہ سال کی عمر میں غزوہ بدر میں شہید ہوئے ۔