ڈاکٹر روبوٹ نہیں
لاہور میں آج کل ہر دوسرے گھر کی کہانی بخار کے اردگرد گھوم رہی ہے، ایک طرف کورونا، دوسری طرف ڈینگی پورے جوبن پر ہے تو تیسری طرف عام وائرل بخار بھی اچھے بھلے انسان کو جھنجھوڑ رہا ہے گو کہ اس بار ایمان داری و عاجزی کی عمدہ مثال چیف سیکرٹری پنجاب جناب ڈاکٹر کامران علی افضل کے فوری اور مؤثر اقدامات کی بدولت ڈینگی اس طرح نہیں پھیلا جیسا کہ پچھلے سال ہوا، میری ساری فیملی سمیت پورا محلہ ڈینگی کا شکار ہوا، بڑا ہی کٹھن اور مشکل وقت گزارا، 104 بخار، شدید جسم درد اور 5 دن کے بعد جسم میں خارش اس قدر کہ نہ پوچھئے، کوئی دوا کارگر ثابت نہ ہوئی۔
خاکسار نے اس وقت کی انتظامیہ کو بار بار لکھا کہ برائے مہربانی ڈینگی سکواڈ کو ایکٹو کریں، ویجلنس کو بڑھایا جائے، ڈینگی لاروا تلف کرنے کے کام میں کوتاہی نہ برتی جائے، سپرے کا اہتمام کیا جائے لیکن صد افسوس ہم چیختے ہی رہ گئے، سب بھنگ پی کر خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے، شکر ہے، اس سیزن میں چھاپہ مار ٹیمیں متعدد بار چکر لگا چکی ہیں، نتیجے کے طور پر ڈینگی کی متوقع شدت سے بچا جا سکا ہے۔ اس کام میں محکمہ صحت پنجاب کے باکمال، لاجواب، دبنگ سیکرٹری صحت جناب سکندر بلوچ، مسز صالحہ سعید سپیشل سیکرٹری صحت اور ان کی ٹیم کی محنت رنگ لائی ہے۔ امید ہے، ڈینگی ٹیمیں سیزن میں فعال ہی رہیں گی، خیر بات چل رہی تھی ہر طرف بخار کے تابڑ توڑ حملوں کی، بندہ ناچیز کو 6 دن پہلے ناک میں ہلکی خراش محسوس ہوئی، اگلے دن ناک بہنا شروع ہو گیا اور ساتھ ہی 101 بخار، جسم درد کی شکایت ہو گئی، حسب عادت اپنی پسندیدہ اینٹی بائیوٹک ازیتھرومائسن کے ساتھ پیناڈول شروع کی، بخار نے کہا، ابھی تو میں چلوں گا، بخار101 سے 103 تک پہنچ گیا اور ساتھ ہی موشن بھی آ گئے، جسم میں تھکاوٹ نقاہت، کمزوری سے محسوس ہونے لگی، منہ کا ذائقہ کڑوا، بھوک کا دور دور تک کہیں نام و نشان نہیں تھا، رات کو او آر ایس اور کیلے کھانے پر اکتفا کیا، جب 3 دن تک بخار نے اترنے کا نام نہ لیا اور پیٹ بھی خراب ہوا تو میں نے اپنے دوست پروفیسر ڈاکٹر محمد عرفان ملک آف لاہور جنرل اسپتال سے رابطہ کیا جن کی کورونا میں خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہ ہیں، آپ اپنے دھیمے لہجے، مریضوں کے ساتھ حسن سلوک کی وجہ شہرت رکھتے ہیں، مجھے بھی ڈاکٹر عرفان ملک کی ایک بات بہت پسند ہے، آپ دوا تجویز کرنے کے ساتھ ساتھ تسلی وتشفی کا ایسا شاندار کیپسول دیتے ہیں کہ بندہ 70 % تو تب ٹھیک ہی ہو جاتا ہے، ڈاکٹر عرفان نے کہا، وائرل بخار ہے، کورونا نہیں ہے، پریشانی والی بات نہیں، دوا جاری رکھیں، تھوڑا وقت لگے گا، ایک لازمی شرط یہ ہے مکمل آرام اس وائرل بخار کو ٹھکانے لگانے کا نسخہ کیمیا ہے، میں نے کہا، عرفان بھائی، آپ بھی ڈاکٹر ہیں، میں بھی ڈاکٹر ہوں، ہماری قسمت میں آرام کہاں؟ ہمارے نصیب میں چھٹی کرنا کہاں لکھا ہے، عام عوام بھی ڈاکٹروں کو خلائی مخلوق تصور کرتی ہے، لوگوں کے خیال میں ڈاکٹر نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں نہ سوتے ہیں نہ ان کی کوئی غمی ہے نا کوئی خوشی اور ڈاکٹر بیمار ہو جائے، کیا بات کر رہے ہیں، ایسے بھلا کیسے ہو سکتا ہے؟ ڈاکٹر تو پیدا ہوا ہے صرف اور صرف مریضوں کو چیک کرنے کے لئے ہے۔
ڈاکٹر عرفان جن کو سوال کرنے کی عادت نہیں، معصومیت سے پوچھنے لگے، یار اگر ڈاکٹر بیمار ہو جائے تو پھر اس کو کون دیکھے گا؟ وہ بیمار ڈاکٹر اگر مریضوں کا دوران بیماری معائنہ کرے گا تو وہ خدانخواستہ وائرل انفیکشن کو دوسروں میں منتقل کرنے کا بہترین ذریعہ بنے گا، یہ تو پھر خدمت کے بجائے، وبال جان بننے والی بات ہے۔
میں نے ڈاکٹر عرفان سے کہا، اب ڈاکٹر بن گئے، کیا کیا جا سکتا ہے، یہ امریکہ، یورپ، یوکے، گلف تو ہے نہیں جہاں ڈاکٹروں کو اعلیٰ تنخواہ اور مراعات کے ساتھ نوکری پر رکھا جاتا ہے، وہاں ڈاکٹر تو ڈاکٹر ایک عام ورکر کو بھی ہر سال تنخواہ کے ساتھ چھٹیاں دی جاتی ہیں تاکہ وہ ریلیکس، تازہ دم ہو کر کام پر واپس آئے، اس کی کارکردگی بڑھے اور ادارہ ترقی و خوشحالی کی طرف گامزن ہو، اپنے ہاں الٹا پہیا چلتا ہے کہ چھٹیاں دینے سے کام متاثر ہو گا، بیماری کی صورت میں چھٹی دینا بھی مناسب نہ ہے، مریض کون دیکھے گا یعنی ڈاکٹر جو خود مریض بن چکا وہ بیچارا مرے یا جئے کوئی پرواہ نہیں، بس مریض کا معائنہ ہر صورت کرنا ہو گا اور ڈاکٹر حضرات تو پیدا ہی خدمت کرنے کے لئے ہوئے ہیں حالانکہ بیمار بندے کے لئے تو آسانیاں پیدا کرنی چاہئیں کیونکہ دین اسلام میں بیمار بندے سے دعا کروانے کی تلقین فرمائی گئی ہے۔
خیر سے پرائیویٹ اسپتالوں، کلینکس اور لیبارٹری ٹیسٹوں، ادویات پر مجال ہے کوئی خاطرخواہ رعایت دی جائے، خانہ پری کے لئے اونٹ کے منہ میں زیرہ والی داستان دھرائی جاتی ہے، کبھی کبھار تو مجھے ڈاکٹر دنیا کا سب سے مظلوم و مجبور طبقہ لگتا ہے، مجھے یہ بھی محسوس ہوتا ہے، روز قیامت مخلوق کی خدمت کرنے والے مسیحاؤں کا حساب بھی آسان ہو گا۔ ویسے اپنے خوشبودار معاشرے میں ہر بندے کی سوچ یہ ہے کہ ڈاکٹر تو روپے پیسے میں ڈوبے رہتے ہیں، ایم بی بی ایس کرنے کے بعد پیسوں کی ریل پیل شروع ہو جاتی ہے جو بالکل غلط سٹوری ہے، پیسے میں کھیلنے والے ڈاکٹروں کی تعداد سو میں سے دس فیصد ہوگی باقی تو بیچارے دن رات خرچے پورے کرنے میں ہی بوڑھے ہو جاتے ہیں یا پھر پروموشن کے چکر میں ہیلتھ سیکرٹریٹ کے چکر لگا لگا کر ریٹائر ہو جاتے ہیں اور شاید یہ بات چند لوگوں کو معلوم ہو گی، سرجنوں کی عمریں تو آپریشن کر کر کے دس سال ٹینشن کی وجہ سے پہلے ہی کم ہو چکی ہوتی ہے، ستم ظریفی کی انتہا ہے، احساس سے عاری ہمارا بے حس معاشرہ ڈاکٹروں کے دکھ درد ان کی اضطرابی کیفیت کا اندازہ لگانے سے کوسوں دور ہے، ہر کسی کو اپنی پڑی ہے، کبھی کسی نے ڈاکٹر سے بھی آکر پوچھا، تمہارا کوئی ذاتی مسئلہ تو نہیں؟ دو دن پہلے دوران بخار میرے علم میں آیا کہ سروسز انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے طالب علموں کے لئے سرکاری ہوسٹل نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں یعنی پنجاب کے دارالخلافہ لاہور شہر کے عین وسط جی او آر، سی ایم ہاؤس سے منسلک جیل روڈ پر واقع سمز کے میڈیکل سٹوڈنٹس بھاری بھرکم فیسوں پر شادمان میں کرائے کے پرانے مکانات جن کو ہوسٹل قرار دیا گیا ہے، میں رہنے پر مجبور ہیں، جہاں پر نہ کوئی میس نہ صفائی و ستھرائی، گندے واش رومز، نہ سیکورٹی کا انتظام مطلب کوئی پرسان حال ہی نہیں۔ مجھے مستقبل کے ان معماروں کی حالت زار پر بڑا ترس آیا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کاش کوئی جا کر ذمہ داران کو بتائے
ڈاکٹر روبوٹ نہیں۔
یہ سب عزت کے بھوکے ہوتے ہیں۔
یہ سب زیادتیاں، سب ناانصافیاں تکلیف میں مبتلا مریض دیکھ کر بھول جاتے ہیں۔
ان کو پھر مریض کی جان بچانے کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
خدارا! اللہ کے ایسے پسندیدہ بندوں کی قدر کیجئے۔